قائد اعظم ؒ نے 1948 میں ممکنہ سانحہ سے خبردار کردیا تھا

غلام محی الدین / سید عاصم محمود  بدھ 16 دسمبر 2020
بنگلہ دیش کی آزادی کا کریڈٹ لینے والی ہندو قیادت آج مسلم بنگالیوں کو دیمک قرار دے رہی ہے

بنگلہ دیش کی آزادی کا کریڈٹ لینے والی ہندو قیادت آج مسلم بنگالیوں کو دیمک قرار دے رہی ہے

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناں قیام پاکستان کے بعد پہلی مرتبہ 19 مارچ 1948ء کو مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کے دورے پر ڈھاکہ پہنچے۔ ان کا یہ دورہ مشرقی پاکستان کا آخری دورہ بھی ثابت ہوا۔ اُن دنوں بھارت کی پشت پناہی میں مشرقی پاکستان میں علیحدگی پسندی کے رجحان کو بڑھاوا دینے کے بھارتی منصوبے کا آغاز ہو چکا تھا۔ بھارت جو سبق بنگالی پاکستانیوں کو پڑھا رہا تھا وہ یہ تھا کہ اکثریت کی بناء پر ملک کی قومی زبان بنگالی ہونی چاہئے۔

21 مارچ کو قائد اعظم نے ریس کورس ڈھاکہ میں ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ انتشار کی قوتوں کو ساتھ ملا کر پاکستان کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔

24 مارچ کو قائد نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں کانووکیشن کی تقریب میں شرکت کی۔ اس موقع پر انہوں نے کہا ’’ہم نے غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالی ہیں۔ اب ہم آزاد شہری ہیں، ہماری ریاست ہماری اپنی ریاست ہے، ہماری حکومت ہماری اپنی حکومت ہے، ہمارے اپنے لوگوں کی حکومت ہے اور یہ حکومت لوگوں کی فلاں وبہبود کے لئے کام کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا ہمارے دشمن ’اور مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان میں اب بھی ہمارے اپنے مسلمان بھائی بھی شامل ہیں‘ پوری شد و مد کے ساتھ اس امید کے ساتھ صوبائیت کو ہوا دینے کے راستے پر گامزن ہیں کہ پاکستان کو کمزور کر کے اس صوبے کو انڈین ڈومین کا حصہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ایسا کھیل کھیلنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں لیکن یہ بات انہیں ایسا کرنے کی کوشش سے روک نہیں سکتی۔

جہاں تک ریاست کی قومی زبان کا تعلق ہے تو میں یہ بات واضح کر دوں کہ صوبے کے اندر سرکاری سطح پر صوبہ کوئی بھی زبان اختیار کر سکتا ہے۔ لیکن ہمیں ایک رابطے کی زبان بھی درکار ہے۔ ایک ایسی زبان جو تمام صوبوں کے درمیان رابطے کی زبان ہو اور وہ زبان صرف اور صرف اردو ہی ہو سکتی ہے، وہی زبان جسے اس برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں نے باہمی طور پر پروان چڑھایا ہے۔ ایک ایسی زبان جسے پورے براعظم کے طول و عرض میں سمجھا جاتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک ایسی زبان جو باقی کسی بھی صوبائی زبان سے کہیں بڑھ کر اسلامی کلچر اور روایات سے مطابقت رکھتی ہے اور دیگر اسلامی ممالک کی زبانوں کے بھی قریب تر ہے۔

28 مارچ کی شام ڈھاکہ سے روانگی سے قبل انہوں نے ڈھاکہ ریڈیو سٹیشن سے عوام سے اپنے نشری خطاب میں آپ نے فرمایا:

’’اگر ہم لوگ اپنے آپ کو بنگالی، پنجابی، سندھی وغیرہ پہلے، اور مسلمان اور پاکستانی محض اتفاقاً تصور کرنے لگے تو پھر پاکستان لازماً ٹوٹ اور بکھر جائے گا۔ مت سوچیں کہ یہ کوئی انہونی بات ہے۔ ہمارے دشمنوں کو پتہ ہے کہ ایسا ممکن ہے اور وہ اس مقصد کے لئے پہلے ہی کام شروع کر چکے ہیں۔‘‘

قائد اعظم کی ان باتوں سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ حالات سے کس قدر باخبر تھے اور صورتحال کا کس قدر درست تجزیہ کر کے حتمی نتیجے  پر پہنچ چکے تھے ۔ ایک عظیم لیڈر کا یہی کام ہوتا ہے کہ وہ آنے والے خطرات کا قبل از وقت اندازہ لگا کر قوم کو ان سے نہ صرف آگاہ کر دے بلکہ ان مقابلہ کرنے کا نسخہ بھی بتا دے۔ افسوس کہ ہم نے نہ صرف یہ کہ کہ دشمن کی سازش کا توڑ کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ دشمن شعوری  یا شعوری طور پر دشمن کا آلہ کار بن کر واقعات کی رفتار کو مزید تیز کرنے کا باعث بن گئے۔ اس سے بھی افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارے ملک میں دشمن کی جانب سے تفریق اور تصادم کی کوششوں کو بڑھاوا دینے والے عناصر آج بھی سر گرم عمل ہیں جن کا ہر سطح پر مقابلہ کرنا ہر پاکستان کا فرض اولین ہونا چاہیے۔

1971ء کا سال پاکستان کی تاریخ کا بدترین برس تھا۔

1965 میں بے مثال جذبہ اور کارکردگی دکھانے والی پاک فوج اور پاکستان کے عوام بری طرح ناکامی سے دوچار ہوئے۔ 1970ء کے عام انتخابات کو ملکی تاریخ کے سب سے شفاف اور منصفانہ الیکشن قرار دیا جاتا ہے اور ان انتخابات کے منصفانہ اور غیرجانبدارانہ انعقاد کو پاک فوج نے ممکن بنایا تھا لیکن ان انتخابات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ممکنہ صورت حال کا درست اندازہ لگانے کی شاید نہ سنجیدہ کوشش کی گئی اور نہ پیش بندی۔ انتخابات کے محض تین ماہ بعد پاک فوج مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) میں خانہ جنگی کی دلدل میں دھنس چکی تھی۔

پورے نو مہینوں تک انتخابات میں حصہ لینے والی اہم جماعتوں کے قائدین اقتدار اور اختیارات کے زیادہ سے زیادہ حصے پر قبضہ جمانے کے لئے باہم دست وگریباں رہے۔ اس بات کا لحاظ کئے بغیر کہ اس چھینا جھپٹی میں ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس سیاسی عدم استحکام نے خانہ جنگی اور پھر عام بغاوت کی صورت اختیار کر لی۔ اس دوران جن لوگوں نے آنے والی تباہی کی نشاندہی کی اور حالات کو بہتری کی جانب لانے کی تگ ودو کرتے رہے انہیں بری طرح سے نظرانداز کیا گیا۔ نتیجتاً پاکستان دشمن بھارت کے ساتھ ایک ایسی بے جوڑ جنگ میں اُلجھ گیا جس میں شکست نوشتہ دیوار تھی۔

جہاں علم کی قدرافزائی نہیں ہوتی وہاں غلطیوں پر احساس زیاں نہیں ہوتا، جہاں احساس زیاں جاتا رہے وہاں دانائی کا گزر ممکن نہیں اور جہاں دانائی نہیں ہوتی وہاں زندگی بے معنی ہو جاتی ہے۔ اسی لئے حکیم الااُمت علامہ اقبال نے فرمایا تھا۔۔

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا

کارواں کے دِل سے احساس زیاں جاتا رہا

٭٭٭٭

باہمی تعلقات کا نیا سورج طلوع ہورہا ہے

2019ء میں بھارتی پارلیمانی الیکشن ہونا تھے۔قوم پرست بلکہ انتہا پسند حکمران جماعت،بی جے پی اور اس کی آقا پارٹی،آر ایس ایس کے لیڈروں نے فیصلہ کیا کہ مشرقی بھارت کی ریاستوں (مغربی بنگال، بہار، آسام،ارونا چل پردیش وغیرہ)میں بنگالی نژاد مسلمانوں کے خلاف مہم چلائی جائے۔دراصل ان ریاستیوں میں ایک سو سے زائد سیٹیںہیں۔قوم پرست ہندو اپنے ہم مذہبوں کے جذبات بھڑکا کر انھیں ان ریاستوں میں انہیں اپنے پلیٹ فارم پہ لانا چاہتے تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ نشستیں جیت سکیں۔ یہ ہمیشہ سے ان کی آزمودہ انتخابی حکمت عملی رہی ہے۔

مشرقی بھارت میں پچھلے چالیس پچاس برس سے قوم پرست ہندو لیڈر یہ جھوٹ پھیلانے میں کامیاب رہے ہیں کہ وہاں مقیم مسلمانوں کی اکثریت غیرقانونی طور پہ مشرقی پاکستان (اور پھر بنگلہ دیش) سے آئی ۔یہ مسلمان روزگار کی تلاش میں تھے۔انھوں نے ملازمتوں پر قبضہ کر کے لاکھوں مقامیوں کو بیروزگار کر دیا۔ نفرت پہ مبنی یہ نظریہ پھیلنے سے مشرقی بھارت میں بنگالی نژاد مسلمانوں کے خلاف جذبات پروان چڑھے اور ان پر حملے بھی ہوئے۔آج خصوصاً آسام ریاست میں جہاں ان مسلمانوں کی بڑی تعداد آباد ہے،مقامی لوگوں اور مسلمانوں کے مابین تصادم معمول بن چکا ہے۔2019ء کے آغاز سے آرایس ایس اور بی جے پی کے رہنما سوچی سمجھی پالیسی کے تحت مشرقی بھارت میں بنگالی نژاد مسلمانوں کے خلاف زوردار انتخابی مہم چلانے لگے۔

ایک جلسے میں وزیراعظم مودی کے دست راست،امیت شاہ نے ہم وطنوں کو بتایا:’’بنگلہ دیش سے آنے والے لوگ دیمک کی طرح ہیں۔ یہ دیمک ہمارا اناج کھا جاتی ہے اور مقامی آبادی کو کچھ نہیں ملتا۔ ہم الیکشن جیت کر یہ دیمک ختم کر دیں گے۔‘‘بنگلہ دیشی میڈیا نے امیت شاہ کا شر انگیز بیان نمایاں طریقے سے پیش کیا۔اس نے اپنے کہے کو جلد سچ کر دکھایا۔آسام میں پچھلے چند سال سے بھارتی حکومت غیرقانونی مہاجرین کی شناخت کے لیے مردم شماری نما سروے کرا رہی تھی۔اس نے سروے کی آڑ میں آسام میں بستے ’’تیس لاکھ‘‘بنگالی نژاد مسلمانوں کو غیر قانونی قرار دے دیاگیا اور پھر انھیں بنگلہ دیش کی جانب دھکیلنے کا عندیہ ظاہر کیا۔

’’بنگلہ دیشی دیمک ہیں‘‘

انتخابی مہم کے دوران مختلف قوم پرست ہندو لیڈروں نے بنگلہ دیش کے خلاف بھی بیان دئیے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ،کشن ریڈی نے بیان دیا :’’اگر آج بنگلہ دیشی مسلمانوں کو بھارت میں بسنے کی اجازت مل جائے تو آدھا بنگلہ دیش خالی ہو جائے گا، یہ سب اپنا دیس چھوڑ کر بھارت چلے آئیں گے۔‘‘بنگلہ دیشی مسلمانوں کی تضحیک و تذلیل کرنے والے اس بیان کو بھی بنگلہ دیش کے میڈیا نے اجاگر کیا۔ مشرقی بھارت میں قوم پرست ہندوؤں کی شیطانی انتخابی مہم سے ان کا اصل بھیانک چہرہ بنگلہ دیشی عوام کے سامنے آ گیا۔

انھیں علم ہوا کہ ہندو ووٹ بٹورنے کی خاطر یہ جماعتیں کس حد تک گر سکتی ہیں اور کامیابی پانے کے لیے نفرت و دشمنی کے جذبات پھیلانا ان کا بنیادی ہتھیار بن چکا ہے۔اس سچ نے بنگلہ دیشی عوام کی کثیر تعداد کو بھارتی اسٹیبلشمنٹ کا مخالف بنا دیا۔انھوں نے بھارتی حکومت کے خلاف مظاہرے بھی کیے۔اس دوران بعض بنگلہ دیشی ہندو دانشوروں نے بھی اپنی تحریروں میں آر ایس ایس کے نفرت پر مبنی منفی فلسفے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔غرض مملکت کے طول وعرض میں بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف عوام غم وغصّے کا اظہار کرنے لگے۔ایسے معاندانہ ماحول میں حسینہ واجد حکومت کے لیے ممکن نہیں رہا کہ وہ مودی سرکار سے خوشگوار تعلقات برقرار رکھ سکے۔چناں چہ اکثر بنگلہ دیشی وزرا نے بھارت کے مجوزہ دورے منسوخ کر دئیے۔نیز بیگم حسینہ نے بھی بھارتی حکومت کے نمائندوں سے میل جول تقریباً موقوف کر دیا۔

2019میں برمی فوج کے ستائے بنگالی نژاد مسلمان بڑی تعداد میں برما سے بنگلہ دیش آ رہے تھے۔ان لاکھوں مہاجرین کی وجہ سے قومی وسائل پر بوجھ بڑھ گیا۔اب بھارت بھی مشرقی ریاستوں سے لاکھوں مسلمانوں کو نکال کر بنگلہ دیش کی سمت دھکیل دیتا تو بنگلہ دیشی معیشت شدید مالی دباؤ کا شکار ہو جاتی۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو اس عمل سے باز رکھنے کے لیے بیگم حسینہ نے مناسب سمجھا کہ اپنی ناراضی کا اظہار کھل کر کیا جائے۔ان کی ناراضی کے باعث ہی دسمبر 2019ء میں مودی کو اپنا دورہ بنگلہ دیش ملتوی کرنا پڑا۔حسینہ واجد حکومت نے بھارتی وزیراعظم کو پیغام بھجوایا تھا کہ فی الوقت بنگلہ دیش میں بھارت مخالف جذبات عروج پر ہیں،لہذا وہ آنے سے گریز کریں۔

چین سے بڑھتی قربت

مودی حکومت کی انتہا پسند اور مسلم دشمن پالیسیوں کے علاوہ چین سے بڑھتی قربت نے بھی بنگلہ دیشی اسٹیبلشمنٹ کو بھارت سے کچھ دور کر دیا۔بنگلہ دیش دونوں طاقتور پڑوسیوں سے تعلقات میں توازن رکھنا چاہتی ہے مگر صورت حال سے عیاں ہے،پچھلے تین برس سے بنگلہ دیش میں چین کا اثرورسوخ ماضی کی نسبت کئی گنا بڑھ چکاہے۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان چین کا دیرینہ دوست ہے اس لئے اب بنگلہ دیش کے لئے بھی پاکستان کے ساتھ تزویراتی قربت پیدا کرنا ضروری ہو چکا ہے۔اگرچہ وہ وقتاً فوقتاً یہ کہہ کر زخم پھر ہرے کر دیتی ہیں کہ بنگلہ دیشی وہ مظالم کبھی نہیں بھول سکتے جو مغربی پاکستان کے حاکموں نے ڈھائے۔تاہم ماہرین کے نزدیک یہ بیان دلی جذبات سے زیادہ سیاسی چال کاعکاس ہے کہ بیگم صاحبہ اپنے ہاں بھارت کے حامی گروہوں کی حمایت اور ووٹوں سے محروم نہیں ہونا چاہتیں۔

2016ء کے آخر میں چینی صدر نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا تھا۔ تب اعلان ہوا کہ چین مقامی بائیس منصوبوں پر آنے والے برسوں میں بیس ارب ڈالر کی خطیر رقم خرچ کرے گا۔چینی حکومت نے وعدہ ایفا کیا اور اس وقت چین کی مالی وفنی امداد سے کئی منصوبے زیر تکمیل ہیں۔ مارچ2020ء سے لداخ میں بھارت اور چین کے مابین اعصابی جنگ جاری ہے۔اس دوران دونوں قوتیں پڑوسی ممالک،بنگلہ دیش، برما، نیپال اور بھوٹان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی غرض سے بھی بہت متحرک ہو گئیں۔

جون 2020ء میں چین نے ایک اہم قدم اٹھایا اور بنگلہ دیش کی ’’ستانوے فیصد‘‘ برآمدات کو ڈیوٹی سے مستثنی قرار دے دیا۔یاد رہے،پچھلے چند برس سے چین اپنے حریف،بھارت کو مات دیتے ہوئے بنگلہ دیش کا سب سے بڑا تجارتی ساتھی بن چکا ہے۔ بنگلہ دیشی برآمدات کو چھوٹ ملنے سے باہمی تجارت میں اضافہ ہو گا۔ چینی حکومت کے اس اقدام سے بنگلہ دیشی کاروباری اور تجارتی طبقہ بہت خوش ہے۔ستمبر 2020ء میں بنگلہ دیشی شہر،سلہٹ میں ہوائی اڈہ تعمیر کرنے کے ٹینڈر کھولے گئے۔یہ 250ملین ڈالر کا پروجیکٹ ہے۔بولی میں چین اور بھارت کی مایہ ناز کمپنیوں نے حصہ لیا۔مودی حکومت کی بھرپور سعی تھی کہ کسی بھارتی کمپنی کو یہ کنٹریکٹ مل جائے۔حسینہ واجد حکومت نے مگر ایک چینی کمپنی کو ہوائی اڈہ بنانے کا ٹھیکہ دے ڈالا۔ اس فعل سے مودی سرکار کو ایک اور دھچکا لگا۔

دریائے تیستا بھارت سے نکل کر بنگلہ دیش میں بہتا ہے۔اس دریا کا پانی بنگلہ دیش میں ہزارہا ایکڑ رقبہ سیراب کرتا ہے۔لیکن موسم سرما میں دریائی پانی کے بہاؤ میں شدید کمی آ جاتی ہے کیونکہ بیشتر پانی بھارتی ڈیموں میں جمع ہو جاتا ہے۔ تب بنگلہ دیشی کسانوں کو پانی نہیں ملتا اور ان کی کاشتکاری متاثر ہوتی ہے۔بنگلہ دیشی حکومت بارہا بھارت سے مطالبہ کر چکی کہ موسم سرما میں بھی دریا میں معقول پانی چھوڑا جائے تاکہ بنگلہ دیش کے کسانوں کو پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور ان کا ذریعہ روزگار برقرار رہے۔ بھارتی حکومت اس مطالبے پر کوئی دھیان نہیں دیتی۔ یہ مسلہ دونوں ملکوں کے درمیان وجہ نزاع بنا ہوا ہے۔

حال ہی میں بنگلہ دیش نے چین کی کمپنیوں کو ایک ارب ڈالر مالیت کا انقلابی پروجیکٹ سونپ دیا ہے۔ منصوبے کے ذریعے ایسے اقدامات کیے جائیں گے کہ وہ دریائے تیستا کی ایسی مینجمنٹ کریں ،موسم سرما میں بھی کسانوں کو مطلوبہ پانی دستیاب ہو سکے۔اس طرح بنگلہ دیشی کسان بے خوف وخطر اپنی کھیتی جاری رکھیں گے۔چین کی کمپنیوں کو یہ اہم منصوبہ سونپنے سے عیاں ہے،حسینہ واجد حکومت اب مودی سرکار کے وعدوں پہ اعتبار نہیں کرتی اور اس سے متنفر ہو چکی ہے۔

جوں جوں بنگلہ دیش معاشی لحاظ سے طاقتور اور خوشحال ہو گا،وہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے چنگل سے دور نکلتا جائے گا۔ اب وقت ہے کہ چین کی مدد سے پاکستان بنگلہ دیشی اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور مدد کرے تاکہ یہ مملکت نہ صرف انتہا پسند بھارتی حکمران طبقے کی گرفت سے آزاد ہو جائے بلکہ انھیں جنوبی ایشیا میں ایک اہم اتحادی بھی مل سکے۔

یہ ضروری ہے کہ بنگلہ دیش اور پاکستان ماضی کی تلخیاں بھول کر تعلقات کے ایسے نئے دور کا آغاز کر دیں جو دوستی،بھائی چارے اور خلوص پہ مبنی ہوں۔آخر ہماری دینی،تاریخی اور تہذیبی روایات و اقدار مشترک ہیں۔ ماضی میں دونوں خطوں کے عوام نے ایک قیادت اور ایک پرچم تلے آزادی کے ہندووں اور انگریزوں کے خلاف مشترکہ جد و جہد کی تھی آج اپنے عوام کی خوشحالی کے لئے اس مشترکہ جد و جہد کا سرا وہیں سے جُڑ سکتا ہے جہاں اُنچاس برس پہلے ٹوٹا تھا۔

دردناک دسمبر میں دشمن سے ہوشیار رہو

شبانہ ایاز
سولہ دسمبر 1971ء کو پاکستان نے اپنے وجود کو دولخت ہوتے دیکھا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا وہ تاریک دن ہے جسے یاد کرکے ہر پاکستانی کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔اس سانحہ کے بعد کئی سوالات نے جنم لیا ، اب تک جن کا جواب نہیں مل سکا۔ سب جانتے ہیں کہ 49 برس پہلے اسلامی دنیا کی ایک بڑی ریاست اپنوں اور دشمنوں کی سازشوں کا شکار ہوئی۔ بنگال کی سرزمین جہاں سے تحریک پاکستان کو کئی اہم رہنما ملے، وہی بنگال ہماری سیاسی غلطیوں کی وجہ سے ہمارے دشمن کے لیے آسان ہدف بن گیا۔ ہم سب کو یاد ہوگا کہ 1970ء میں ہونے والے عام انتخابات میں مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے کلین سویپ کیا تھا جبکہ مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت پیپلزپارٹی نے اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی۔

اکہتر کے عام انتخابات سے پہلے اور انتخابات کے بعد مشرقی پاکستان میں بھارت اپنے ایجنٹوں کے ذریعے دراندازی کرتا رہا، انتخابات کے بعد دراندازی کا سلسلہ زیادہ تیزی سے اور بڑے پیمانے پر چلنے لگا، انھوں نے مشرقی پاکستان میں تشدد کا بازار گرم کر دیا۔ مشرقی پاکستان میں بھارت کی بڑھتی دہشت گردی کے باعث 16 دسمبر1971ء کو ملک دولخت ہوگیا۔1971ء میں بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے پاکستان کو دو لخت کرنے کی ناپاک سازش کا جال بنا۔ مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کے حوالے سے منظم انداز میں نفرت پھیلائی گئی۔ بھارتی وزیراعظم مودی کچھ عرصہ قبل بنگلہ دیش میں اس سازش کا اعتراف کر چکے ہیں کہ ’’بھارت نے یہ جنگ مشرقی پاکستان میں خود لڑی۔‘‘

16 دسمبر 1971 کو سقوط ڈھاکہ نے اس خطے میں بسنے والی مسلمان قوم کو بے پناہ درد ناک زخم دئیے، جس میں لاکھوں مسلمانوں کو موت کے منہ میں جانا پڑا، ہزاروں مسلم بہنوں کی عزتوں کے جنازے نکلے۔قوم اس سانحے کو بھول نہیں سکی تھی کہ ایک اور سانحہ رونما ہو گیا۔ 16 دسمبر 2014 بروز منگل آرمی پبلک اسکول پشاور جس میں 12 سو سے زائد بچے زیر تعلیم تھے، معصوم بچوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ وہ دن تھا جس دن تابوت کم پڑ گئے۔

پاکستان کے خلاف سازشوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ کشمیر، سی پیک، بلوچستان ان سب جگہوں پر بھارت عرصہ دراز سے اپنی مذموم سازشوں کا جال پھیلائے بیٹھا ہے۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری نے بھارت کے خفیہ عزائم عیاں کردیئے ہیں۔ بھارت نے پاکستان کو FATF میں بلیک لسٹ کرنے کے تمام منصوبے تیار کئے ہوئیہیں۔گوادر پورٹ، سی پیک کو تباہ کرنے کا ہر حربہ آزمایا گیا۔ ففتھ جنریشن وار کا سلسلہ بھی شروع ہوا اور فیک نیوز کا ایک لامتناہی سلسلہ بھی۔

یورپی یونین میں کام کرنے والے ایک تحقیقاتی ادارے ڈس انفو لیب نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں 260 سے زائد فیک نیوز ویب سائٹس کا کھوج لگایا ہے جو انڈین حکومت کے مفادات کے لیے، پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا پھیلانے کا کام کر رہی ہیں۔ ریسرچ گروپ ڈس انفو لیب کے مطابق یہ ویب سائٹس انڈیا کے مفاد میں یورپی یونین اور اقوام متحدہ پر اثرانداز ہونے کے لیے بنائی گئی ہیں۔ یہ ویب سائٹ امریکا، کینیڈا، بیلجیئم اور سوئٹزرلینڈ سمیت 65 سے زیادہ ممالک میں چلائی جا رہی ہیں۔ ان کا مقصد کشمیر کے تنازعے میں پاکستان کی کردار کشی کی غرض سے مظاہروں اور دیگر خبروں کی ویڈیوز تیار کرکے چلانا ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے بھی فیک ویڈیوز چلائی جاتی ہیں۔ ان کا انتظام و انصرام بھی انڈین اسٹیک ہولڈرز کے ہاتھ میں ہے، جن کے تعلقات سری واستوا نامی ایک بڑے نیٹ ورک کے تحت کام کرنے والی این جی اوز، تھنک ٹینکس اور کمپنیوں سے ہیں۔

اس سب کا مقصد پاکستان کے خلاف مخصوص پروگراموں اور مظاہروں کی کوریج کے ذریعے بین الاقوامی اداروں، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کے منتخب نمائندوں کی رائے پر اثر انداز ہونا ہے۔ انڈین مفادات کا فروغ اور پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنا ففتھ جنریشن وار کا حصہ ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں تاریخ کے تلخ تجربات اور دشمن کے اوچھے ہتھکنڈوں سے سبق سیکھ کر اپنے رویوں، طرز سیاست اور حکمرانی میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ہماری انا اور مفاد پرستانہ سیاست کے نتیجے میں بھارت اپنی ناپاک چالوں میں پھر سے کامیاب ہو جائے۔

زندہ قومیں ہمیشہ اپنے ماضی سے سبق سیکھتی ہیں اور آگے بڑھنے کی سعی کرتی ہیں۔ 16دسمبر کو معصوم طلبہ اور اساتذہ کرام کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھانے والا اور 16دسمبر 1971 میں ملک کو دولخت کرنے والا دشمن، ہماری شہہ رگ کشمیر میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والا دشمن (بھارت) ایک ہی ہے۔ اب دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں اس کے مذموم مقاصد اور حملوں سے محفوظ رہا جا سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔