2013ء میں ہم سے بچھڑنے والے

رئیس فاطمہ  ہفتہ 28 دسمبر 2013

موجودہ سال میں بہت سے لوگ ہم سے بچھڑ گئے جن سے براہ راست ملاقاتیں رہیں اور جن سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ ان میں سب سے پہلا نام شفیع عقیل کا ہے۔ نہایت منکسرالمزاج، لیکن زبان کے کھرے۔ منافقت تو جیسے انھیں چھو کر بھی نہیں گزری تھی۔ ڈگری یافتہ نہیں تھے لیکن ان کا مطالعہ، ادبی ذوق اور مصوری پہ جو گہری نظر تھی وہ بہت سی ڈگریوں سے کہیں زیادہ تھی۔ ویسے بھی نام نہاد غیر ملکی اور ملکی یونیورسٹیوں میں سے بیشتر جس طرح جعلی ڈگریوں کی عنایت سے لوگوں کے ناموں میں ’’ڈاکٹر‘‘ کے لاحقے ٹانک رہی ہیں، وہ سب پر عیاں ہے۔ شفیع عقیل کا ادبی کام انھیں ہمیشہ زندہ رکھے گا وہ ان کا میرٹ پہ یقین رکھنا اور باصلاحیت لوگوں کو آگے بڑھانا تھا۔ وہ یہ نہیں دیکھتے تھے کہ۔۔۔۔ کون لکھ رہا ہے، بلکہ یہ دیکھتے تھے کہ کیا اور کیسا لکھا جا رہا ہے۔

ان کے اخبار کے سنڈے ایڈیشن کے لیے میں نے 1965ء سے لکھنا شروع کیا۔ مضمون ڈاک کے ذریعے بھیجا جاتا تھا اور وہ نہایت سلیقے سے اسے شایع کرتے تھے کہ صفحات کی ترتیب میں ان کا جمالیاتی ذوق جلوہ گر ہوتا تھا۔ ان سے باقاعدہ ملاقات 1968ء میں صفحات طلبہ کے انچارج کے کمرے میں ہوئی اور مجھے بے حد خوشی ہوئی جب انھوں نے میرے ہفتہ وار کالم۔۔۔۔ ’’نذر طالبات‘‘ کی کھل کر تعریف کی۔۔۔۔ اب ایسے لوگ کہاں جو نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ سینئر لکھنے والے کسی جونیئر کی تحریر کی تعریف کرنا تو کجا، الٹا راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں۔ انھیں یہ ڈر ہوتا ہے کہ نئے لکھاریوں میں کوئی ان سے آگے نہ نکل جائے۔ اسی لیے وہ ان کے متعلق رائے دینے کے موقعے پر ہونٹ بھینچ لیتے ہیں۔ شفیع عقیل اس لحاظ سے بہت بڑے دل اور کھلے ذہن کے مالک تھے۔ آج بڑے بڑے نام ور لکھنے والوں نے اپنے سفر کا آغاز شفیع عقیل کے میگزین کے صفحات ہی سے کیا تھا۔

دوسری اہم ادبی شخصیت اردو افسانے کا ایک بہت معتبر نام ہے جو زندگی بھر سچ کہنے اور منافقت نہ برتنے کی سزا بھگتتے رہے۔ یہ تھے احمد ہمیش جن سے میری پہلی ملاقات ریڈیو پاکستان کراچی میں ’’بزم طلبہ‘‘ کے نامور انچارج یاور مہدی کے کمرے میں ہوئی۔ احمد ہمیش کی شخصیت بعض لوگوں کے نزدیک متنازعہ بھی رہی۔ لیکن اس کی وجہ بھی ان کا لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی رائے کا برملا اظہار کر دینا تھا۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اس کی قیمت بھی انھیں ادا کرنی پڑے گی، لیکن انھوں نے اس کی کبھی پرواہ نہیں کی۔ احمد ہمیش نے اپنے دونوں بچوں کی تربیت بہت اچھی طرح کی۔ خاص کر اینجلا ہمیشہ ادبی لحاظ سے ان کی صحیح وارث ہے۔ اسے دکھ ہے کہ ایک ثقافتی ادارے نے ’’یادرفتگاں‘‘ میں اس کے والد کو یاد نہیں رکھا۔۔۔۔ مگر وہ اس کی وجہ بھی جانتی ہے۔ یہ امر باعث خوشی ہے۔

رفیق احمد نقش کو کیونکر بھلایا جا سکتا ہے۔ ایک ایسا سچا، کھرا، دوست نواز، مخلص انسان جس کی سب ہی تعریف کریں گے۔ نہایت وسیع المطالعہ شخص، تمام ادبی پرچوں میں رفیق کا نام نظر آتا تھا۔ جوشؔؔ صاحب کی ’’یادوں کی برأت‘‘ کے چند گمشدہ صفحات کی از سر نو اشاعت کے حوالے سے ان کا کام لائق تحسین ہے لیکن بعض دوستوں نے اس سلسلے میں ان کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا۔ رفیق نقش کی شریک حیات ایک کالج میں پڑھاتی ہیں اور میری بہت اچھی ساتھی ہیں۔ ان کی زندگی کے خلا کو کوئی پر نہیں کر سکتا۔ لیکن وہ بہت باہمت خاتون ہیں۔ رفیق نقش نام و نمود سے بے گانہ ہو کر کام اور صرف کام ہی کرتے رہتے تھے۔ یہی کام کی زیادتی ان کے لیے نقصان کا باعث ہوئی اور ایک شام اپنے کالج کی ایک تقریب کے دوران دل کے دورے سے چل بسے۔

گلوکارہ مہناز نے بھی سال کے شروع میں ہمیں الوداع کہا۔ کیا ان کی یاد میں کوئی پروگرام ہوا؟ میرا خیال ہے کہ نہیں۔۔۔۔مہناز کا تعلق گلوکاری کے حوالے سے ایک معروف گھرانے سے تھا۔ ان کی والدہ کجن بیگم اور خالہ عشرت جہاں کو ریڈیو اسٹیشن پہ بہت دیکھا۔ خود مہناز سے جب بھی آمنا سامنا ہوا ہمیشہ انھوں نے مسکراہٹ سے جواب دیا۔ انتہائی خلیق اور ملنسار۔ اپنے بہن بھائیوں کے لیے زندگی وقف کر دی۔ آواز خدا نے ایسی دی تھی کہ سننے والا ان کی رسیلی اور سروں سے بھرپور آواز سن کر مسحور ہو جاتا تھا۔ گلے میں قدرت نے مرکیاں بھر دیں تھیں۔ انھیں بلاشبہ سروں کی ملکہ کہا جا سکتا ہے۔ ان کی آواز کی دلکشی کلاسیکل انداز کے گانوں میں زیادہ محسوس ہوتی تھی۔ مہناز کی آواز میں امیر خسرو کا مشہور زمانہ گیت بھلا کون بھلا سکتا ہے۔

چھاپ تلک سب چھین لی رے مو سے نیناں ملائے کے

اس گیت کی ادائیگی جس طرح مہناز نے کی ہے اس پر قبر میں خسرو کی روح نے بھی داد ضرور دی ہو گی۔ ایک اور گلوکارہ ریشماں نے بھی اسی سال سب کو اداس کر دیا۔۔۔۔ ریشماں کو دائمی شہرت دلوانے کا نیک کام کیا تھا سلیم گیلانی نے۔ ریشماں کو گلیوں اور بازاروں میں گاتے سنا اور اس کے اندر کے فنکار کو پہچان کر ریڈیو بلا لیا اور جوکل تک بے نام گلیوں میں اپنی آواز کا جادو جگا رہی تھی اسے ملک گیر شہرت عطا کر دی۔ اندرا گاندھی نے ریشماں کو آدھا گھنٹہ دیا تھا سننے کے لیے لیکن جب اس بلبل صحرا کی آواز گونجی تو اندرا گاندھی کو وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا اور یوں کئی گھنٹے گزر گئے۔۔۔ سلیم گیلانی بھی شفیع عقیل کی طرح ہیروں کے پارکھ تھے۔ گزشتہ کئی سال سے ان کا نام بدنام زمانہ ڈیوڈ ہیڈلے کے حوالے آ رہا ہے کہ وہ ان کا بیٹا تھا۔ میں نے اس حوالے سے ایک کالم بھی ڈیڑھ سال قبل لکھا تھا کہ وہ کس طرح جہادی تنظیموں کا آلہ کار بنا۔۔۔۔۔ لیکن ریشماں کو سڑک سے اٹھا کر لازوال شہرت عطا کرنے میں بلاشبہ تمام تر کردار سلیم گیلانی ہی کا ہے۔

مئی 2013ء کی وہ تکلیف دہ شام میں کبھی نہیں بھول سکتی۔ جب دہشتگردوں کی فائرنگ سے ڈھاکہ گروپ آف اسکولز کے روح رواں اور انجمن ترقی اردو پاکستان کے نائب معتمد عمومی اظفر رضوی کو ان کے کوچنگ سینٹر سے چند قدم کے فاصلے پر گولیوں کا نشانہ بنا دیا گیا۔ ساتھ میں ان کا ڈرائیور بھی جاں بحق ہو گیا۔ اظفر کے ساتھ اس وقت ان کا نواسہ بھی گاڑی میں تھا۔ اسے انھوں نے کسی نہ کسی طرح نیچے ٹانگوں کے پاس چھپا لیا اور خود وہاں چلے گئے جہاں سے کبھی کوئی واپس نہیں آ سکتا۔ یوں تو سب ہی جانتے ہیں کہ وہ نہایت خلیق اور ملنسار انسان تھے لیکن میرا اور قاضی اختر کا خیال وہ جس طرح کرتے تھے اور جس احترام اور محبت سے پیش آتے تھے اسے کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ جب بھی سانحہ مشرقی پاکستان کا ذکر میں اپنے کالم میں کرتی اس دن ان کا فون ضرور آتا۔ وہ کہتے تھے کہ انھیں تعجب ہوتا ہے کہ میں بھی اس سانحے کو بالکل اسی طرح محسوس کرتی ہوں جیسا کہ وہ ۔۔۔۔۔اکثر کہتے۔۔۔۔۔خدا نہ کرے کہ جو کچھ ہم نے ڈھاکہ میں دیکھا ہے اسے کوئی دوبارہ دیکھے۔ انجمن کی ہر تقریب ان کے بغیر خالی لگتی ہے۔ میری یادوں کی قندیل ہمیشہ اظفر رضوی کی یادوں سے جگمگاتی رہے گی۔

سال کے اختتام سے پہلے منفرد لب و لہجے کے بہت بڑے شاعر محبوب خزاں بھی دنیا چھوڑ گئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد لوگوں سے الگ تھلگ زندگی گزار دی۔ اکاؤنٹینٹ جنرل سندھ کے عہدے پر فائز رہے۔ ایسے ایسے شعر کہے جو اپنی مثال آپ تھے لیکن ادبی دنیا کی منافقت، مطلب پرستی اور بے حسی دیکھ کر ایسے گوشہ نشین ہوئے کہ کسی سے بھی ملنا پسند نہ کرتے تھے۔ ’’اکیلی بستیاں‘‘ کے نام سے ان کی غزلوں کا مجموعہ شایع ہوا لیکن اپنے اطراف کی خود غرضی نے انھیں ایسا دلبرداشتہ کیا کہ دوسرے دیوان کی اشاعت کے بارے میں سوچا تک نہیں۔ کاش ان کے مرتبے کے مطابق کہیں ان کی یاد میں کوئی تقریب ہوتی۔۔۔۔!!۔۔۔۔بہرحال ان کے چند شعر ضرور سنیے۔ لیکن پہلے یہ قطعہ:

سنبھالنے سے طبیعت کہاں سنبھلتی ہے
وہ بے کسی ہے کہ دنیا رگوں میں چلتی ہے
تمہیں خیال نہیں کس طرح بتائیں تمہیں
کہ سانس چلتی ہے لیکن اداس چلتی ہے
٭٭٭
ایک محبت کافی ہے‘ باقی عمر اضافی ہے
کہتا ہے چپکے سے کون‘ جینا وعدہ خلافی ہے
٭٭٭
کچھ لوگ جی رہے ہیں شرافت کو بیچ کر
تھوڑی بہت ان ہی سے شرافت خریدیے
٭٭٭
سفر میں جب تلک رہنا‘ گھروں کی آرزو کرنا
گھروں میں بیٹھ کر‘ بیتے سفر کی گفتگو کرنا
٭٭٭
ہم آپ قیامت سے گزر کیوں نہیں جاتے
جینے کی شکایت ہے تو مر کیوں نہیں جاتے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔