شیخ رشید اور وزارتِ داخلہ کا عہدہ؟

سالار سلیمان  اتوار 20 دسمبر 2020
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شیخ صاحب کو وزارت داخلہ کیوں سونپی گئی؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شیخ صاحب کو وزارت داخلہ کیوں سونپی گئی؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

یہ اطلاعات تو تھیں کہ وزارتوں میں ردوبدل ہوگا لیکن اس کا اندازہ کم ہی لوگوں کو تھا کہ شیخ رشید سے ریلوے کی وزارت لے کر ان کو وزیر داخلہ کی اہم ترین وزارت تھما دی جائے گی۔ اس عہدے پر اس سے قبل بریگیڈیئر اعجاز علی شاہ تمکنت رہے ہیں۔ معذرت کے ساتھ، لیکن شاہ جی کے ہاتھ میں بظاہر گنڈاسا ہی رہا تھا، وہ بھی پھر لو، دھر لو اسٹائل کے ساتھ میڈیا میں آتے تھے، لیکن حقیقت میں انہوں نے وہ کچھ ڈیلیور ہی نہیں کیا جس کی ان سے امیدیں قائم کی گئی تھیں۔ اس حوالے سے حبیب اکرم نے عمران شفقت کی موجودگی میں ایک خبر دی، جس کے بعد باقی معاملات کا تجزیہ کرنا آسان ہوگیا۔

علامہ خادم رضوی مرحوم اپنے کارکنان کے ساتھ اسلام آباد کی جانب آرہے تھے تو شاہ جی کو علم ہی نہیں تھا کہ کرنا کیا ہے۔ جس وزارت کا قلمدان ان کے پاس تھا، یہ مضبوط ترین وزارت شمار ہوتی ہے۔ اب جب ٹی ایل پی اپنے کارکنان کے ساتھ اسلام آباد کی جانب چل پڑی تو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس کی اطلاع پہنچائی۔ اس سطر کو دوبارہ پڑھیے کہ قانون نافذ کرنے والے باخبر اداروں نے وزیر داخلہ کو اطلاع دے دی کہ سر جی، یہ کچھ ہونے والا ہے۔ ہمارے لیے کیا آرڈر ہے؟ شاہ جی نے کہا کہ میں ابھی بتاتا ہوں۔

وہ بتاتا ہوں کا وقت آیا ہی نہیں۔ اس دوران آئی جی اسلام آباد نے وزیراعظم ہاؤس رابطہ کیا۔ وہاں سے بھی کوئی جواب نہیں آیا اور ٹی ایل پی کے کارکنان آرام سے فیض آباد آکر بیٹھ گئے۔ یہاں سے وزیراعظم خود اس معاملے میں داخل ہوئے۔ انہوں نے آئی جی سے رابطہ کیا۔ آئی جی نے کہا کہ میں نے سیکریٹری داخلہ سے رابطہ کیا تھا، انہوں نے وزیر داخلہ تک پہنچایا یا غالباً خود وزیر داخلہ سے رابطہ کیا۔ پھر کیا ہوا؟ آئی جی صاحب نے کہا کہ وزیر داخلہ کا رسپانس بہت لیٹ اور کمزور تھا۔ یہاں پر وزیراعظم نے فیصلہ کیا کہ شاہ صاحب اس وزرات کےلیے ٹھیک نہیں ہیں، لہٰذا انہیں کوئی اور قلمدان دیا جائے۔ شاہ صاحب کے حوالے سے یہ رپورٹس بھی ہیں کہ انہیں اس عمر میں یادداشت کے مسائل بھی ہیں۔ واللہ اعلم۔

اب اس وزارت کےلیے اس کی ضرورت تھی جو ایکٹیو رول پلے کرسکتا۔ اس کےلیے سب سے پہلے فواد چوہدری سے رابطہ کیا گیا۔ چوہدری صاحب میں یہ خاصیت موجود ہے کہ وہ جس بھی وزارت میں جاتے ہیں، رونق لگا دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یہاں کام کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں لیکن یہاں پر جو مشیر موجود ہیں، ان کی موجودگی میں کام ہو نہیں سکے گا۔ آپ یا میری سن لیں، یا اُن کی سن لیں۔ خان صاحب کےلیے دوسرا آپشن شفقت محمود صاحب تھے۔ شفقت صاحب بڑے گہرے اور جہاندیدہ سیاستدان ہیں۔ انہیں سیاستدانوں کا بیوروکریٹ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ پاور پولیٹکس کو بھی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم سے عرض کی سر میں تو تعلیمی میدان میں آپ کا وژن لے کر چل رہا ہوں، اگلے سال میں نے اس کا نفاذ کرنا ہے، جس کا سارا کام مکمل ہوچکا ہے۔ اب اگر آپ مجھے کوئی نئی ذمے داری سونپتے ہیں یا مزید ذمے داری دیتے ہیں تو اس صورت میں آپ کا وژن نامکمل رہ جائے گا۔ لہٰذا مجھے اس کو مکمل کرنے دیجئے، میری یہاں موجودگی رزلٹس لانے کےلیے ضروری ہے۔ باقی جو آپ کا حکم ہوگا، اس کی تعمیل ہوگی۔ اب اندرون خانہ حلقہ احباب یہ جانتے ہیں کہ شفقت محمود کا یہ انکار اس وجہ سے نہیں ہے جو وہ بیان کررہے ہیں، بلکہ اگلے سال جب پی ڈی ایم نے اسلام آباد میں آنا ہے تو وہ اصل چیلنج ہوگا۔ شفقت محمود اپنے گلے میں ایسا کوئی بھی ڈھول باندھنا نہیں چاہتے۔

اس کے بعد قرعہ فال شیخ رشید کے نام نکلا۔ شیخ صاحب کی ریلوے میں دکھائی جانے والی ’’شاندار سے بھی نیکسٹ لیول‘‘ کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ شیخ صاحب کو یہاں کیوں لایا گیا ہے؟ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک جانب تو یہ اپوزیشن کو سمجھانے اور مذاکرات کرنے آئے ہیں۔ چونکہ شیخ صاحب پرانے سیاستدان ہیں، سب ہی سیاسی جماعتوں میں ان کے رابطے ہیں، لہٰذا ان کا پہلا کام موجودہ سیاسی صورتحال کو ٹھیک کرنا ہے۔ آپ حکومتی وزرا اور مشیران کی بدلتی ہوئی باڈی لینگویج اور ٹوئٹس میں بدلتے ہوئے الفاظ دیکھ لیجئے، وہ اب افہام و تفہیم کے خواہش مند ہیں۔ کیا اپوزیشن بھی اس موڈ میں ہے؟

شیخ صاحب کا دوسرا کیا کام ہے؟ اگر اپوزیشن نہ سمجھے تو پھر اس کو سمجھایا جائے۔ کیسے؟ پی ڈی ایم کے گوجرانوالہ جلسے میں سابق وزیراعظم نے خطاب کیا تھا، اس سے اگلے دن وزیراعظم اور شیخ صاحب نے میڈیا ٹاک میں منہ پر ہاتھ پھیر کر انہیں للکارا تھا۔ شیخ صاحب شاید اپوزیشن کو مینیج کر ہی لیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔