انجام

ایم جے گوہر  اتوار 20 دسمبر 2020

اللہ تعالیٰ نے لکڑی پیدا کی مگر اس نے کشتی نہیں بنائی۔ رب کائنات نے لوہا زمین کے اندر رکھ دیا مگر اس نے لوہے کو مشین کی شکل میں نہیں ڈھالا۔ اس نے المونیم اور پلاسٹک پیدا کیا مگر ان کو جہاز کی صورت میں تشکیل دینے کا کام چھوڑ دیا۔ ذرا سوچیے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دوسرا کام اللہ تعالیٰ انسان سے لینا چاہتا ہے۔

جیسا کہ ارشاد باری ہے کہ ’’تم غور و فکر کیوں نہیں کرتے‘‘ اللہ تعالیٰ نے ایک طرف ہر قسم کے خام مواد پیدا کیے اور دوسری طرف انسان کو عقل و شعور عطا کیا۔ اب اللہ تعالیٰ کی منشا اور مرضی یہ ہے کہ انسان زمین سے خام مواد لے کر اس کو مشین کی صورت دے۔ وہ بغیر گھوٹے ہوئے مادے کو اپنی مرضی سے کسی سانچے میں ڈھال دے۔

یہی فطرت کی قوتوں کو تمدن میں تبدیل کرنے کی مثال ہے۔ ٹھیک یہی معاملہ انسان سے بھی مطلوب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک بہترین شخصیت عطا فرمائی۔ فطرت کی سطح پر اس کو اعلیٰ ترین وجود عطا فرمایا۔ تاہم یہ انسانی شخصیت اپنی ابتدائی صورت میں ایک خاص قسم کا مواد ہے۔ اب یہ انسان کا کام ہے کہ وہ خدا کے دیے ہوئے اس ابتدائی وجود کی تشکیل نو کرے۔ وہ فطرت کے سادہ ورق پر اپنا کلام تحریر کرے کہ یہی انسان کا اصل امتحان ہے۔

صحیح سمت میں، صحیح وقت پر صحیح قدم ہی اس کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ کرتا ہے اور اسی پر اس کے مستقبل کا انحصار ہوتا ہے۔ کوئی شخص اپنی گویائی کو حق و سچ کے اعتراف کی طرف لے جاتا ہے اور کوئی اس سے انکار کا پرچم بلند کرتا ہے۔ ہر آدمی فطرت کی ایک زمین ہے۔ کوئی اپنی زمین پر کانٹے اگاتا ہے اور کوئی اپنی زمین کو پھولوں کا باغ بنا دیتا ہے، جو انسان اپنی کھیتی میں گلوں کی آبیاری کرتا ہے اسے اس کا صلہ آیندہ نسلوں میں خوشبوؤں کا سفر قرار پاتا ہے اسی طرح جو انسان اپنے آنگن میں کانٹوں کو پروان چڑھاتا ہے تو نسل در نسل اس کا راستہ خار زار میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

رب تعالیٰ جب کسی فرد کو اپنی قوم کی رہبری و رہنمائی کے لیے منتخب کرتا ہے تو گویا اس پر یہ ذمے داری ڈال دی جاتی ہے کہ اس قوم کو سیدھے راستے پر ڈال دے یا اسے بھٹکی ہوئی راہوں کا قافلہ بنا دے۔ یہ سب کچھ اسی شخص کی فطرت، کردار اور صلاحیت پر منحصر ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی فطرت کی زمین پر سچائی، حق گوئی، بے باکی، جرأت، صداقت، حقیقت، اتحاد، اتفاق، تنظیم اور ایمان کے زریں اصولوں کی آبیاری کی اور ایک بکھری ہوئی، منتشر اور انگریزوں کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی قوم کو اپنی حکمت، بصیرت، دانش مندی، اصول پرستی، حق گوئی اور جرأت و بہادری سے اتفاق و اتحاد اور تنظیم و ایمان کا درس دے کر ایک آزاد و خود مختار اسلامی مملکت میں لا بٹھایا۔

مستقبل کا راستہ بتا دیا، رہنما اصول وضع کر دیے، عملی سیاست کے اسرار و رموز سکھا دیے۔ اپنی سر زمین کو پھولوں سے سجانے کا ہنر بتا دیا۔ سچائی، ایمانداری، دیانت داری اور صداقت کا سبق پڑھا دیا۔ قائد کے بعد ان کے دست راست لیاقت علی خان نے ان کے زریں سیاسی اصولوں پر چلتے ہوئے جان اس قوم پر قربان کر دی۔ بعد ازاں اس ملک کی قیادت ایسے بے اصول، بدعنوان، نااہل اور مفاد پرست لوگوں کے ہاتھوں میں آئی کہ جنھیں رہنما کہتے اور لکھتے ہوئے بھی قلم لرز جاتا ہے۔ قوم سانحے پر سانحے سے دوچار ہوتی رہی۔ قائد کی اصولی اور نظریاتی سیاست مفاد پرستی اور بدعنوانی کی قبر میں دفن ہو گئی۔

جمہوریت آمریت کے پاؤں تلے روند دی گئی۔ ملک کا ایک بازوکٹ کر جدا ہو گیا، ہمیں پھر بھی ہوش نہ آیا۔ پھانسی، جلاوطنی، کوڑے، جیلیں، ایذائیں، بدعنوانی، کرپشن، لوٹ کھسوٹ، اقربا پروری اور طرح طرح کی بداعمالیاں سیاسی قیادت کی پہچان بن گئیں جس کی سزائیں عوام کو مہنگائی، غربت، بے روزگاری اور دیگر گوناگوں مسائل کی صورت میں آج جھیلنا پڑ رہی ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن میں آج بھی رسہ کشی، کشمکش اور میں نہ مانوں کا پرانا کھیل جاری ہے۔ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم بضد ہے کہ حکومت کو ہر صورت جنوری فروری 2021 میں گھر بھیج دیا جائے گا۔

عمران خان نے وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ نہ دیا تو اپوزیشن کے تمام اراکین صوبائی قومی اسمبلی اور سینیٹ مستعفی ہو جائیں گے اور سینیٹ الیکشن نہیں کرا سکے گی اسے اسمبلیاں تحلیل کرنا پڑیں گی۔ وزیر اعظم اعلانیہ کہہ رہے ہیں کہ اپوزیشن کے دباؤ میں ہرگز نہیں آؤں گا۔ انھیں این آر او نہیں دوں گا اور سینیٹ الیکشن عدالت عظمیٰ سے اجازت لے کر شو آف ہینڈ کے ذریعے وقت سے پہلے فروری میں ہی کرا دیے جائیں گے۔

بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ ہمارے استعفے ایٹم بم ہیں۔ مریم نواز کی گونج ہے کہ وزیر اعظم سینیٹ الیکشن کا اعلان کریں گے تو کیا ہم چوڑیاں پہن کر گھر بیٹھے رہیں گے؟ اب آپ ذرا ہماری نوجوان سیاسی قیادت کے ایٹم بم سے چوڑیوں تک کے ارشادات عالیہ کا جائزہ لیجیے اور فیصلہ کیجیے کہ قائد اعظم اپنی فطرت کے مطابق جس زمین کو گل و گلزار بنانے کے خواہاں تھے اسے آج کے سیاسی قائدین اپنی فطرت کے زیر اثر کس سمت میں لے جا رہے ہیں، کسی کو انجام کی فکر ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔