دکھ کی تشریح ناممکن ہے

شبنم گل  اتوار 20 دسمبر 2020
shabnumg@yahoo.com

[email protected]

شام کے ڈھلتے سایوں میں جب پرندے اپنی منزل کی جانب محو پرواز ہوتے ہیں اور سورج افق کے پار ڈوب جاتا ہے اس وقت دکھ کی چاپ سنائی دیتی ہے۔ تنہائی کے مارے ہوئے دل بوجھل ہونے لگتے ہیں۔

من کی تاریکیوں میں روشن دائرے جلنے بجھنے لگتے ہیں اور دکھ کے اندھیروں کے پس منظر میں خیالوں کے رنگ برنگے پھول کھل اٹھتے ہیں۔

دکھ کی آمیزش فطرت کے پاس بھی موجود ہے۔ خزاں کے جھڑتے ہوئے پتے اداسی و زوال کا استعارہ ہیں۔ برف باری نظام کو مفلوج کرکے رکھ دیتی ہے۔ یہ رکاوٹ تعطل و پوشیدگی کا اشارہ ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روز ازل سے انسان کرب اور گومگو کی کیفیت میں مبتلا دکھائی دیتا ہے اس کے لیے آزمائشیں و دکھ کیوں طے شدہ امر ہیں؟ شاید اس سوال کے جواب کے پاس پردہ انسانی ذہنی و فکری ارتقا کی انوکھی تاریخ رقم طراز ہے۔ خلش نہ ہو تو کھوج کے راستے وا نہیں ہوتے، بے اطمینانی و جمود سے ہلچل و جوش کے نت نئے زاویے پیوستہ ہیں۔ زندگی سپاٹ اور یکسانیت کا شکار نہیں ہوسکتی۔

یکسانیت و جمود موت کی علامت ہیں جب کہ ہلچل زندگی کو بند گلی سے نکال کر کھلی فضا میں لے کر آتی ہے۔ تبدیلی تشویش و اضطراب کو جنم دیتی ہے لہٰذا لوگ تبدیل ہونا نہیں چاہتے۔ وہ فقط احتیاط کے دائرے میں گھومتے ہوئے زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

حساسیت تضاد کو اجاگر کرتی ہے اور گومگو کی کیفیت میں مبتلا کردیتی ہے۔ وقت پر فیصلے کی صلاحیت نہیں رہتی جب کہ انسان چاہے اگر تو وہ کوشش کی چابی سے رکاوٹ کا تالا کھول سکتا ہے۔

زندگی تضادات کا مجموعہ ہے، خوشیوں کی راہ میں حائل سدا روایتوں کے پہرے ہیں، روشن خواب مخالفتوں کی تیز آندھیوں میں معدوم ہو جاتے ہیں، منزل سراب سی دکھائی دیتی ہے۔ دکھ، دل کی راہ پر خود رو بوندوں کی مانند اگ آتا ہے۔

امرتا پریتم کہتی ہیں:

المیہ یہ نہیں ہوتا کہراتکی کٹوری کو کوئی زندگی کے شہد سے نہ بھر سکے اور اصلیت کے ہونٹ کبھی اس شہد کو نہ چکھ سکیں۔ المیہ یہ ہوتا ہے کہ جب رات کی کٹوری پر چاند کی قلعی اتر جائے اور اس کٹوری میں پڑا ہوا تصور کسر جائے۔

یہ زندگی کے المیے انسان کو بہت کچھ سکھا جاتے ہیں۔ ہر المیے کا دکھ و کسک اپنی جگہ مگر ان سے جڑے ہوئے سمجھ و دانش کے رخ بے شمار ہیں۔ انسان خود کو دریافت کرنے لگتا ہے۔ وہ اپنی ذات کے مقابل آن کھڑا ہوتا ہے بصورت دیگر خود فراموشی کے سحر میں گھر کے وہ ذات سے منہ موڑ لیتا ہے۔ دکھ قبولیت کے متقاضی ہیں انھیں تسلیم کرلیا جائے تو ساتھ چھوڑ دیتے ہیں یا فاصلے پر چلنے لگ جاتے ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ غم کا مارا دل فقط اپنی ذات تک محدود رہتا ہے اسی طرح مغرور شخص اس درخت کی طرح ہے جو طوالت کے پیش نظر پھل اور چھایا نہیں بانٹتا۔

ان حالات میں ہمارے بچے اور نوجوان تنہا کھڑے ہیں کیونکہ ان کے بڑے خود کو منوانے کی دھن میں تو نہیں مادیت پرستی کی دوڑ میں ان سے دور جا چکے ہیں۔ پناہ وہ دے سکتا ہے جو خود محفوظ ہو۔ وقت رکتا نہیں اور سمندر کی مانند سب کچھ لمحوں کی لہروں میں سمیٹ کر چلا جاتا ہے۔ وقت جب دسترس میں ہو تو قریبی رشتوں کو ڈھارس کے دو لمحے نہ بانٹ سکیں پھر کیا فائدہ ان محلات کا جو آپ کے جانے کے بعد آپ کی بے حسی کا مذاق اڑاتے رہیں۔ بعض اوقات تو لوگ بڑے گھر بنانے میں سب کچھ فراموش کر ڈالتے ہیں۔ رشتوں و دوستوں کو اچھا احساس نہیں بانٹ سکتے، مسکرانا تک بھول جاتے ہیں، اور جب گھر بن جاتے ہیں تو ان گھروں میں انھیں رہنا نصیب نہیں ہوتا۔ انسان کا المیہ اس کی غفلت اور انجان رہنے میں مضمر ہے۔ دکھ و مصائب کردار کی پرکھ کی بہترین کسوٹی ہیں۔ تضاد میں ظرف کا جوہر کھلتا ہے کہ وہ موتی ہے کہ کھوٹا سکہ۔ بقول کسی مفکر کے ’’مسرت جسم کے لیے مفید ہے لیکن دماغی قوت کی نشوونما کا انحصار غم پر ہی ہوتا ہے۔‘‘ شاید یہی وجہ ہے کہ آج زندگی جتنی آرام دہ ہے ذہنی طور پر اس قدر غیر فعال ہے!

اور موجودہ دنیا اس ذہنی غیر فعالیت کا آئینہ دار ہے۔ عمر خیام کی خوبصورت رباعی ہے۔

’’حالانکہ میرے غم اور دکھ بے شمار ہیں

اور تمہاری عیش و عشرتیں

عروج پر پہنچی ہوئی ہیں

مگر ان دونوں باتوں پر بھروسہ مت کرنا

کیونکہ یہ فلک پردے کے پیچھے

ہزار ہا قسم کے کھیل کھیلتا رہتا ہے‘‘

دکھ تعمیری و تخلیقی پہلو لیے ہوئے ہیں۔ دکھ شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں تو اخلاقی طور پر تباہ کن بھی ثابت ہوتے ہیں۔ دکھ کے مثبت پہلو کو کم لوگ سمجھ پاتے ہیں۔ اکثر وہ اپنے آپ سے سوال کرتے ہیں کہ آخر میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا؟ اس قدر تکلیف میرا ہی مقدر کیوں ہے؟ ناکامی نے فقط میرے گھر کا راستہ کیوں دیکھ لیا ہے؟ درحقیقت یہ لوگ زندگی کا دوسرا رخ نہیں دیکھ پاتے قطع نظر اس بات کے کہ اور بھی بہت لوگ ان سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں، وہ لوگ دکھ کے لمحوں سے تعمیری اسباب کشید نہیں کر پاتے۔ دکھوں کو اپنی طاقت نہیں بنا پاتے کیونکہ وہ دکھ کے بھنور میں ڈوبتے ابھرتے ہوئے کوئی راستہ نہیں نکال پاتے۔ قصور حالات کا نہیں ہوتا بلکہ ان کی منتشر سوچ ان کے لیے رکاوٹ کا سبب بن جاتی ہے۔

آج کل تو کئی موٹیویشنل اسپیکر میدان میں آگئے ہیں جن کے لاکھوں کی تعداد میں فالوورز ان کی آمدنی میں اضافے کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ من میں روشنی نہ ہو تو خوبصورت باتیں راستہ نہیں سمجھا سکتیں۔ بے عمل عالم، مفکر و فلسفی کسی کو راستہ نہیں بتا سکتے۔ ان کے الفاظ زندگی بدلنے کی تاثیر سے خالی ہیں۔ لالچ رہبر سے شفایابی کا ہنر چھین لیتی ہے۔

ذات کے رہبر خود بنیں اور اپنے دوست بن جائیں۔ جو شخص خودکلامی کا سلیقہ رکھتا ہے۔ ذات سے اچھا مکالمہ طے کرلیتا ہے کبھی تنہا و ناکام نہیں ہو سکتا۔

بقول ایک مفکر کے:

’’آپ جب کسی رویے کا تصور کرتے ہیں ہم ہمیشہ اس کے برعکس پہنچ جاتے ہیں۔ امید یا توقع پوری نہیں ہوتی۔ جس کی تمنا کی جائے وہ کبھی حاصل نہیں ہوتا، خواہش کی کبھی تکمیل نہیں ہوتی۔ آپ جس قدر زیادہ خواہش کرتے ہیں آپ اسی قدر کھو بیٹھتے ہیں۔ سمت خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو اس سے فرق نہیں پڑتا قانون ہمیشہ ایک ہی رہتا ہے۔‘‘

اور یہ قانون فطرت ہے کہ زندگی رنگ بدلتی ہے اور اس کے تمام تر رنگ انسان کے ذہن و روح کو جلا بخشتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔