جمہوریت کی خیر ہو

جمیل مرغز  اتوار 20 دسمبر 2020
jamilmarghuz1@gmail.com

[email protected]

چارٹر آف ڈیموکریسی کی دستاویز قارئین نے پڑھ لی ہو ںگی‘ آخر ’’میثاق جمہوریت ‘‘میں ایسی کیا کمی رہ گئی تھی کہ ’’میثاق پاکستان ‘‘ کی ضرورت محسوس کی گئی‘ سیاستدانوں کی غیر ذمے داری کے سوا ؟ جمہوری سیاستدانوں نے ’’میثاق جمہوریت‘‘ کا حشر بھی ویسا کیا جیسا کہ آمروں کے ہاتھوں 1973 کے آئین کا ہوا‘ اب بھی اس امر کی کیا گارنٹی ہے کہ موجودہ میثاق پر عمل درآمد ہو گا یا نہیں؟

محترمہ بینظیر بھٹو نے کہا تھا ’’یہ دستاویز اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری نظر میں جمہوریت صرف شخصیات کی تبدیلی نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی کا نام ہے اور ہم حقیقت میں نظام تبدیل کرنا چاہتے ہیں‘‘ یہ حقیقت ہے کہ اس دستاویز کے ذریعے محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ انھوں نے سابقہ غلطیوں سے یہ سبق حاصل کیا ہے کہ آپس میں لڑنے کے بجائے جب تک پاکستان کی سیاسی قیادت مل کر جمہوریت کے لیے جدوجہد نہیں کرے گی‘ اس وقت تک پاکستان میں غیر جمہوری قوتیں بعض مفاد پرست سیاستدانوں کے ذریعے قوم کی قسمت سے کھیلتی رہیں گی۔

اس چارٹر پر دستخط کر کے ان دونوں رہنمائوں نے کھلے الفاظ میں اپنی سابقہ سیاسی غلطیوں کا اعتراف کیا تھا‘ اب انھوں نے واضح کر دیا تھا کہ ’’بس بہت ہو چکا‘‘ اب ہم مزید ملک کو ذاتی انائوں کی بھینٹ نہیں چڑھائیں گے‘ اب اگر عوام نے ہم پر اعتماد کیا تو اس ملک کو ایک جمہوری اور روشن خیال ملک بنائیں گے‘ ایک ایسا ملک جہاں پر قانون کی حکمرانی ہو گی‘ عدلیہ حکمرانوں کے تسلط سے آزاد رہ کر ہر فرد کو انصاف مہیا کرے گی‘ حکمرانی صرف عوام کی ہو گی‘ جہاں ہر شخص کو روزگار ‘ تعلیم‘ صحت اور بہتر زندگی کی سہولت حاصل ہو گی۔

بدقسمتی سے ملک کے لیے ایک بہتر مستقبل کا خواب دیکھنے والی محترمہ بینظیر بھٹو کو انتخابات سے قبل ہی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا‘ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹوکی وراثت‘ پیپلز پارٹی اور حکومت دونوں جناب آصف علی زرداری کے حصے میں آئیں۔ 18 ویں ترمیم کے علاوہ آئین اور قوانین میں آمروں کے ہاتھوں ہونے والی تباہی کو تبدیل نہ کیا جا سکا‘ یہاں تک کہ ضیاء الحق کے قوانین اور مشرف کے نیب کو بھی جوں کا توں رہنے دیا گیا‘ آج جب اقتدار سے محروم ہو گئے ہیں تو سب ان قوانین کے خلاف چیخ رہے ہیں۔

نواز شریف اور زرداری کو اقتدار اور سیاست سے باہر کرنے کے لیے 2018میں نیا تجربہ کیا گیا‘ یہ تجربہ مکمل طور پر ناکام ہو گیا ہے‘ تمام تر کوششوں کے باوجود ملک مہنگائی ‘بدامنی ‘کرپشن اور بیروزگاری کا شکار ہے۔ چینی سکینڈل‘ آٹا سکینڈل اور اب پٹرول کمیشن کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کس بدنظمی اور کرپشن کا شکار ہو چکا ہے‘ حزب اختلاف کی PDM کی تحریک زور پکڑ رہی ہے‘ لاہور جلسے کی کامیابی کا اندازہ حکومتی وزراء کے تبصروں سے ہوتا ہے‘ اگر جلسہ ناکام ہوتا تو اتنے شور کی ضرورت کیا تھی‘ سینیٹ انتخابات فروری میں کرانے کے فیصلے سے ان کی پریشانی کا اظہار ہوتا ہے۔

2018 کے انتخابات کے متعلق تمام سیاسی پارٹیوں کا موقف ہے کہ اس میں دھاندلی ہوئی ہے، یوں یہ حکومت اور انتخابات دونوں متنازعہ ہیں‘ حکومت کو ہائی برڈ حکومت کہا جا رہا ہے ۔ ملک معاشی طور پر تباہی سے دو چار ہے۔ بلوچستان ‘سندھ اور خیبر پختونخوا سے تو عرصے سے آوازیں اٹھ رہی تھیں لیکن اب پنجاب سے بھی دھاندلی اور مداخلت کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔۔ نواز شریف کی نا اہلی کا کیس پر بھی شکوک وشہبات کیے جارہے ہیں۔ ملک میں جب بھی کوئی سیاسی بحران پیدا ہوتا ہے تو ریاست حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان پل کا کردار ادا کر تی ہے لیکن کوئی اشارہ سامنے نہیں آرہا۔ چھوٹے صوبوں کی محرومیاں جوں کی توں ہیں اور 18 ویں ترمیم پر عمل درآمد نہ ہونے کا گلہ کر رہی ہیں ۔

نیب شدید تنقید کی زد میں ہے ‘ہماری خارجہ پالیسی بھی ابہام کاس شکار ہے۔ عرب ممالک سے بھی تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ پارلیمنٹ عضو معطل بن گئی ہے‘ جب بھی اجلاس ہوتا ہے تو دونوں طرف سے گالی گلوچ شروع ہو جاتی ہے‘ اکثر ابتدا حکومتی بنچوں سے ہوتی ہے۔ حزب اختلاف کی تحریک تیز ہو رہی ہے۔ لاہور کے جلسے کے بعد ماحول اور گرم ہو گیا ہے‘ حزب اختلاف اس کو ایک کامیاب جلسہ اور حکومت ناکام جلسہ کہہ رہی ہے‘ حالانکہ غیر جانبدار حلقے اور بیرونی میڈیا کے نمایندے اس کو ایک کامیاب جلسہ قرار دے رہے ہیں۔ اس جلسے کے فوراً بعد حکومت کی طرف سے سینیٹ انتخابات اور ووٹنگ کے بارے میں اعلانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت دبائو میں ہے۔

اب حزب اختلاف نے فروری میں لانگ مارچ کا عندیہ دیا ہے‘ شدید سردی میں دھرنا اور حکومت کے لیے اس کو کنٹرول کرنا دونوں مشکل کام ہیں‘ بہر حال حکومت اور حزب اختلاف میں فی الحال مذاکرات کے امکانات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں‘ حزب اختلاف نے وزیر اعظم کو 31 جنوری تک استعفا دینے کا کہا ہے اور اس وقت تک ملک کے مختلف حصوں میں جلسے اور ریلیاں منعقد کرنے کا پروگرام بنا رکھا ہے‘ اب ملکی ماحول کو ٹھنڈا کرنے کے لیے گرینڈ ڈائیلاگ کی ضرورت ہے لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔ ؟

اس کا جواب مشکل ہے‘ حزب اختلاف اور حکومت جمہوری گاڑی کے دو پہیے ہیں‘ ایک پہیے سے گاڑی چلانا ممکن نہیں ہوتا۔ خدا جانے اس لڑائی کا انجام کیا ہو گا؟ ہماری تو دعا ہے کہ اﷲ جمہوریت کو کسی حادثے سے محفوظ رکھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔