بتا زیب النسا مخفی (1)

زاہدہ حنا  اتوار 20 دسمبر 2020
zahedahina@gmail.com

[email protected]

ان دنوں مجھ پر ہر طرف سے کتابوں، رسائل اور جرائد کی برسات ہورہی ہے۔ دن عید کے ہیں، راتیں شب برات کی۔

مبین مرزا کا مکالمہ 51 ملا اور اس میں ہماری دانشور شاعرہ یاسمین حمید کی نظم ’’بتازیب النسا مخفی‘‘ دل میں اتر گئی۔ میں نے اسے کئی مرتبہ پڑھا، ہر مرتبہ دل کی بے قراری میں اضافہ ہوا۔ رات گہری ہورہی تھی، وقت نامناسب تھا لیکن میں نے یاسمین کو فون کردیا۔ ان کی محبت کہ انھوں نے فون اٹھالیا۔ میں انھیں جس قدر داد دے سکتی تھی، وہ دی۔

تاریخ تیرے حق میں کیوں خاموش ہے؟… خاموش ہے،…خاموش کردی جائے تو تاریخ پھر… خاموش رہتی ہے…تو کیا زیب النساء تو بھی؟…بتا بھی اب…کہاں ہے تیری مٹی…تاج میں سوئی ہوئی… اک خوب رُو عورت…ابھی جاگی ہے لمبی نیند سے… اور پوچھتی ہے تیری مٹی کو…بتا زیب النسا… لاہور یا دلی…کہ اپنے باپ کے پہلو میں… جلدی بول…کچھ کہہ بھی…مجھے اعلان کرنا ہے… خدا کے واسطے آواز دے…زیب النسا

اورنگزیب عالم گیر کی سب سے بڑی بیٹی شہزادی زیب النساء نے اپنے پردادا شہنشاہ اکبر جیسی بے مثال یادداشت پائی تھی‘ شایدیہی وجہ ہے کہ تین برس کی عمر میں اسے قرآن کی متعدد آیات یاد ہوچکی تھیں۔ مسلمانوں کی روایت کے مطابق چار برس، چار ماہ اور چار دن کی عمر میں اس کی رسم بسم اللہ ہوئی اور اسے ایک ایسی حافظۂ قرآن مریم کے سپرد کردیا گیا جو نیشا پوری تھی اور اپنے شوہر شکر اللہ کشمیری کے ساتھ ہندوستان آئی تھی۔ زیب النساء نے سات برس کی عمر میں قرآن حفظ کرلیا تو شہزادہ اورنگ زیب کے لیے پہلی اولاد کے حوالے سے یہ ایک یادگار واقعہ تھا۔ لڑکیوں کے حفظِ قرآن پر اس طرح خوشی نہیں منائی جاتی تھی لیکن اورنگ زیب نے اس موقع پر ایک شاندار تقریب منعقد کی اور اسے یادگار بنادیا۔ اورنگ زیب کی بے پایاں مسرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حافظہ مریم کو 30ہزار اشرفیاں بہ طور انعام دی گئیں اور غریبوں میں بڑے پیمانے پر روپے تقسیم کیے گئے۔

حافظہ مریم نے زیب النساء کی ابتدائی تعلیم میں حصہ لیا لیکن اس کی باقاعدہ تعلیم شروع ہونے کا مرحلہ آیا تو اورنگزیب نے صرف ونحو کی تعلیم کے لیے ملا جیون کو مقرر کیا‘ جس کے بعد اس نے ملا سعید اشرف ماژند رانی سے 14 برس تک مختلف علوم حاصل کیے۔ ملا ماژ ند رانی نے ہی اسے شعر فہمی کے نکات تعلیم کیے۔ اس نے عربی میںبھی شعر کہے لیکن پھر فارسی کا دامن تھام لیا۔ فارسی اس کی مادری اور مغل دربار کی زبان تھی اور اس میں شعر کہنے کی مشق اس نے چھ برس کی عمر سے شروع کردی تھی۔

اس دوران اس نے فارسی، عربی، سنسکرت اور ہندی میں مہارت بہم پہنچائی اور خطاطی اس نے اپنے استاد کے علاوہ اپنے چچا اور شاہ جہاں کے لاڈلے شہزادے دارا شکوہ سے سیکھی۔ وہ حساب، جغرافیہ ، شہسواری، نیزہ بازی اور شمشیر زنی میں اپنے بھائیوں اور کسی بھی ہم عمر عم زاد سے کم نہ تھی۔ یہ تیموریوں اور مغلوں کا معمول تھا کہ وہ اپنی خواتین کو شکار کے دوران اور میدان جنگ میں ساتھ رکھتے تھے۔ اسی لیے مغل شہزادیوں پر لازم تھا کہ وہ شہسواری میں طاق ہوں اور شیر کا شکار اپنی تلوار سے کرسکیں۔

ابتدائی عمر سے ہی پنچ تنتر کتھا،حکایات بیدپائے اور حافظ کی شاعری اس کا دل لبھاتی تھی۔ اورنگزیب نے دکن کے صوبے دار کے طور پر اور بعد میں جب وہ تخت طائوس پر جلوۂ افروز ہوا تب بھی دیوان حافظ کو لڑکوں کے لیے مدارس میں اور محلات میں بیگمات کے لیے ممنوع قرار دیا تھا لیکن زیب النساء پر یہ پابندی عائد نہیں کی گئی تھی اور وہ دیوان حافظ کا نہ صرف مطالعہ کرتی تھی بلکہ یہ دیوان ہمہ وقت اس کے ساتھ رہتا تھا۔ اورنگزیب کو شاعری اور وہ بھی شہزادیوں کی شاعری سخت ناپسند تھی۔ اس کے باوجود یہ بھی زیب النساء تھی جسے اورنگزیب نے شعر کہنے سے روکنے کی کوشش نہ کی اور زیب النساء نے بھی باپ کے احترام میں اپنی شاعری کو پس پردہ رکھا ۔ شاید ’’مخفی‘‘ کا تخلص بھی اس نے اسی لیے اختیار کیا۔

شہزادی زیب النساء کو درباری سازشوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی اور وہ اپنے لیے مطالعے کو دنیا کا سب سے پسندیدہ شغل سمجھتی تھی۔ وہ دولت آباد کے محلوں میں اپنی کتابوں ،کشمیری کاغذ کے پلندوں اور قلم دوات کی دوسراہت میں بڑی ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی وہ اپنے باپ شہزادہ اورنگزیب اور اپنے بھائیوں کے ساتھ مرغزاروں میں شکار بھی کھیلتی ۔

اورنگزیب اس کی ذہانت اور کثرت مطالعہ کی وجہ سے اس کے علم و دانش پر ناز کرتاتھا اور جب وہ بچی تھی تو اکثر ایسا بھی ہوتا کہ وہ اپنے امراء کے درمیان زیب النساء کو کسی حکایت کے سنانے کا حکم دیتا۔ وہ دولت آباد کے محلوں میں پھرتی، گوالیار کے قلعے کی بھی اس نے سیر کی تھی۔ اس بات سے آگاہ تھی مان سنگھ کے بنوائے ہوئے اس قلعے میں کتنے ہی مغل شہزادوں نے اپنی زندگی کے دن قید میں گزارے تھے۔ اسے تاریخ سے گہری دلچسپی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اقتدار کی خواہش اور اس کے لیے کی جانے والی سازشوں نے اس کے خاندان کے کتنے ہی ذہین اور باصلاحیت شہزادوں کو دہائیوں تک آسمان کی جھلک دیکھنے سے محروم رکھا تھا اور آزادی کے لیے ترستے ہوئے انھوں نے قیدِ جاں سے رہائی پائی تھی۔ ان تاریخی حقائق نے اس جیسی حساس اور درمند لڑکی کو پہروں مضطرب رکھا ہوگا۔

زیب النساء کی زندگی کا دھارا اس وقت بدل گیا جب اس نے اپنے چہیتے باپ شہزادہ اورنگزیب، ماں شہزادی دل رس بانو اور اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کے ساتھ آگرہ کا سفر کیا جہاں اس کے داداشاہ جہاں کی حکمرانی تھی۔ زیب النساء نے اپنے دادا کے بنوائے ہوئے تاج محل کے سیر کی‘ آگرہ کا قلعہ اور محلات دیکھے جہاں کے دربار اور دکن کے درمیان زمین وآسمان کا فرق تھا۔ یہ اس کے باپ اور دادا کے مزاجوں کا تفاوت بھی تھا اور اس بات کا بھی کہ دکن ایک صوبہ تھا جہاں اس کے باپ کی حکمرانی تھی اور آگرہ پایۂ تخت تھا جہاں شہنشاہ ہند حکمرانی کرتا تھا۔ آگرہ کے بعد وہ اپنے دادا کے ہم رکاب دلی گئی جہاں لال قلعہ اور تخت طائوس تھا اور مغل جاہ وجلال نصف النہار پر پہنچ چکا تھا۔

آگرے اور دلی میں ہیرے‘ جواہرات اور مال و دولت کی جو چکا چوند تھی اس نے زیب النساء کو لبھایا لیکن علوم اور شاعری سے اس کا جو رشتہ ابتدائے عمر میں قائم ہوا تھا وہ آگرہ اور دلی پہنچ کر کمزور ہونے کے بجائے گہرا ہوتا چلا گیا۔ یہاں وہ کتابیں تھیں جو اس کے بادشاہ اور شہنشاہ دادا‘ پردادا اور سگڑ دادا جمع کرچکے تھے۔ یہاں اکبر کے دارالترجمہ کی روایت تھی‘ شہزادہ داراشکوہ کی علمی اور ادبی محفلیں تھیں۔ ایران‘ افغانستان اور ترکستان سے مشرق کی اعلیٰ ذہانتیں ہندوستان کھنچی چلی آرہی تھیں۔ یہاں آنے والے کاروان صرف سامان تجارت ہی نہیں لارہے تھے۔ نادر جواہرات کی صندوقچیوں اور چینی ریشم کی گٹھریوں کے ساتھ ہی نئے خیالات کے پشتارے بھی یہاں کھل رہے تھے۔

زیب النساء کے اردگرد چینی‘ ترک‘ پرتگیزی‘ آرمینی اور جارجین کنیزیں تھیں جو ذہانت اور حاضر جوابی میں طاق تھیں‘ شاعری‘ موسیقی اور عالمی ادب کی شناوری جن کا ہنر تھی اور اسی ہنر مندی کی سیڑھیاں طے کرتی ہوئی وہ بادشاہوں، شہزادوں اور امراء کے دل تک پہنچتی تھیں۔ یہاں وہ خواجہ سرا تھے جن کی سازشوں اور جاسوسی کے جال سے مغل شہزادے اور جہاں آراء اور روشن آراء جیسی مختار کُل شہزادیاں بھی چوکنا اور خبردار رہتی تھیں۔

یہاں اس کی ملاقات اپنے چچا دارا شکوہ سے ہوئی جسے اس کا چہیتا باپ ناپسند کرتا تھا ۔ وہ اپنے سب سے بڑے بھائی کے بارے میں جس وضع کے ناپسندیدہ خیالات رکھتا تھا ان سے زیب النساء آگاہ تھی۔ یہاں جب اس پر دارا شکوہ کا علمی تبحر اور ادبی ذوق آشکار ہوا تو اسے حیرت ہوئی ۔ داراشکوہ نے اسے خطاطی کا درس دیا اور پھر اسے اپنے استاد آقا عبدالرشید دیلمی کے سپرد کیا۔ دارا کا کہنا تھا کہ زیب النساء میں خطاطی کی بے پناہ صلاحیتیں ہیں۔ یہ دارا تھا جس نے اس کو سلسلۂ قادریہ کے صوفیا سے متعارف کرایا۔ اسے مراقبے اور ذکر کی باریکیوں سے آگاہ کیا۔

اس کی پھوپھیوں جہاں آرا ء اورروشن آراء نے اسے نقش بندی، قادری، چشتی، سہرودی اور شطاری سلسلوں سے آشنا کیا۔ یہ آگرہ اور دلی کے شب و روز تھے جہاں اس نے رقص وموسیقی کی محفلوں میں شرکت کی اور یہیں اس کے سامنے تصوف، شاعری اور میناطوری مصوری کے نئے اسرار آشکار ہوئے۔ دارا نے اسے مینا طوری مصوری کا وہ مشہور مرقع دکھایا جس میں اس عہد اور اس سے پہلے کے نامور میناطوری مصوروں کے 70 سے زیادہ شاہکار تھے۔ اس مرقع کو دارا نے اپنی بیگم شہزادی نادرہ کے نام معنون کیا تھا۔ شاید چچا کے اس مرقع نے ہی زیب النساء کو ترغیب دی کہ وہ بیش قیمت مینا طوری تصویروں کو حاصل کرے اور انھیں ترتیب دے۔

زندگی زیب النساء کے لیے ابھی تک رنگ ونور سے معمور ایک ہوشربا اور طلسماتی کہانی تھی۔ محل کی ہم عمر شہزادیوں، پھوپھیوں، شہزادی جہاں آرا اور شہزادی روشن آراء کے شب و روز کی ہنگامہ خیزیوں میں حصہ داری اس کا دل لبھانے کے ساتھ ہی اس کی مجبوری بھی تھی کہ یہ آداب شہزادگی میں سے تھا۔ اس کے باوجود وہ ان ہنگاموں کے حاشیوں پر رہتی اور جب بھی اسے موقع ملتا وہ اپنی کتابوں اور شعرو سخن کی محفلوں میں پناہ لیتی۔ وہ وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود پر لکھی جانیوالی کتابوں کا مطالعہ کرتی اور اپنے وقت کے علماء سے تصوف کے معاملات پر تبادلۂ خیال کرتی۔            (جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔