گردوں میں پتھری سے بچاؤ کے فطری طریقے

حکیم نیاز احمد ڈیال  جمعرات 24 دسمبر 2020
گردے بدنِ انسانی کی چھلنیاں ہیں جو جسم کے فالتو اور فاضل مادوں کو پیشاب کے رستے خارج کرتے ہیں۔ فوٹو: فائل

گردے بدنِ انسانی کی چھلنیاں ہیں جو جسم کے فالتو اور فاضل مادوں کو پیشاب کے رستے خارج کرتے ہیں۔ فوٹو: فائل

سردی کی شدت میں اضافہ ہوتے ہی ہمارے خورونوش کی عادات اور روز مرہ معمولات میں تبدیلی پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔فضا میں گرتے ہوئے ٹمپریچر اور بڑھتی ہوئی خنکی کا مقابلہ کرنی کی بدنی قوت کو بہتر کرنے کے لیے مرغن، مقوی اور توانائی سے بھرپور غذاؤں کا استعمال کرنا لازم ہوجاتا ہے۔

موسم کی شدت سے بچنے کے لیے ہمیں خوراک میں گوشت، مچھلی، چکنائیاں، مٹھائیاں، پنجیری، بھانڈا ، دیسی گھی اور مسالہ جات وغیرہ شامل کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ایسے میں جب ہم مرغن،مقوی اور توانائی سے بھرپور غذاؤں کا انتخاب ا ور ا ستعمال کرنے لگتے ہیں تو ہمارے بدنی نظام اور اعضاء کو بھی غیر ضروری طور پر زیادہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ٹھوس خوراک اور مرغن غذاؤں کے استعمال سے کمزور معدے کے حاملین کو کئی ایک مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑجاتا ہے۔

موسم کی خنکی اور ٹھنڈک کے باعث پانی پینے کی عادات میں بھی کمی ہونے لگتی ہے جس کی وجہ سے بدن کا نظام اخراج متاثر ہوجاتا ہے۔نظام اخراج ہمارے جسم کے فاضل و فاسد  اور زہریلے مادوں کو خارج کر کے بدن کو مختلف مسائل سے محفوظ بناتا ہے۔ جسم سے زہریلے مادے خارج کرنے میں میں نظام بول وبراز کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔

پیشاب کے رستے جسم سے فاضل وفاسد اور زہریلے مادے خارج کرنے میں گردوں کا بنیادی کردار مانا جاتا ہے۔ گردوں کو بدنِ انسانی کی چھلنیاں کہا جاتا ہے یہ جسم کے فالتو اور فاضل مادوں کو پیشاب کے رستے خارج کرتے ہیں۔پیئے جانے والے  پانی اور دیگر لیکوئیڈزکا 60 فیصد پیشاب کی شکل میں باقی 40 فیصد جلدی مساموں اور پھیپھڑوں کے رستے انسانی جسم سے اخراج ہوپاتا ہے۔

گردوں میں درد کی کیفیت پیدا ہونے کی سب سے بڑی وجہ گردوں میں پتھری کا بننا اور حرکت کرنا ہے۔صرف پتھری کے بن جانے سے عام طور پر درد ظاہر نہیں ہواکرتا بلکہ درد پتھری کے حرکت کرنے یا خارج ہونے کے عمل کے دوران سامنے آتاہے۔ہماری روز مرہ بعض غذائیں ایسی ہوتی ہیں جن کے استعمال سے پتھری کا اخراج ممکن ہوجاتا ہے اور جب پتھری نکلنے کے پراسیس کے دوران پیشاب کی نالی میں سے گزرتی ہے یا مثانے میں پہنچتی ہے تب گردے میں شدید درد کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

درد گردہ کی علامات

درد گردہ کا حملہ ہونے کے لیے کوئی خاص عمر مختص نہیں ہوتی یہ کسی بھی عمر میں کسی کو بھی ہو سکتاہے۔ اس کی ابتدا کمر میں ہلکے ہلکے درد سے ہوتی ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدت اختیار کرتی جاتی ہے۔ جب  پیشاب کی نالی یا مثانے میںپتھری ہونے کی وجہ سے درد گردہ ظاہر ہوتو پیشاب میںخون یا پیپ کی آمیزش بھی ہوسکتی ہے۔ پیشاب کی حاجت بار بار ہوتی ہے لیکن پیشاب رک رک کر آتا ہے۔درد گردہ گردوں کے مقام سے شروع ہوکر رانوں کی طرف جاتا ہے ۔

بعض اوقات عضو بول میں پیشاب سے پہلے یا بعد میں درد کی ٹیسیں اٹھتی ہیں یا پیشاب کی نالی میں خارش ہوتی ہے۔ در اصل یہ درد گردہ کی ابتدا ہوا کرتی ہے۔ مبتلا فرد درد کی شدت سے یوں تڑپتا ہے جیسے مچھلی بن پانی کے تڑپتی ہے۔ ٹھنڈے پسینے،گھبراہٹ، قے،اور متلی کی علامات بھی دردگردہ میں پیدا ہوجاتی ہیں۔ گردوںکا درد پتھریوں کی حرکات کی وجہ سے ہوتی ہے ورنہ اکثر لوگوں کو سالہا سال گردے کی پتھری کا علم نہیں ہو پاتا۔

درد گردہ کیوں اور کب ہوتا ہے؟

گردوں اور مثانے میں پتھری ایسے افراد میں زیادہ بننے کے امکانات ہوتے ہیں جو گوشت خوری  اور چائے وسگریٹ نوشی بکثرت کرتے ہیں۔ پتھری عام طور پر کیلشیم، فاسفیٹ ، یورک ایسڈ ، آگزیلیٹ اور سسٹین سے وجود میں آتی ہیں۔سبزی اور دال خور افراد گردوں کے مسائل سے اکثر محفوظ رہتے ہیں۔ ہمارے یہاں عام طور پر گردوںاور مثانے میں پیدا ہونے والی پتھریاں آگزیلیٹ کی بنی ہوتی ہیں۔

گردوں کے میٹا بولزم میں خرابی ہوجانے سے خون میں فاسد اور زہریلے مادوں کا شامل ہونا،پیشاب میں یوریٹس، فاسفیٹس اور اگزالیٹ اجزاء کی مقدار کا ضرورت سے زیادہ ہونا،خوراک میں وٹامن اے اور تھایا مین کی کمی، اعضاء رئیسہ کا کمزور ہو جانا، نظام بول کی خرابی یا سوزش کا ہوجانا، متعفن اور غیر شفاف پانی پینا ، نشاستہ دار پروٹینی غذاؤں کے بکثرت استعمال سے بھی گردے میں پتھری بننے اور درد گردہ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

بادی اور ثقیل غذاء کی زیادتی اور دائمی قبض اور انتڑیوں میں نائٹروجنی گیس جمع ہونے سے بھی درد گردہ کا اظہار ہونے لگتا ہے۔ مسلسل اور دیر تک بیٹھے رہنے والے ،سہل پسند اور ورزش وغیرہ نہ کرنے والے افراد کو بھی درد گردہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔کچھ ایسی نرم مادوں پر مشتمل پتھریاں بھی ہوتی ہیں جو بعض اوقات پیشاب کے ساتھ خارج ہوتی رہتی ہیں۔

رواں موسم میں گردوں کے مسائل عام طور پر زیادہ سر اٹھاتے ہیں۔سردی کی شدت کے باعث روز مرہ پانی کی مقدار بہت کم استعمال ہوپاتی ہے جس سے گردوں میں پائی جانے والے ریتلے اجزاء کے حرکت کرنے سے گردوں میں شدید درد ہونے لگتا ہے۔

جسم میں پانی کی مطلوبہ مقدار سے کمی واقع ہوجانے سے درد گردہ حملہ آورہونے کا زیادہ اندیشہ ہوتا ہے۔یوں تو آگزیلٹ ٹماٹر، پالک، جامن، چقندر، بھنڈی، بینگن، دالیں، پیاز، انگور، خوبانی، سبز مرچ، شکر قندی، بادام، اخروٹ، پستہ کاجو، تل اور چوکلیٹ میں بھی پایا جاتا ہے لیکن بہت ہی کم مقدار ہوتی ہے جو عام طور پر اچھا ہاضمہ ہونے کی صورت میں فضلات کے ساتھ ہی خارج ہو جاتا ہے۔جبکہ سگریٹ، چائے اور کافی، کلیجی، گردے، مغز، لبلبہ، مچھلی، گوشت، سری پائے، تلی اور بھنی ہوئی غذاؤں میں آگزیلیٹ کی بہت زیادہ مقدار پائی جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ چائے و سگریٹ نوش اور گوشت خورافراد عام طور پر گردوں کے مسائل میں گھرے عام دیکھے جاتے ہیں۔ فی زمانہ کئی ایک ادویات کے مبینہ سائیڈ ایفیکٹس کی وجہ سے بھی گردوں اور مثانے کی مسائل عام ہورہی ہیں۔ ملٹی وٹامنز،اسٹیرائیڈز،اینٹی بائیو ٹیک اور پین کلرز کا مبینہ طور پر متواتر استعمال اور اتائیوں کے نسخہ جات کھانا بھی گردوں کی بیماریوں کاباعث بن سکتا ہے۔

درد گردہ سے بچاؤ کی گھریلو تراکیب

درد گردہ کے مریض کو فوری افاقہ پہنچانے کے لیے گرم پانی سے گردوں کے مقام پر ٹکور کرنا بے حد مفید ہوتا ہے۔ تمباکو  ابال کر گردوں کے مقام پرنیم گرم باندھنا بھی درد کا ازالہ کرتا ہے۔اسی طرح درد گردہ میں مولی کے نمک کا استعمال بھی بہترین نتائج دیتا ہے۔ نہار منہ عرقِ سونف کے آدھا کپ اور عرق برنجاسف میں 2 چمچ شربتِ بزوری ملا کر پینے سے بھی تسکین حاصل ہوتی ہے۔ پتھر چٹ بوٹی کے پتوں کے رس میں شہد ملا کر پینا بھی گردوں اور مثانے کی پتھری خارج کر نے کا بہترین قدرتی طریقہ سمجھا جاتا ہے۔

انگور کے پتوں کو خشک کر کے بطور سفوف آ دھی چمچی نیم گرم پانی کے ساتھ کھانا بھی گردوں کی پتھری سے نجات دلاتا ہے۔ اسی طرح مکئی کے بھٹے کے بالوں کا پانی میں ابال کر بطورِ قہوہ پینا بھی گردوں اور مثانے سے فاضل مادوں کے اخراج کا بہترین ذریعہ بنتا ہے۔

میڈیکل پامسٹری ماہرین کے مطابق ایسے افراد جن کے میٹا بولزم میں پتھری بننے کا رجحان پایا جاتا ہو اگر وہ سنگِ فیروزہ کو بطورِ انگوٹھی دائیں ہاتھ کی رنگ فنگر میں پہنیں تو وہ گردوں سے جڑے تمام مسائل سے محفوظ رہتے ہیں۔

غذائی پرہیز

ایک تن درست آدمی کو روزانہ 3 لیٹرز پانی یا لیکوئیڈز کا استعمال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔آپ بھی اپنی روز مرہ خوراک کا جائزہ لیں کہ کیا آپ متوازن اور صحت افزاء خوراک اور پانی کی مطلوبہ مقدار استعمال کر رہے ہیں۔

ایسے افراد جن کے میٹا بولزم مین پتھری بننے کا رجحان پایا جا تا ہو انہیں چاہیے کہ بطورِ احتیاط پانی میں سونف ابال کر پیاکر یں۔ایسی تمام غذائیں جن میں فولاد ، نشاستہ اور پروٹینی اجزاء بکثرت پائے جاتے ہوں ان کے استعمال سے مکمل پرہیز ضروری ہے۔ وٹا من اے اور تھایا مین سے لبریز غذاؤں کا بکثرت استعمال کرنا انتہائی مفید ثابت ہوتا ہے۔ صاف و شفاف پانی کے استعمال کا خاص خیال رکھا جانا چاہیے۔ گوشت، چاول، بینگن، ٹماٹر ، پالک ، ساگ ، دالیں ،کلیجی، سیب ،کچی پیاز ، خشک میوہ جات ،کولا مشروبات ، بیکری مصنوعات ، فاسٹ فوڈز، بکثرت چائے وسگریٹ نوشی ، تلی وبھنی ہوئی ڈشز ، بادی،ثقیل اور دیگرپتھری کا سبب بننے والی غذاؤں سے مکمل پرہیز ضروری ہے۔

اسی طرح غیر ضروری طور پر پین کلرز ادویات، اسٹیرائیڈز، ملٹی وٹامنز اور اتائیوں کے نسخہ جات اور سدا جوانی بحال رکھنے والے فارمولہ جات سے مکمل طور پر دور رہا جائے۔گلی محلوں اور دکانوں پر ملنی والی درد گردہ کی مفت ا دویات کے استعمال سے بھی بچا جانا چاہیے۔ میٹا بولزم کو تحریک دینے کے لیے خالی پیٹ پسینہ لانی والی ورزشیں کرنا بھی لازمی ہیں۔گاجر، مولی، کھیرا،بند گوبھی، سلاد کے پتے سبز مرچ اور دوسری صحت بخش کچی سبزیاں بکثرت استعمال کریں۔ معدے کی کارکردگی درست رکھنے پر دھیان دیا جائے اور قبض کے موذی مرض سے ہمیشہ بچا جائے تو درد گردہ سمیت لا تعداد امراض سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔