’’وسیم‘‘ آگئے ’’اکرم‘‘ غائب

سلیم خالق  اتوار 20 دسمبر 2020
اصل فیصلے انھیں چلانے والے چھپے ہوئے چہرے ہی کرتے ہیں۔ فوٹو: فائل

اصل فیصلے انھیں چلانے والے چھپے ہوئے چہرے ہی کرتے ہیں۔ فوٹو: فائل

’’مبارک ہو سنا ہے آپ چیف سلیکٹر بن رہے ہیں‘‘

گذشتہ ہفتے جب میں نے محمد وسیم سے فون پر یہ کہا تو انھوں نے حیرت ظاہر کرتے ہوئے کہا’’کون میں، نہیں میں تو نہیں بن رہا، سنا ہے راشد لطیف کو بورڈ ذمہ داری سونپ رہا ہے‘‘

’’وسیم اکرم کے ہوتے ہوئے راشد لطیف کیسے آ سکتے ہیں‘‘ یہ میرا اگلا جملہ تھا، مجھے ملنے والی خبر پکی تھی، محمد وسیم نے کچھ نہیں بتایا اور حیرانی ظاہر کی اس پر مجھے حیرت نہیں ہوئی کیونکہ وہ کیوں کھل کر سامنے آ کر اپنا کیس خراب کرتے،اب شاید وہ بھی فون نہ اٹھایا کریں جیسے کچھ دیگر سابق کرکٹرزکیاکرتے ہیں، ویسے موجودہ پی سی بی حکام کو داد دینی چاہیے، جیسے ان دنوں چیئرمین احسان مانی اور چیف ایگزیکٹیو وسیم خان چھٹیاں منانے انگلینڈ گئے ہوئے ہیں سال میں کئی بار ایسا ہی ہوتا ہے، پھر بھی نظام چل رہا ہے، اس سے تو اچھا ہے دفتر ہی برطانیہ میں بنا لیں۔

ان لوگوں نے بیشتر سابق کرکٹرز کو کوئی نہ کوئی کام سونپ دیا، جب ہر ماہ چیک ملے تو کون کچھ بولے گا، اس لیے ٹیم ہارے، کھلاڑی بے روزگار ہوں، فیصلوں میں یوٹرن لیا جائے، کوئی کچھ بات نہیں کرتا،اب آج چیف سلیکٹر کا اعلان ہوا تو محمد وسیم کا نام سامنے آیا، مجھے کوئی شاک نہیں لگا کیونکہ جس ملک میں محمد الیاس چیف سلیکٹر بن سکتے ہیں وہاں وسیم کیوں نہیں، دراصل یہ بیچارے توشطرنج کے مہرے ہیں انھیں چلانے والے اور لوگ ہوتے ہیں جو پس پردہ رہ کر کام کرنا پسند کرتے ہیں، پاکستان میں سابق کرکٹرز کے کئی گروپس ہیں جو اپنے اپنے لوگوں کو پروموٹ کرتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ وسیم اوسط درجے کے کھلاڑی تھے، ڈیبیو پر سنچری کے بعد اگلے17ٹیسٹ میں انھیں مزید ایک بار ہی یہ اعزاز حاصل ہوا، البتہ کوچنگ میں انھوں نے ڈومیسٹک ٹیموں کیلیے بااحسن انداز میں خدمات انجام دیں، ان کی ایک خاص بات کمیونی کیشن ہے، وہ کسی سے بگاڑنا پسند نہیں کرتے، سوشل میڈیا پر بھی متحرک رہتے ہیں، دوست زیادہ ہونے کا فائدہ یہ ہے کہ انھیں ایک غیرمعمولی صلاحیتوں کا حامل شخص بنا کر پیش کیا جاتا ہے،البتہ اصل سوال یہ ہے کہ کیا وہ چیف سلیکٹر کی حیثیت سے کامیاب رہیں گے؟

نئے پی سی بی حکام اپنی دانست میں منفرد کام کر رہے ہیں، انھوں نے پہلے بڑی شان سے مصباح الحق کو چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ بنایا، پھر خود ہی ان سے ایک ذمہ داری واپس لے لی، روایتی سلیکشن کمیٹی کی جگہ صوبائی ٹیموں کے کوچز کو سلیکٹر بنایا، یہ فیصلہ بیک فائر ہوا لیکن اگر اب تبدیل کیا تو ایک اور یوٹرن کا الزام سہنا پڑے گا،اس سے قبل بورڈ کے محمد اکرم سے معاملات تقریباً طے ہو چکے تھے مگر انھوں نے روایتی سلیکشن کمیٹی پر زور دیا، ساتھ شاید پیسوں پر بھی بات نہ بنی، یوں وسیم آ گئے مگر اکرم رہ گئے۔

وسیم اکرم سے یاد آیا کہ پس پردہ رہ کر معاملات میں ان کا بھی بڑا عمل و دخل ہے، وزیر اعظم عمران خان سے قربت کی وجہ سے وسیم خان انھیں بہت اہمیت دیتے ہیں،ہر بڑے فیصلے میں ان کا مشورہ شامل ہوتا ہے، یقیناً چیف سلیکٹر کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہو گا، البتہ کیا وسیم میں اتنی ہمت ہے کہ وہ مصباح الحق کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کبھی انکار کر سکیں، کیا کسی سابق بڑے کرکٹر کو اس پوسٹ پر نہیں آنا چاہیے تھا؟

محمد یوسف سے بات چیت چل رہی تھی، وہ ہائی پرفارمنس سینٹر کی ملازمت کے بعد ویسے ہی تنقید چھوڑ کر بورڈ کے گن گانے لگے ہیں، انھیں ایک اور کام سونپ دیتے، مان لیا کہ وسیم کی آنکھیں بڑی جوہر شناس ہیں، وہ ٹیلنٹ کو سات پردوں کے پیچھے سے بھی ڈھونڈ لیتے ہیں،وسیم ویسے ہی صوبائی کوچ کی حیثیت سے سلیکشن کمیٹی کا حصہ تھے نئے پلیئرز کی تلاش تو وہاں بھی کر لیتے، دیکھتے ہیں مصباح اور وسیم کتنے عرصے ایک پیج پر رہتے ہیں،کوچ تو ہر ہار پر سبق سیکھنے کا بہانہ گھڑ دیتے ہیں۔

نجانے کب ٹیم حقیقت میں سبق سیکھے گی، اگر وسیم یس مین بن کر رہے تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہو گا، اب دیکھنا یہ ہے کہ نئے کھلاڑیوں کو کتنا چانس ملتا ہے، صرف ذاتی پسند ناپسند کو ترجیح نہ دی تب ہی کوئی بات بنے گی، ارے ہاں بورڈ نے ’’ربڑ اسٹیمپ‘‘ کرکٹ کمیٹی کیلیے ایک  فرمانبردار سربراہ سلیم یوسف کی صورت میں ڈھونڈ لیا ہے، وہ میڈیا سے دور لوپروفائل رہتے ہیں حکام کو ایسے ہی فرد کی تلاش تھی، ویسے بھی انھیں کرنا کیا ہوگا، فیصلے تو اعلیٰ حکام خود کر کے بعد بھی رسمی مہر لگوا لیتے ہیں، جیسے گورننگ بورڈ ہے اس سے بھی چار ہاتھ آگے کرکٹ کمیٹی ہے۔

جس کا اجلاس بھی شازدنادر ہی ہوتا ہے، پاکستانی کرکٹ کو تجربات کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے، حکومت کی مکمل سپورٹ کی وجہ سے بورڈ کوکسی کا ڈر بھی نہیں، سابق کرکٹرز نوکریاں پا کر خاموش ہیں، وہ تو ٹیم ہار جائے تو بھی تنقید نہیں کرتے، ان تجربات کا فوری نقصان تو شاید لوگ ایسے ہی نظرانداز کرتے رہیں لیکن جب بورڈ میں تبدیلی آئے گی تب علم ہو گا کہ سامان باندھ کر برطانیہ جانے والے لوگ کیا کچھ کر گئے ہیں، ابھی تو آپ کوئی سچ بات بھی کریں تو ٹویٹر آرمی منفی سوچ کا طعنہ مار دیتی ہے،مگر ڈومیسٹک کرکٹ میں تبدیلیوں سے لے کر ٹیم کی 2 سال میں کارکردگی کا جائزہ لے لیں سچ کیا ہے سامنے آ جائے گا۔

اب تو وسیم خان کہہ چکے کہ فیصلوں میں تسلسل کے لیے عہدے میں مزید توسیع لینا چاہتے ہیں،یقیناً احسان مانی بھی ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں کہیں نہیں جائیں گے، کیونکہ جب تک ان کے سلیکٹرز موجود ہیں ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا، یہ بیچارے کرکٹ سلیکٹرز تو کچھ نہیں ہیں، اصل فیصلے انھیں چلانے والے چھپے ہوئے چہرے ہی کرتے ہیں، یہ پہلے بھی ہوتا تھا اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پرفالو کر سکتے ہیں)

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔