کوچۂ سخن

عارف عزیز  اتوار 20 دسمبر 2020
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

غزل


آنکھ موندی ہے نہ مدت ہوئی دیکھا سو کے
خواب زاروں میں میسر تھے مسلسل دھوکے
اس کو دانستہ کیا خود پہ مسلط میں نے
اب شکایت کہ مجھے جھڑکے، ستائے، ٹوکے؟
تو بھی، لوگوں نے بتایا کہ نہیں افسردہ
ہم بھی خوش باش جیے جھوٹی رفاقت کھو کے
کون دیوار اٹھائے گا مرے رستے میں
کس کی جرأت ہے کہ دریا کا بہاؤ روکے
تم نے توڑا ہے، مرے ٹکڑے نہیں پھینکے ہیں
میں دکھاؤں گی تمہیں پھر سے مکمل ہو کے
(کومل جوئیہ۔ پیر محل)

۔۔۔
غزل


عقیدت سے اگر وہ ہاتھ میرے چوم جاتا ہے
کئی ذہنوں میں اس کا بھی غلط مفہوم جاتا ہے
یہ رب نے فیض رکھا ہے ہماری بے نیازی میں
اسی کی جھولی بھر جاتی ہے جو محروم جاتا ہے
تو کیا اتنے تجاوز پر کسی کا سر قلم کردیں
خوشی میں آدمی اکثر زیادہ جھوم جاتا ہے
میں دو متضاد بہتے ایسے دریاؤں کی زد میں ہوں
کہ چلتے پانیوں کو دیکھ کر سر گھوم جاتا ہے
دکاں داروں کو یاد آتے ہیں دن اس کی جوانی کے
وہ سارے رنگ اٹھا کر جب ٹرائی روم جاتا ہے
(اظہر فراغ۔ بہاول پور)

۔۔۔
غزل


سبک روی میں انوکھے اصول بنتے گئے
جو سنگِ میل تھے رستوں کی دھول بنتے گئے
عجیب دستِ محبت میں آگیا تھا فریم
وہ بیل کاڑھنے بیٹھی تھی پھول بنتے گئے
تو مجھ کو قصے میں کچھ واقعات گھڑنے پڑے
کہ سامعین جو مشتاقِ طول بنتے گئے
سنا ہے شہر میں سرسبز ایک برگد تھا
ہر ایک شاخ سے جس کی سکول بنتے گئے
اگرچہ ہم نے بزرگوں کی پگڑیاں باندھیں
مگر وہ پیچ جو سر پر ببول بنتے گئے
(پارس مزاری۔ بہاول پور)

۔۔۔
غزل


جو بات کی ہے وہ لگی لپٹی ہوئی نہیں
امید کوئی آپ سے رکھّی ہوئی نہیں
بے خوف ہو کے اپنا سفر کر رہا ہوں میں
جوتی کسی کی پاؤں میں پہنی ہوئی نہیں
کھڑکی سے سبز رنگ کا پردہ بھی ہٹ گیا
تازہ ہوا نے سانس بھی روکی ہوئی نہیں
کچھ اس لیے اداس نظر آ رہا ہوں میں
تصویر تیرے ہاتھ کی کھینچی ہوئی نہیں
محبوب جس کی روز کہانی سناتے ہو
وہ فلم یاد ہے مجھے بھولی ہوئی نہیں
(خالد محبوب ۔بہاول پور)

۔۔۔
غزل


تُو کون ہے جو اُس کی کمی پوری کرے گا
وہ آئے گا تو اپنی کمی پوری کرے گا
اک آدھ اگر ہوتا تو ہم مان بھی لیتے
اے شخص تُو کس کس کی کمی پوری کرے گا
بیٹھے گا تری راہ میں گلدستہ اٹھائے
یہ پیڑ یہاں میری کمی پوری کرے گا
تجھ سا ہے مِری جان مگر تُو تو نہیں ہے
یہ پھول تِری کتنی کمی پوری کرے گا
کچھ وصل ابھی اور بھی درکار ہیں فرہادؔ
اِس بار تو وہ پچھلی کمی پوری کرے گا
(احمد فرہاد۔باغ، کشمیر)

۔۔۔
غزل


غم نہ کر، اور بھی دنیا میں ہیں ٹوٹے ہوئے دل
اے مِرے اُجڑے ہوئے دل ،مِرے بکھرے ہوئے دل
کاش اگر علم ِ مسیحائی انہیں مل جاتا
وہ جو رکھتے ہیں غم و درد میں ڈوبے ہوئے دل
مدتوں سے ترا ناکام سفر جاری ہے
دشتِ امید میں اے میرے بھٹکتے ہوئے دل
جب دھڑکتے ہیں تو اک حشر بپا کرتے ہیں
اے مِرے یار ترے بھید کو پائے ہوئے دل
عہدِ پیری میں بھی وہ بگڑے ہوئے رہتے ہیں
نوجوانی کی شروعات میں بگڑے ہوئے دل
خوشبوؤں سے تجھے تاثیر ؔبڑی الجھن ہے
مجھ سے کہتا ہے، دم ِصبح، مہکتے ہوئے، دل
(تاثیر خان۔ سوات)

۔۔۔
غزل


اسیرِ حلقۂ گیسوئے یار میں ہی ہوں
اے ذوقِ عشق رواں سوئے دار میں ہی ہوں
اگر چہ دھوپ میں جلنا مرا مقدّر ہے
یہ کم نہیں شجرِ سایہ دار میں ہی ہوں
غبارِ راہ ہیں جس کے یہ مہر و ماہ و نجوم
بساطِ عجز کا وہ شہسوار میں ہی ہوں
مِرے بغیر، تم اک خارِ دشتِ وحشت ہو
رکھا ہے جس نے تمہیں لالہ زار، میں ہی ہوں
میں صرف نام کا ساگر نہیں ہوں اے ساگر ؔ
جو وسعتوں میں بھی ہے بے کنار، میں ہی ہوں
(نظیر ساگر۔ کوہستان، سوات)

۔۔۔
غزل
اچھا کہا تھا یا کہ برا چھوڑنا پڑا
اس نے کہا تو اپنا کہا چھوڑنا پڑا
احساسِ جرم تھا تو کیا پہلا عشق ترک
پھر دوسرا ہوا توخدا چھوڑنا پڑا
سمجھانے پڑ گئے تھے معانی یقین کے
دریا کے بیچ ایک دِیا چھوڑنا پڑا
پوچھا نہیں کسی نے وگرنہ بتاتا میں
وہ بات جس پہ شہر ترا چھوڑنا پڑا
وہ آئے گا پلٹ کے تو خوش ہو گا دیکھ کر
سو مجھ کو ایک زخم کھلا چھوڑنا پڑا
شعبان لوگ پوچھ رہے ہیں انھیں بتا!
ایسا بھی کیا ہوا کہ خدا چھوڑنا پڑا
(شعبان خالد۔پونچھ، کشمیر)

۔۔۔
غزل


تُو بڑی ضروری ہے
واقعی ، ضروری ہے
اس جہانِ مضطر میں
موت ہی ضروری ہے
ایک دن چمکنے کو
تیرگی ضروری ہے
اے انا کی شہزادی
عاجزی ضروری ہے
وہ بڑی ضروری تھی
وہ بڑی ضروری ہے
(شہزاد مہدی۔اسکردو، گلگت بلتستان)

۔۔۔
غزل


خیمۂ چشم کو اشکوں سے سجا رکھنا تھا
زخمِ دل کو ابھی کچھ دیر ہرا رکھنا تھا
ہم تو سبزے کی طرح سنگ سے باہر آئے
اور اسے مجھ کو تہِ خاک دبا رکھنا تھا
وہ ہوا تھی تو چراغوں سے شغف بھی تھا اسے
پر اسے اپنا رویّہ تو روا رکھنا تھا
روشنی کر لی ہے دستار جلا کر میں نے
خوفِ تاریکی سے بچوںکو بچا رکھنا تھا
اب ستاروں کے سمندر میں کہاں ڈھونڈے اسے
تم کو اس چاند کے حجرے کا پتہ رکھنا تھا
دل جلا کر کسی پتھر پہ رکھا ہے میں نے
مرقدِ عشق پہ کوئی تو دِیارکھنا تھا
(محبوب زائری۔اسکردو)

۔۔۔
غزل


مسیحا اپنی کوشش کر چکے ہیں
مگر جس کو دوا سے مسئلے ہیں
تمہارا جھوٹ دنیا گھوم آیا
مرے سچ کے ابھی تسمے کھلے ہیں
میں بس اس دکھ میں آدھی رہ گئی ہوں
جو اچھے دن تھے پورے ہو چکے ہیں
ترے کاندھے سے لگ کر کون رویا
یہ کس کے بال اس پر رہ گئے ہیں
صحیح لوگوں کو چننے کا صلہ ہے
غلط نمبر سے میسج آ رہے ہیں
بچھڑ جاتے تو کس کو منہ دکھاتے؟
سو پھر سے منہ اٹھا کر آ گئے ہیں
زبانیں چل رہی تھیں جیسے آرے
قدم دونوں کے اٹھ اٹھ کر رکے ہیں
(عین نقوی ۔سرگودھا)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔