پہچان

موسیٰ رضا آفندی  اتوار 29 دسمبر 2013
moosaafendi@gmail.com

[email protected]

یہ ایک حقیقت ہے کہ حواسِ خمسہ کو معنی سوچ عطا کرتی ہے۔ اسے یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ حواسِ خمسہ کے ذریعے حاصل شُدہ علم کو مربوط شکل سوچ ہی عطا کرتی ہے۔چار پیروں یعنی پایوں والی دو مختلف اشیا کے درمیان میز یا تخت کا فرق صرف سوچ ہی واضح کرتی ہے۔ یہ آدمی کی سوچ ہی ہے جو اسے سمجھدار یا بے وقوف بناتی ہے۔ دوسرے لوگ بھی اپنی اپنی سوچ کے مطابق ہی اوروں کو اچھا یا بُرا سمجھتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں جس قدر لوگ بھی بستے ہیں وہ اپنی شکل وشباہت کے فرق کے علاوہ اپنی سوچ کا فرق بھی رکھتے ہیں۔

شکل وصورت نظر آتی ہے لیکن سوچ نظر نہیں آتی ہے۔ سوچ زندگی کو رواں دواں یا لاچار ولاغر رکھنے کے باوجود نظر نہیں آتی۔ شکلیں ، صورتیں اور اجسام سامنے نظر آتے ہیں۔ حاضر رہتے ہیں لیکن سوچ ان سب پر غالب اثرات رکھنے کے باوجود غائب رہتی ہے۔ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ ہم آدمی کو اس کے اعمال کی بنیاد پر ہی اچھا یا بُرا کہتے ہیں۔ ظاہر ہے اس قسم کے نظریات اپنی شکل و صورت کے بجائے ان تعلقات، رکھ رکھاؤ، میل جول کے انداز اور طور طریقوں کو دیکھ کر ہی قائم کیے جاتے ہیں جن کا لازمی تعلق آدمی کی سوچ اور فکر سے ہوتا ہے جو بالکل بھی نظر نہیں آتی ۔ آدمی کے بیانات حرکات وسکنات، تکبر و نخوت یا عاجزی اور انکساری کے ذریعے اپنے آپ کو ظاہر کرتی رہتی ہے۔

سوچ کے بنیادی ماخذ کیا ہوتے ہیں؟ سوچ کے ماخذ کا تعین پیدائش کے عمل کے ساتھ ہی شروع ہوجاتا ہے کیونکہ آدمی جس گود میں دودھ پیتا ہے، جن حالات اور ماحول میں پرورش پاتا ہے ، جس محلے میں کھیلتا ہے، جس اسکول میں سبق پڑھتا ہے اور جس ماحول میں جوان ہوتا ہے، یہی اسباب اس کی سوچ کے زاویوں کو متعین اور مربوط کرتے ہیں اور آخر کار آدمی وہ کچھ بن جاتا ہے جو اوروں کے نزدیک اس کی پہچان ہوتی ہے۔

اگر دیکھا جائے تو ہر آدمی اپنی ایک پہچان رکھتا ہے۔ یہ پہچان دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک جسم و جان کی ظاہری پہچان اور ایک کردار وعمل کے حوالے سے پہچان ۔ پہلی پہچان کا تعلق زیادہ تر آدمی کے اختیار میں ہرگز نہیں ہوتا۔ یعنی اگر اس کی رنگت گوری یا کالی ہے تو اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے۔ اگر قد چھوٹا یا لمبا ہے تو بھی اس میں اس کا عمل دخل نہیں۔ بد صورت یا خوبصورت ہے تب بھی مجبور ہے اور اگر اپنی ظاہری صورت گری میں کچھ بھی علاقائی یا موسمیاتی چھاپ رکھتا ہے اس کے لیے مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا کیونکہ یہ سب باتیں اس کے اختیار سے باہر ہوتی ہیں۔ جاہلیت کی گھمبیر ترین صورت وہ ہے جس کے تحت کوئی آدمی ان بنیادوں پر کسی دوسرے آدمی کو رد کرے جن بنیادوں پر اس کا کوئی اختیار ہی نہیں۔ اسی لیے جب ہمارے وارثؐ نے یہ صدا بلند کی کہ کسی کالے کو گورے پر اور کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں تو اس خدائی قانون کو واشگاف کردیا کہ مخلوقِ خدا اپنے خالق کے نزدیک ہرلحاظ سے برابرہے اور فرق جو ہے وہ صرف اور صرف اس کے کردار کی بنیاد پر روا رکھا جائے گا نہ کہ پیدائشی نشانیوں پر۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ لوگوںکو ایک دوسرے سے مختلف تعارف کرانے کے لیے پیدا کیا گیا نہ کہ تعریف کے لیے۔

ہر چیز پہچان رکھتی ہے۔ ظاہر ہے نظر آنے والی ہر شکل وصورت چاہے لوگوں کی ہو یا اشیا کی اپنی پہچان رکھتی ہے۔ جو لوگ آج بھی سماجی اور معاشرتی طبقات کو انسانی درجہ بندیوں کا پیمانہ سمجھتے ہیں چاہے وہ عقیدے، زبان ، رنگ ونسل کی بنیادوں پر استوار کی جائیں یا قوم وملت کی بنیادوں پر۔ دراصل اکیسویں صدی میں نہیں بلکہ ذہنی طور پر قرونِ وسطیٰ میں زندہ ہیں جن پر اکیسویں صدی کی سائنسی اور تکنیکی معراج نے کوئی اثر نہیں ڈالا۔ ذہنی طور پر اس لیے قرونِ وسطیٰ میں زندہ ہیں کیونکہ بظاہر ایسے سب لوگ نہ صرف انتہائی تعلیم یافتہ، تکنیکی طور پر ماہر اور معاشی طور پر ترقی یافتہ لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔

ایسی صورت حالات میں پہچان ذرا دھندلا جاتی ہے کیونکہ عام آدمی ڈگریوں کی تعلیم کو ذہنی بالیدگی کی بنیاد سمجھتے ہوئے حقیقتاً انتہائی پسماندہ ذہنوں کے مالک حضرات کو بھی دانشوروںکی فہرست میں شامل کردیتا ہے اور یہیں سے اس قسم کے اختلاط کے موذی نتائج برآمد ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور معاشرہ نہ صرف اونچ نیچ کے مضر رجحانات کا شکار ہوجاتا ہے بلکہ زوال کے راستے پر تیزی سے گامزن بھی ہوجاتا ہے۔

ہماری پہچان دھندلا چکی ہے ہمیں اپنی پہچان واضح کرنا ہوگی۔ اگر ہم نے اپنی پہچان واضح کرنے میں کچھ اور دیرکردی تو ہم اسے مستقل بنیادوں پر کھو دیں گے۔
خدا ہم سب کا حامی وناصرہو۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔