زحل اور مشتری میں غیرمعمولی قربت: قیامت کی ایک اور نشانی؟

علیم احمد  اتوار 20 دسمبر 2020
زحل اور مشتری میں غیرمعمولی قربت کو بعض عیسائی حلقے ’’قربِ قیامت‘‘ کی نشانی بھی قرار دے رہے ہیں۔ (تصاویر: متفرق ویب سائٹس)

زحل اور مشتری میں غیرمعمولی قربت کو بعض عیسائی حلقے ’’قربِ قیامت‘‘ کی نشانی بھی قرار دے رہے ہیں۔ (تصاویر: متفرق ویب سائٹس)

کراچی: بعض مذہبی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ آسمان میں سیارہ زحل اور سیارہ مشتری میں بڑھتی ہوئی قربت دراصل ’’قربِ قیامت‘‘ کی نشانی ہونے کے علاوہ اس بات کا اشارہ بھی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ آمد بہت جلد ہونے والی ہے۔

ان دعووں کا انحصار مشہور یورپی ماہرِ فلکیات ’’جوہانس کیپلر‘‘ کے ایک مفروضے پر ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ مختلف اناجیل (بائبلز) میں ولادتِ عیسیٰ (علیہ السلام) کی خوشخبری دینے والے جس ’’بیت اللحم کے ستارے‘‘ کا ذکر ہے وہ کوئی ستارہ نہیں تھا بلکہ ایک نایاب فلکیاتی نظارہ تھا جب آسمان میں زحل اور مشتری ایک دوسرے سے اتنے قریب آگئے تھے کہ وہ دو الگ الگ نقطوں کے بجائے ایک روشن ستارے کی طرح دکھائی دے رہے تھے۔

سولہویں اور سترہویں صدی کے اس مشہور فلکیات داں نے محتاط حساب لگا کر یہاں تک بتایا تھا کہ یہ واقعہ سن 7 قبلِ مسیح میں اس وقت پیش آیا تھا کہ جب دسمبر کی آخری تاریخیں چل رہی تھیں… یعنی وہی تاریخیں کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی تھی۔ (اس بنیاد پر بعض مؤرخین عیسوی کیلنڈر کی مروجہ ابتداء کو غلط قرار دیتے ہیں۔)

اس سال 21 دسمبر کی شام بھی تقریباً وہی منظر ایک بار پھر ہوگا: سورج غروب ہونے کے بعد مشتری اور زہرہ ایک دوسرے سے اتنے قریب آچکے ہوں گے کہ آنکھ سے دیکھنے پر وہ مغربی افق کے آس پاس ایک روشن ستارے کی طرح نظر آئیں گے۔

یہی وہ منظر ہے جسے بعض عیسائی حلقے ’’بیت اللحم کے ستارے کا ظہورِ نو‘‘ سے تعبیر کرتے ہوئے ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی واپسی‘‘ کا اشارہ اور ’’قربِ قیامت‘‘ کی نشانی بھی قرار دے رہے ہیں۔

یہ خبریں بھی پڑھیے:

اگرچہ گزشتہ دو ہزار سال میں یہ فلکیاتی واقعہ تقریباً 100 مرتبہ ہوچکا ہے لیکن ’’کراس واک‘‘ اور ’’پروفیسی ٹوڈے یو کے‘‘ نامی ویب سائٹس پر دو الگ الگ مضامین میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس سال (2020 میں) مشتری اور زحل کی قربت غیرمعمولی ہونے کے علاوہ اُن پیش گوئیوں کی بھی مطابقت میں ہے جن میں قربِ قیامت کے آثار اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زمین پر واپسی کے بارے میں بتایا گیا ہے۔

عیسائی عقیدے کے مطابق کی گئی ان پیش گوئیوں میں کہا گیا ہے کہ قیامت قریب آنے پر دنیا میں زلزلے، بدامنی، بے یقینی اور عالمی وبا کا غلبہ ہوگا۔ ان حالات میں ’’بیت اللحم کا ستارہ‘‘ ایک بار پھر ’’ولادتِ عیسیٰ (علیہ السلام) کی تاریخوں‘‘ میں ظاہر ہوگا جو دنیا کو ’’یسوع مسیح کی آمدِ ثانی‘‘ کی خوشخبری دے گا۔

البتہ کیتھولک نیوز ایجنسی کی ایک خبر میں ویٹیکن رصدگاہ کے ڈائریکٹر ’برادر‘ گائی جے کونسلمونیو کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ زحل اور مشتری میں بڑھتی ہوئی قربت کو بیت اللحم کا ستارہ قرار دینا ایک غیر یقینی بات ہے کیونکہ ’’کوئی نہیں جانتا کہ وہ ستارہ اصل میں کیا تھا۔‘‘

 

غیر معمولی ’’عظیم اجتماع‘‘

واضح رہے کہ ہمارے نظامِ شمسی کے یہ دونوں بڑے سیارے (مشتری اور زہرہ) حقیقت میں ایک دوسرے کے قریب نہیں آرہے بلکہ ’’زمین سے دیکھنے پر‘‘ ہمیں ایسا نظر آرہا ہے۔

’’عظیم اجتماع‘‘ (Great Conjunction) کہلانے والا یہ عمل فلکیاتی معمول ہے جو تقریباً ہر 20 سال میں ایک بار واقع ہوتا ہے۔ (زیادہ صحیح الفاظ میں کہا جائے تو عظیم اجتماع کا واقعہ ہر 19 سال، 10 مہینے اور 14 دن میں ایک بار رونما ہوتا ہے۔)

تاہم ایسے بیشتر مواقع پر زحل اور مشتری میں ظاہری فاصلہ کم ہونے کے باوجود اتنا ضرور رہ جاتا ہے کہ انہیں الگ الگ سیاروں کے طور پر شناخت کیا جاسکتا ہے۔ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ جب ’’عظیم اجتماع‘‘ کے دوران یہ دونوں سیارے اتنے قریب آگئے ہوں کہ زمین سے دیکھنے پر ’’ایک سیارے‘‘ کی طرح نظر آئے ہوں۔

اس سال 21 دسمبر کی شام یہی نادر و نایاب واقعہ ہونے جارہا ہے کہ جب زحل اور مشتری کا درمیانی فاصلہ صرف 0.1 ڈگری (6 آرک سیکنڈ) رہ جائے گا… دونوں سیارے اتنے قریب آجائیں گے کہ کسی دوربین کے بغیر، صرف آنکھ سے دیکھنے پر، وہ غروبِ آفتاب کے بعد ایک ’’روشن ستارے‘‘ کی طرح نظر آئیں گے۔

اس کے بعد والے دو عظیم اجتماعات (2040 اور 2060) کچھ خاص نہیں ہوں گے لیکن 2080 کے عظیم اجتماع میں زحل اور مشتری کا درمیانی فاصلہ ایک بار پھر صرف 0.1 ڈگری رہ جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔