بلاول سیاسی ایٹم بم چلا سکتے ہیں؟

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 18 دسمبر 2020
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

مکالمے اور مذاکرے میں بڑی قوت ہوتی ہے۔ یہ دلوں کو قریب لاتے اور خلیجوں کو پاٹتے ہیں ۔ مکالمے اور مذاکرے سے مخالف اور متحارب گروہوں کے فاصلے سمیٹے جا سکتے ہیں۔ اخلاص مگر شرط ہے۔ مکالمے اور مصافحے کے لیے ہاتھ آگے بڑھانا بزدلی اور کمزوری نہیں کہی جا سکتی۔ دیکھنا مگر یہ ہے کہ مکالمات اور مذاکرات کی دعوت دینے والے حضرات بغل میں چھری تو نہیں رکھتے؟ تاریخ ایسے مناظر بارہا دیکھ چکی ہے۔

موجودہ پارلیمنٹ معرضِ عمل میں آئی تو اپوزیشن نے پہل کرتے ہُوئے، قوم و ملک کے وسیع تر مفاد میں، حزبِ اقتدار سے مکالمہ کرنے کی کھلی دعوت دی۔ اپوزیشن لیڈر جناب شہباز شریف نے جناب عمران خان کی طرف ڈائیلاگ کے لیے ہاتھ بڑھایا مگر صد افسوس کہ اس ہاتھ کو محبت اور احترام سے تھامنے سے صاف انکار کر دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین جناب بلاول بھٹو زرداری نے بھی اِسی اسمبلی کے حزبِ اقتدار کی طرف تعاون کے لیے ہاتھ بڑھایا مگر اسے بھی جھٹک دیا گیا۔

ہر بار کہا گیا: ’’ہم انھیں این آر او نہیں دیں گے‘‘ اقتدار و اختیار کے گھوڑے پر نئے نئے بیٹھنے والوں نے کہا:  تعاون اور مکالمے کے لیے ہاتھ بڑھانے والے یہ ’’لوگ‘‘ اپنی گردن بچانے کے لیے ، مجبوراً ایسا کر رہے ہیں۔ بس یہیں سے گاڑی چھوٹ گئی۔ حالات بد سے بدتر ہوتے گئے۔ نئے حکمرانوں نے سوچا تھا کہ عوام اُن کے عشق میں مبتلا ہیں، اس لیے ہمیں کسی کی کیا پروا؟ ہم کسی کے ڈھب پر کیوں آئیں؟ افسوس حکمران طبقے نے حکمت اور دانش کا دامن تھامنے سے انکار کر دیا۔ اور جب نون لیگ نے اپنے حواس کو ذرا مجتمع کیا اور حکمرانوں کو للکارا تو پھر جان کے لالے پڑ گئے۔

اس للکار کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تباہ کن لہروں کا نئے حکمرانوں نے کبھی خواب بھی نہیں دیکھا تھا۔ انھوں نے خیال کر رکھا تھا کہ اگر وہ اور اُن کے ’’بہی خواہ‘‘ ایک ہی پیج پر ہیں تو ہمیں کسی کی بھلا کیا پروا؟ پھر اس انکارِ مسلسل اور حکومتی جبر کے نتیجے میں ایک روز ’’پی ڈی ایم ‘‘ بن گئی تو بھی حالات کی سنگینی کو سمجھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔

بجائے اس کے کہ اُمنڈتے طوفانوں کا صحیح صحیح اندازہ لگایا جاتا، اُلٹا ٹھٹھہ اُڑایا گیا، یہ کہہ کر کہ ’’دیکھنا، نون میں سے شین نکلے گی۔‘‘ مطلب یہ تھا کہ مریم نواز شریف نے جو راستہ اپنایا تھا، یہ راستہ شریف خاندان کو لخت لخت کر دے گا۔

ایک نمایاں حکومتی وزیرکی طرف سے فخریہ اور طنزیہ کہا گیا: ’’مَیں اور شہباز شریف ایک ہی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘ یہ مگر نہیں بتایا کہ اس مشترکہ پارٹی کا اسمِ گرامی کیا ہے ؟یہ وہ وزیر صاحب ہیں جنھوں نے اپوزیشن جماعتوں کے کچھ قائدین کو محض اس لیے بے توقیر کرنے کی کوشش کی کہ انھوںنے کہیں ملاقات کی تھی۔

اس ملاقات کو طشت از بام کرنے کا موصوف کا مگر مقصد یہ تھا کہ اپوزیشن کے ان سیاستدانوں کو عوام کی نظروں سے گرا دیا جائے کہ پسِ پردہ یہ کیا کر رہے ہیں۔ پھر اس کا سخت ردِ عمل بھی آیا اور یہ ردِ عمل نون لیگ کے لندن میں بیٹھے قائد نواز شریف کی طرف سے آیا، اس بیانیہ میں کہ آج کے بعد ’’ان سے‘‘ کوئی ملاقات نہیں ہو گی، اور اگر ہو گی تو پہلے ساری قوم کو بتایا جائے گا۔

سیاسی معاملات کو آلودہ کرنے اور الجھانے والوں کا بھی کوئی احتساب ہو سکتا ہے؟ کہ انھیں محض ’’دوست‘‘  قرار دے کر نظر انداز کر دیا جائے؟ جن کے اعمال اور اقدامات کے کارن نواز شریف نے کسی سے بھی ملاقاتیں کرنے پر پابندیاں عائد کی تھیں، اب وہی حکومتی اور مقتدر لوگ پی ڈی ایم قیادت سے ملاقاتوں کے لیے دروازے کھولنے کی بات کر رہے ہیں ۔

اور وہ بھی ایسے لمحات میں جب 13 دسمبر کو لاہور کے مینارِ پاکستان میں  ہونے والے جلسہ نے ایک نئی مثال اور نظیر قائم کی ہے۔ نون لیگ سے شین لیگ برآمد کرنے کا مشہور و معروف دعویٰ کرنے والے وفاقی وزیر کی طرف سے بیان آیا ہے :’’ہم اپوزیشن (پی ڈی ایم) کے لیے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کرنا چاہتے۔ اگر آپ عمران خان سے مذاکرات نہیں کرنا چاہتے تو اُس کا نام بتا دیں جس سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں، ہم اُس سے کرا دیتے ہیں۔‘‘

پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر اپوزیشن کسی سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے تو اس بارے ان وزیر صاحب کو کیوں بتائے؟ کیا مذاکرات کے لیے اپوزیشن اس وزیر صاحب کی سفارش کی محتاج ہے؟ دوسری بات یہ بھی سنائی دی جا رہی ہے کہ ’’یہ صاحب اپنے دعوے کے مطابق، مذاکرات سے پہلے، اب نون سے شین نکال کر دکھائیں۔‘‘ایسا کرنے پر وہ مگر قادر نہیں ہیں۔

ایک دوسرے وفاقی وزیر صاحب نے یوں ارشاد فرمایا ہے: ’’ہم اپوزیشن سے کہتے ہیں کہ اپنی ٹکراؤ کی پالیسی پر نظرِ ثانی کریں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مذاکرات اور رابطوں کے دروازے کھلے رہنے چاہئیں، آئیے بات کرتے ہیں اور آگے چلتے ہیں۔ پارلیمنٹ مذاکرات کا بہترین فورم ہے۔‘‘

اہم بات یہ ہے کہ دونوں مذکورہ وفاقی وزیروں نے پی ڈی ایم سے مذاکرات کی خواہش کا اظہار کرتے ہُوئے، اپنے قائد کے تتبع میں، گرج کر یہ نہیں کہا: ڈاکوؤں سے مکالمہ نہیں ہو سکتا۔ تو کیا وقت کے پُلوں کے نیچے بہتے بہت سے پانی نے مقتدرین کو یہ باور کروا دیا ہے کہ اس نعرے اور دعوے میں اب، عوام کے لیے، کوئی کشش باقی نہیں رہی؟ اس کا کھوکھلا پَن عیاں ہو چکا ہے؟ لیکن ڈھائی سال کا طویل عرصہ  گزارنے، ہر شعبہ حیات میں معاشی ابتری پھیلانے اورعوامی بہبود کے لیے ایک دھیلے کا کام نہ کرنے کے بعد ہوش میں آنے اور مکالمے کے لیے ہاتھ آگے بڑھانے کا فائدہ؟ عوام کو دکھائے گئے لاتعداد خوابوں کا ستیا ناس کرنے کے بعد؟

مگر اب اپوزیشن، جسے تبدیلی کے مدعی حکمرانوں نے دانستہ ٹھکرا رکھا تھا، مکالمے کی پیشکش پر کان دھرنے کے لیے تیار نظر نہیں آ رہی۔ پی ڈی ایم یک مشت، یک زبان اور یک سُو ہو کر اعلان کر رہی ہے: ’’ڈائیلاگ نہیں ، لانگ مارچ ہوگا‘‘۔ بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں: ہم سے رابطے نہ کیجیے، ہمارے استعفے حکومت کے لیے ایٹم بم ثابت ہوں گے۔ دعویٰ بہت بڑا ہے۔ اصل ایٹم بم کی طرح یہ ’’سیاسی ایٹم بم‘‘ چلانا بھی سہل نہیں ہے۔

اس کے لیے کسی ٹرومین کی ضرورت پڑتی ہے۔ کیا بلاول صاحب ’’ٹرومین‘‘ بن سکتے ہیں؟ 13دسمبر کے جلسے میں پی ڈی ایم نے سخت لہجہ اختیار کیا۔ بعض ارکان کا لہجہ غیر محتاط بھی تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن کو اس منزل اور نوبت تک پہنچانے میں تبدیلی کے داعی حکمرانوں نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔

اِنہی کی بے احتیاطی کے کارن نواز شریف ہتھے سے اُکھڑے ہیں، وگرنہ کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ میاں محمد نواز شریف ایسا محتاط سیاستدان اِس جارحانہ اسلوب میں بھی کلام کر سکتا ہے۔ حکمرانوں نے جن ہاتھوں سے گرہیں لگائی تھیں، اب وہ گانٹھیں دانتوں سے کھولنا پڑ رہی ہیں۔ پھیلتی غربت، انتہا درجے کی مہنگائی، مجرم ساز بیروزگاری کی رذالتوں اور ذلتوں کے مارے عوام توقع کرتے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پڑنے والا یہ یُدھ جلد کسی انجام کو پہنچے گا تاکہ عوام کی ذلتوں کا خاتمہ ہو سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔