پگڑی کے مت فریب میں آجائیو اسد 

سعد اللہ جان برق  منگل 22 دسمبر 2020
barq@email.com

[email protected]

جناب چیف جسٹس سے منسوب ایک بیان میں ’’بلین ٹری‘‘پر سوال اٹھایا گیاہے ویسے بھی اکثرلوگ پوچھتے ہیں کہ وہ’’بلین ٹریز‘‘کے جنگل کہاں ہیں ایسا اور بھی بہت کچھ ہے۔جس کے بارے میں یہی سوال کیاجاتاہے کہ ’’کہاں ہیں؟‘‘

سنا ہے کہ ان کی بھی ’’کمر‘‘ہے

کہاں ہے کس طرف ہے اور کدھر ہے

ہم تو محقق ہیں اس لیے ہمیں پتہ ہے کہ ایسی چیزیں کہاں ہوتی ہیں؟آپ کو بھی بتادیں کہ کاغذات میں ہوتی ہیں۔ایک مرتبہ ہمارے گاؤں کا ایک شخص جوکسی بلدیاتی کونسل میں کلرک تھا اس پر الزام لگا کہ اس نے گاؤں میں شنگل ڈلوانے کے لیے بے پناہ فنڈز نکلوا کر ہڑپ کیے ہیں، لوگ اس پر تف تف کررہے تھے تو ایک ’’دانا‘‘نے لوگوں کو سمجھایا کہ ہمیں اس شخص کا ممنون ہونا چاہیے کہ اس نے فنڈز نکلوا کر ہڑپ کرلیے ہیں ورنہ اگر وہ یہ ’’سارا شنگل‘‘گاؤں میں ڈلوادیتا تو آج پورا گاؤں اس میں دب چکا ہوتا اور گاؤں کی جگہ قبرستان ہوتا۔

اس بلین ٹری والوں کا بھی ہمیںاحسان ماننا چاہیے کہ انھوں نے بلین ٹری صرف ’’کاغذات‘‘ میں لگوائے ہیں اگر زمین میں لگواتے تو آج ہم جنگل میں رہ رہے ہوتے۔ اس سلسلے میں پڑوسی ملک کا ایک لطیفہ یاد آرہا ہے، کسی علاقے میں کھمبے لگانے کی منظوری ہوگئی کھمبوں کے لیے گڑھے کھودے گئے لیکن کھمبے گاڑنے کے بجائے کچھ روز بعد کچھ لوگ آئے اور گڑھے بھرنے لگے۔

لوگوں نے پوچھا یہ کیا کررہے ہو یہ گڑھے تو کھمبے گاڑنے کے لیے کھودے گئے اور تم انھیں بند کررہے ہو، کھمبے کہاں ہیں۔ اس پر ان لوگوں کا سربراہ جو گڑھے بھر رہے تھے بولا، ہمیں پتہ نہیں، ہمیں تو گڑھے بھرنے کا ٹھیکہ ملا ہے۔اس پر پہلے گڑھے کھودنے والوں کا ٹھیکہ الگ اور کھمبے والوں کا الگ۔ اب اگر کھمبوں والے کی وجہ سے کھمبے نہیں گاڑھ سکے ہیں تو ہم کیا کریں، ہمیں تو گڑھے بھرنے کاکام سونپا گیا ہے اور وہ ہم کررہے ہیں، دوسرے کاموں والے جانیں اور ان کاکام۔اب یہ جو بلین ٹریز کا معاملہ ہے۔

حکومت نے تو فنڈز منظور کیے، متعلقہ لوگوں نے ٹھیکے دیے نرسریوں کو بھی فنڈز ایشو ہوئے، طرح طرح کے ٹھیکیدار اور سپلائر بھی اپنا اپنا حصہ لے گئے، لیکن جب پودوں نے دغا کیا اور کاغذات سے نکلے نہیں تو وہ کیا کریں؟ ’’کاغذات‘‘پر ایک لطیفہ یاد آیا۔ایک شخص جب پنشن لینے گیا تو اسے بتایا گیا کہ کاغذات میں تو تم مرچکے ہو۔ہم پنشن کیسے دیں اس نے بہت اودہم مچایا کہ میں تمہارے سامنے موجود ہوں اور تم کہتے ہو کہ میں مرچکا ہوں۔دیکھو مجھے، ٹٹولو مجھے اور میں خود کہہ رہاہوں کہ میں زندہ ہوں تو تم مجھے مردہ کیسے کہہ سکتے ہو۔

متعلقہ بابو نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔دیکھو بابا۔ہمارا کام کاغذات کے مطابق ہوتاہے اور کاغذات میں تم مرچکے ہو۔وہ پھر چلانے لگا کہ کیا میں کوئی کیڑا ہوں، جھینگر ہوں، دیمک ہوں یا مکھی جو ’’کاغذات‘‘میں مرگیا ہوں۔ آخر کار مسئلے کا حل یوں نکالا گیا کہ وہ جاکر اپنے حلقے کے متعلقہ لوگوں سے یہ لکھواکر لائے کہ وہ زندہ ہے، ازراہ کرم اسے طریقہ بھی بتادیا گیا وہ گاؤں کے کونسلر یا نمبردار سے لے کر ڈپٹی کمشنر کا ہفت خوان طے کرکے اپنے زندہ ہونے کا ’’ثبوت‘‘لایا۔توبابو نے اسے قبول کرتے ہوئے اسے تین مہینے کی پنشن پکڑا دی۔یہ کیا؟ میری تو چھ مہینے کی پنشن واجب الادا تھی۔

متعلقہ بابو نے کاغذات میں دیکھااور پھر اس سے بولا باباجی کاغذات میں یہ تصدیق توہوگئی ہے کہ آپ جنوری فروری اور مارچ کی سہ ماہی میں زندہ ہیں اور وہ پنشن آپ کو ادا کردی گئی ہے اب اگر دسمبر نومبر اکتوبر کی پنشن چاہیے تو آپ یہ ثبوت لایئے کہ اس سہ ماہی میں بھی زندہ تھے۔ اصل چیز کاغذات ہیں۔اب اگر کاغذات میں بلین ٹریز لگائے گئے ہیں تو لگائے گئے ہیں، ہوسکتاہے وہ سوکھ گئے ہوں، ہوسکتا ہے جانور کھا گئے ہوں۔ اب اگر ان کی تحقیق ہوگی تو وہ بھی کاغذات ہی کی بنیاد پرہوگی کون جاکر درختوں کو دیکھے گا ۔

پڑے ہیں تو پڑے رہنے دو میرے خون کے قطرے

تمہیں دیکھیں گے سب محشر میں ’’داماں‘‘کون دیکھے گا

یہاں پر ہمیں ایک مرتبہ پھر اس شخص کا قصہ یاد آیا جس نے بادشاہ کے لیے ’’ان وژیبل‘‘ پگڑی بنائی تھی۔وہ ایک جلاہا تھا اور بادشاہ نے اسے حکم دیا تھا کہ میرے لیے ایک ایسی پگڑی بناؤ جس کی مثال نہ ماضی میں نہ حال میں اور نہ مستقبل میں ہو۔بیچارا جلاہا مجبور تھا لیکن ہشیار تھا، اس لیے اس نے بادشاہ کے لیے ایسی پگڑی بنائی، پیش بھی کی اور بادشاہ کو بندھوائی اور لوگوں نے دیکھ دیکھ کر اسے بے مثل ومثال بھی قرار دیا۔

جب کہ کوئی پگڑی سرے سے تھی ہی نہیں۔مقررہ دن پر جلاہا دربار میں حاضر ہوا تواس نے دونوں ہاتھ اس طرح آگے کیے ہوئے تھے جیسے بہت ہی قیمتی اور قابل احترام چیز پکڑی ہوئی۔اور بادشاہ کے پاس پہنچ کر بولا، حضور یہ رہی آپ کی بے مثال پگڑی۔اوراس کی خصوصیت اور انفرادیت یہ ہے کہ اسے صرف نیک چلن اور صالح لوگ ہی دیکھ سکتے ہیں جو خاندانی اور خالصتاً پاک نسل سے نہ ہو اور بد چلن ہو وہ اسے نہیں دیکھ پائیں گے۔پھر بادشاہ کے سر اردگرد یوں ہاتھ گھمانا شروع کردیے جیسے پگڑی باندھ رہاہو۔ باندھنے کے بعد فخر سے گردن اونچی کرکے مسکراتے ہوئے بولا۔

دیکھیے کیا کمال کی پگڑی ہے اور آپ کے سر پر بہت زیادہ سج رہی ہے۔ اب بادشاہ کو بھی اپنی ولدیت اور خاندان کی نیک چلنی کا ثبوت دینا تھا، اس لیے بولا۔واہ واقعی کمال کی پگڑی ہے، حاضرین دربار وزراء سفراء اور معاونین خصوصی کوبھی اپنی خاندانی نیک چلنی کو بادشاہ اور جلاہے کے ساتھ ایک ’’پیج‘‘پر رکھنا تھا۔اس لیے ہر طرف سے غلغلہ بلند ہونے لگا۔ واہ واہ جی کیا زبردست پگڑی ہے۔پگڑی ہو تو ایسی ہو ورنہ نہ ہو۔اور وہ پگڑی آج تک موجود بھی ہے اور بہت سارے لوگ اسے دیکھ کر عش عش بھی کر رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔