کرپشن کے خلاف جنگ ختم کردی جائے!

علی احمد ڈھلوں  جمعـء 18 دسمبر 2020
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

ہمارے ہاں اکثر ایسی باتیں سننے میں آتی ہیںکہ اﷲ والے چشمِ زدن میں ہزاروں سال آگے دیکھ سکتے ہیں۔ کہنے سننے میں شاید عجیب سا لگے مگر مجھے موجودہ حکومت کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی لگتا ہے۔ موجود حکومت زمینی حقائق اور تمام تر طبعی حدود و قیود سے ماورا کوئی اپنا الگ ہی وجود رکھتی ہے۔

وگرنہ کون بدنصیب ہو گا کہ ڈھائی سال پہلے حکومت ملی ہو اور پھر ہر گزرتے دن نئے سے نیا محاذ کھل جائے۔ اس کے باوجود ہر ’’آفت‘‘ کے اختتام پر کپڑے جھاڑ کر، مسکراتا ہوا اٹھ کھڑا ہو اور پنجابی تھیٹر کی مشہور جگت کی طرح دنیا کو بتائے کہ ’’میں اترتا ہی ایسے ہوں۔‘‘جی ہاں یہ ہے ہماری حکومت کاطرز عمل ۔ جو ہر محاذ پر لڑ رہی ہے اور ناکام بھی ہو رہی ہے، مگر ڈٹ کے کھڑی ہے۔

اگر کوئی پوچھے کہ ناکامی کیسے! تو جناب سادہ سی کیلکولیشن ہے، حکومت نے مہنگائی کم کرنے کی کوشش کی وہ بڑھ گئی، حکومت نے شوگر مافیا پر ہاتھ ڈالا۔ انھوںنے چینی مہنگی کر دی اور جب حکومت ڈیڑھ سال بعد بڑھی ہوئی نصف قیمت واپس لانے میں کامیاب ہوئی تو مبارکبادوں کے ٹویٹ شروع ہوگئے۔

حکومت نے پٹرول مافیا پر ہاتھ ڈالا تو انھوں نے پٹرول  مارکیٹ سے غائب کر کے بحران پیدا کر دیا اور جب رپورٹ آئی تو وہی مافیا سامنے آیا جس کے کنٹرول میں سب کچھ ہے، جب مہنگی بجلی پر قابو پانے کی کوشش کی تو سب کچھ اُلٹ ہو گیا اور بدلے میں قیمتیں بڑھا کر جان چھڑانا پڑی۔ جب روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت بڑھنے لگی تو اُس سے یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ روپیہ اصل قیمت پر لایا جا رہا ہے، اور پھر جب کرپشن کے خلاف جنگ چھیڑی اور روایتی کرپٹ سیاستدانوں پر ہاتھ ڈالا اور کہا کہ میں ’’این آر او‘‘ نہیں دوں گا تو علم ہوا کہ ’’این آر او‘‘ تو دے دیا گیا ہے!

اب این آر او کیسے دے دیا گیا ہے بھلا؟ نواز شریف جیل گیا، پھر بیمار ہوا اور آخر میں حکومتی و عدالتی اجازت سے بیرون ملک علاج کے لیے چلا گیا، یعنی نہ چاہتے ہوئے بھی موجودہ حکومت نے این آر او دے دیا! بقول نذیر بنارسی

اندھیرا مانگنے آیا تھا روشنی کی بھیک

ہم اپنا گھر نہ جلاتے تو اور کیا کرتے

پھر جب سابق خادم اعلیٰ کو پکڑا، ایک سال تک اندر رکھا، کچھ ثابت نہ ہوا تو موصوف کی ضمانت ہو گئی، پھر جب باہر آئے، دیکھا بہت زیادہ ’’ہنگامی سیاست‘‘ ہے موصوف نے اپنی ضمانت منسوخ کرائی اور دوبارہ جیل چلے گئے۔گزشتہ روز شہباز شریف سے ملاقات کی غرض سے بلاول بھٹو زرداری جیل گئے جہاں شاہانہ ملاقات کا اہتمام تھا، سابق خادم اعلیٰ نے گھر سے منگوا کر سوپ اور ڈرائی فروٹ سے مہمانوں کی تواضع کی۔

اب یہاں کوئی مجھے بتلا دے کہ کتنے لوگوں کو یہ سہولت ہے کہ وہ گھر سے چیزیں منگوا کر مہمانوں کی آؤ بھگت کر سکتے ہیں؟ یہاں تو ایک قیدی کو اپنے گھر والوں سے ملاقات کے لیے کئی بیریئرز پھلانگنے پڑتے ہیں، کئی جگہوں پر جیب گرم کرنا پڑتی ہے، پھر کہیں جا کر20، 30 منٹ کی ملاقات کی اجازت ملتی ہے، اُس میں سے بھی کئی مرتبہ اہلکار ملاقاتی روم میں چکر لگا لیتا ہے تا کہ اُسے مزید خرچہ پانی مل جائے۔ لیکن یہاں تو ایک نہیں دو پاکستان ہیں، طاقتور طبقے کو یہاں بھلا کیسے ’’این آر او ‘‘ کی ضرورت؟ وہ تو جب چاہیں این آر او لے لیں، جب چاہے باہر چلے جائیں اور جب چاہے ملک میں آ جائیں۔میں اکثر اپنے کالموں میں لکھتا ہوں کہ پاکستان میں جس کے پاس دولت ہے، اُس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

آپ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال پر آ جائیں، نارووال اسپورٹس سٹی کیس میں احسن اقبال جب کہ ایل این جی کیس میںشاہد خاقان عباسی کی ضمانت ہوچکی ہے، بار بار عدالتیں پوچھ رہی ہیں کہ نیب جن شخصیات کو گرفتار کرتی ہے، پوچھ گچھ کے بعد کیس کو آگے کیوں نہیں بڑھاتی؟ اور اگر کسی ملزم پر تفتیش مکمل ہو گئی ہے تو اُسے اندر کیوں رکھا جاتا ہے۔

ایسے سوالوں کا نیب کے وکیلوں کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا، کیوں کہ یہ محض چند ہزار تنخواہ لینے والے نیب کے وکلاء کروڑوں روپے فیس لینے والے وکلاء کا بھلا کیسے مقابلہ کر سکتے ہیں؟ لہٰذا بات ’’مک مکا‘‘ پر ختم ہو جاتی ہے۔ یہی کیسز حمزہ شہباز پر ہیں مگر مجال ہے ایک سال سے زائد عرصہ جیل میں ہونے کے باوجود اُن پر کچھ ثابت کیا جا سکا ہو؟ مریم نواز بھی ضمانت لے کر حکومت کے خلاف احتجاجی جلسے کر رہی ہیں،سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل یا سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ پر بھی کوئی الزام تاحال ثابت نہیں ہوا۔

نیب کے افسروں اور عملے پر قومی بجٹ کا اچھا خاصا حصہ ضرور خرچ ہو رہا ہے۔ محض چند کاروباری یا ٹھیکدار ٹائپ افراد سے  ریکوریاں کی گئی ہیں، وہ بھی اس لیے پیسے دے دیتے ہیں کیوں کہ انھیں اپنی عزت بچانا زیادہ عزیز ہوتا ہے، اور کئی کیسز میں تو بیچارے بلڈر خوار ہو کر اپنا سب کچھ بیچ کر بیرون ملک چلے گئے ہیں۔ پھر جعلی اکاؤنٹس کیسز اور منی لانڈرنگ کے 50 سے زائد کیسز میں آج تک کس کو سزا ہوئی؟ نہیں ناں!

آگے چلیے! رانا ثناء اللہ کیس کو دیکھ لیں۔ ہیروئین رکھنے اور ٹرانسفر کرنے کا مقدمہ بنایا گیا، اُسے بھی سزا نہ ہو سکی اور اُلٹا جگ ہنسائی بھی ہوئی۔ ایسا لگتاہے کہ یا تو کیسز سچائی پر مبنی نہیں ہیں یا پھر مافیا حکمرانوں سے زیادہ تجربہ کار اور طاقتور ہے۔ اس لیے جناب وزیر  اعظم! آپ  احتساب کی بات کرنا چھوڑ دیں، آپ کرپشن کے خلاف جنگ کو روک دیں، آپ کرپٹ مافیا پر ہاتھ نہ ڈالیں اور نہ ہی اُن سے پیسہ ریکوری کی بات کریں، کیوں کہ یہ آپ کی حکومت کے بس کی بات نہیں ہے! اور ویسے بھی کسی پر کرپشن ثابت کرنے اور اسے سزا دینے کے لیے ڈھائی سال کا عرصہ بہت ہوتا ہے۔

آپ کی حکومت ڈھائی سال میں ایک بندے کو بھی سزا نہیں  دلوا سکی، سزا تو دور کی بات اسحاق ڈار، سلمان شہباز، نواز شریف وغیرہ کو واپس نہیں لایا جاسکا۔ اس لیے قوم کا وقت کیوں ضایع کیا جارہاہے؟

وزیراعظم صاحب روزانہ کہہ دیتے ہیں کہ میں این آر او نہیں دوں گا، میں یہ نہیں کروں گا، وہ نہیں کروں گا، چھوڑیں ان کو ان کے حال پر، آپ بس ساری توجہ گورننس اور عوام کو ریلیف دینے پر دیں، بہتر انتظامی امور چلا کر دکھا دیں، ایجوکیشن سیکٹر کو بہتر کر دیں، صحت کا نظام ٹھیک کر دیں، روز گار دے دیں، غربت کم کر دیں، ’’سسٹم‘‘ کو بہتر کر لیں! اگر سسٹم بہتر ہو گا تو کوئی بھی ایک دوسرے کو پھلانگ نہیں سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔