برطانیہ میں تبدیل شدہ کورونا وائرس کے مزید پہلو دریافت

ویب ڈیسک  بدھ 23 دسمبر 2020
کورونا وائرس میں تبدیل شدہ قسم برطانیہ میں دریافت ہوئی ہے جو تیزی سے پھیلاؤ کی وجہ بن سکتی ہے۔ فوٹو: فائل

کورونا وائرس میں تبدیل شدہ قسم برطانیہ میں دریافت ہوئی ہے جو تیزی سے پھیلاؤ کی وجہ بن سکتی ہے۔ فوٹو: فائل

 لندن: سوشل میڈیا پر لندن کے مصروف ایئرپورٹ اور ریلوے اسٹیشن پر لوگوں کا اژدہام بتارہا ہے کہ اس وبا سے پہلے سے ہی خوفزدہ عوام وائرس میں قابلِ ذکر تبدیلی سے ہیجان زدہ ہوچکے ہیں اور ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں۔ بعض ماہرین نے کا خیال ہے کہ اس وائرس میں 23 مقامات پر جینیاتی اور دیگر تبدیلیاں پیدا ہوچکی ہیں جن کے متعلق دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اس سے وائرس کے پھیلاؤ اور وبائیت میں تیزی آسکتی ہے۔

ماہِ دسمبر میں جنوب مشرقی برطانیہ کے بعض علاقوں کے مریضوں میں ایک ایسے وائرس کی شناخت ہوئی جو پہلے سے مختلف تھا اور اس میں دو درجن سے زائد تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں۔ VUI-202012/01 نامی اس نئی تبدیلی کا بغور مطالعہ کیا جارہا ہے۔ اس کے فوراً بعد درجنوں ممالک نے بھی برطانوی پروازوں پر پابندی عائد کردی ہے جس سے لوگوں کی پریشانی مزید بڑھی ہے۔

سانس کےامراض کی وجہ بننے والے نئے وائرس کے مشاورتی گروہ NERVTAG کے سربراہ پیٹر ہاربی کا خیال ہے کہ اس بات کا 70 فیصد امکان ہے کہ اس تبدیلی کے بعد کورونا وائرس کا پھیلاؤ مزید بڑھ سکتا ہے۔

دوسری جانب بعض سائنسدانوں کا اصرار ہے کہ برطانیہ میں پہلے سے موجود وائرس میں 17 تبدیلیاں ہوئی ہیں جبکہ عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیوایچ او) نے نئے وائرس میں 14 تبدیلیاں نوٹ کی ہیں۔ اپنے محتاط بیان میں ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے، ’شاید یہ انسانوں میں وائرس کی منتقلی اور پھیلاؤ کو بڑھا سکتا ہے۔‘ تاہم اس پر مزید تحقیق کی جارہی ہے۔

دوسری جانب نیل فرگوسن نامی سائنسداں نے اپنی پریس ریلیز میں کہا ہے کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ ان تبدیلیوں سے گزرنے کے بعد وائرس اب بچوں اور نوجوانوں کو بھی متاثر کرسکے۔ اس سے قبل کورونا وائرس کے متعلق عام تاثر یہی تھا کہ یہ بچوں پر کم کم حملہ آور ہوتا ہے۔

تاہم اس دریافت کے بعد ایک جانب تو برطانوی عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے تو دوسری جانب وہاں کے ہسپتالوں میں نئے حفاظتی اقدامات پر زور دیا جارہا ہے۔

دوسری جانب ویکسین ساز کمپنیوں کا اصرار ہے کہ اس نئے تبدیل شدہ وائرس کے خلاف بھی ان کی ویکسین کارگر اور مؤثر ہیں لیکن ماہرین نے ان سب معاملات پر مزید تحقیق پر زور دیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔