مک مکا اور چائے پانی کی لعنت

چوہدری محمد اخلاق  اتوار 29 دسمبر 2013
موجودہ دور میں ایک عام شہری انصاف کو ترستا ہی رہتا ہے۔  فوٹو: فائل

موجودہ دور میں ایک عام شہری انصاف کو ترستا ہی رہتا ہے۔ فوٹو: فائل

بیول:  کرپشن کے اژدھے نے جہاں دوسرے محکموں پر اپنی گرفت مضبوط کی ہے، وہاں انصاف کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

’’چائے پانی‘‘ اور ’’مُک مُکا‘‘ محض اصطلاحیں نہیں، انصاف کی راہ میں ایسی رکاوٹیں ہیں کہ جو ان پر عمل پیر ا ہوکر چل پڑا پھر وہ انصاف کی جست جو میں بھٹکتا ہی رہا، اُس کی منزل دور سے دور ہوتی چلی گئی اور المیہ یہ ہے کہ جو نہ چلا وہ منزل تک پہنچنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ موجودہ دور میں ایک عام شہری انصاف کو ترستا ہی رہتا ہے اورا گر چائے پانی اور مُک مُکا کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے چل ہی پڑے تو پھر اُس سے انصاف میلوں دور کر دیا جاتا ہے تاکہ یہ چائے پانی کا دھندا چلتا ہی رہے۔

اسلام پورہ جبر میں نزاکت حسین کے اہل خانہ کے ساتھ ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ نزاکت حسین جو اسلام پورہ جبر میں ایک کیری ڈبے کا ڈرائیور تھا اور اُس کا ذریعۂ معاش یہ کیری ہی تھی۔ گھر میں ایک ضیفعہ ماں، بیوی اور ایک سال کی معصوم بچی تھی ۔ نومبر 2007 میں جبر شہر سے نامعلوم افرادنے نزاکت حسین کی کیری بُک کروائی ور اُس کو ساتھ لے گئے، شام تک جب نزاکت حسین جب گھر نہ لوٹا تو اہل خانہ نے موبائل پر کال کی لیکن فون بند تھا اور پھر اُنہوں نے جبر شہر سے پتہ کیا لیکن صرف اتنا معلوم ہو سکا کہ تین نامعلوم افراد اُس کو اپنے ساتھ لے گئے تھے۔

وہ تین افراد کون تھے؟ کہاں سے آئے تھے؟ یہ کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔ نزاکت حسین کے اہل خانہ نے دوسرے دن تھانہ گوجرخان میں رپورٹ درج کروائی لیکن خوفِ خدا سے عاری پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے کے لیے پچاس ہزار روپے کی ڈیمانڈ کی، اہل خانہ نے پیسے دینے سے انکار کر دیا اور اس طرح ایف آئی آر درج نہ ہو سکی۔ تقریباً ایک ماہ گذر گیا اور بڑی تگ و دو کے بعد سی پی او راول پنڈی کو درخواست دی گئی اور ان کی طرف سے احکامات جاری ہوئے تب کہیں جا کر تھانہ گوجرخان میں ایف آئی آر درج ہوئی لیکن جن کے منہ کو حرام لگ چکا ہو وہ کب ٹلتے ہیں چائے پانی اس کے باوجود اینٹھ لیا گیا۔ کسی کے دل میں اک ذرہ ترس نہ آیا کہ ایک گھرانے کا ایک جیتا جاگتا شخص لاپتا ہے، مصیبت میں گھرے خاندان کو بکرا قرار دے لیا گیا اور رشوتیں وصول کرکے تفتیش کا آغاز کے گیا۔ پولیس ہر دو یا تین دن بعد نزاکت حسین کے اہل خانہ کو تھانے بلواتی اور اُن کو تسلی دے کر چائے پانی اور ایزی لوڈ کے پیسے وصول کرکے اُن کو واپس بھیجتی رہی اور ہوتے ہوتے تین ماہ گزار دیے۔

پھر یوں ہوا کہ گوجرخان کی ایک موبائل شاپ سے نزاکت حسین کا موبائل مل گیا، پولیس نے اُس موبائل شاپ والے کو پکڑا، تفتیش کی اور مُک مُکا کی پالیسی پر عمل پیرا ہو کر اُس موبائل شاپ والے کو بھی چھوڑ دیا، اُس سے یہ بھی کنفرم نہ کیا گیا کہ اس نے وہ موبائل کس سے لیا تھا لیکن دوسری طرف نزاکت حسین کے اہل خانہ کو تسلی دیتے رہے کہ وہ موبائل شاپ والا بہت جلد بتا دے گا، اطمینان رکھیں۔ نزاکت حسین کے سادہ لوح دو بھائی اور بزرگ ماں پولیس کا ہر مطالبہ پوری کرتے رہے، ہر بار چار، پانچ ہزار روپے بہ طور چائے پانی دیتے رہے اور تفتیش کے نام پر قانون کی دھجیاں اور خونِ ناحق کی بے حرمتی کی جاتی رہی۔ جب کبھی تفتیشی افسر تبدیل ہوتا تو وہ اپنا ریٹ پہلے سے بالا کر دیتا۔ پہلے کیس کی تفتیش نئے سرے سے شروع کرنے کے لیے بیس، تیس ہزار روپے، اُس کے بعد نارمل چائے پانی۔

آخر تا بہ کے! نزاکت حسین کے اہل خانہ جب پولیس کے اس رویے سے تنگ آ گئے تو اُنہوںنے ڈی ایس پی کو درخواست دی۔ ڈی ایس پی نے ایس ایچ او کی طرف مارک کردی اور ایس ایچ او نے تفتیشی افسر کی طرف۔ متاثرہ خاندان فٹ بال کی طرح کبھی اِس کی کورٹ میں اور کبھی اُس کی کورٹ میں۔ ان درخواستوں کا کوئی فائدہ نہ ہوا تو نزاکت حسین کے اہل خانہ نے سی پی او راول پنڈی کو درخواست دی اُنہوں نے ایس پی کی طرف فاروڈ کر دی اوریہ درخواست بھی مختلف مراحل طے کرتے ہوئے سی پی او سے تفتیشی افسر تک پہنچ آئی، اس طرح ایک اور درخواست ردی کی نذر۔ اس کے بعد نزاکت حسین کے اہل خانہ نے وزیر اعلی پنجاب، وزیر داخلہ رحمٰن ملک کو بھی انصاف حاصل کرنے کے لیے درخواستیںدی مگر چوںکہ لاپتا ہونے والے کا تعلق ان میں سے کسی خاندان سے نہیں تھا لہٰذا کہیں سے بھی کوئی جواب کیوں آتا۔ پھر چیف جسٹس آف پاکستا ن کودرخواست دی گئی لیکن وہ بھی بے سود۔ بلآخر نزاکت حسین کے اہل خانہ نے مایوس ہو کر تفتیشی افسر سے ہی اپنی تمام تراُمیدیں وابستہ کر لیں۔

خیر تفتیش پھر چلی اور چلتی ہی رہی، پولیس کے اہل کار چائے پانی کے نام پر نزاکت حسین کے اہل خانہ سے ہزاروں روپے بٹورتے رہے، جب کبھی زیادہ رقم درکار ہوتی تو دور داراز علاقوں میں رٹ کا نام لے کر پچیس، تیس ہزار روپے تک وصول کر لیتے، اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہا۔ اب نزاکت حسین کے اہل خانہ کی یہ حالت ہوگئی کہ وہ قرض اٹھا اٹھا کر پولیس کی فرمائشیں پوری کرنے لگ گئے۔ اہلِ دل! چھے سال ۔۔۔۔ یہ سلسلہ چھے سال سے جاری ہے، پولیس کی شدادیت رکنے میں نہین آ رہی، ایک غریب خاندان اب تک 25 لاکھ روپے سے زیادہ قانون کے محافظوں کے جہنم میں جھونک چکا ہے، نزاکت حسین کی ضعیف مان آج بھی رو رو کر، ہاتھ ا؁ھا اٹھا کر، بیٹے کی خیریت کے لیے دعائیں کرتی رہتی ہے، اس کی معصوم بچی آج بھی اس گڑیا کی منتظر ہے جسے لا کر دینے کا وعدہ اس کا باپ کرکے گھر سے گیا تھا۔ تھانہ گوجرخان کی پولیس آج بھی امیدیں بندھانے کے سوا کچھ نہیں کرتی۔ نزاکت حسین کے بارے میں کوئی بھی معلومات حاصل نہیں ہوسکیں، جن افراد نے کیری بُک کروائی، وہ کون تھے؟ اُن کا مقصد کیا تھا ؟کیا اُن افراد کی نزاکت حسین کے ساتھ کوئی دشمنی تھی؟ نزاکت حسین زندہ بھی ہے ؟ وہ نزاکت حسین کو کس جگہ لے گئے ؟ ان چھے برسوں میں پولیس نزاکت حسین کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیںکرسکی۔

نزاکت حسین کے اہل خانہ نے 25 لاکھ روپے سے زیادہ رقم خر چ کرد ی پھر بھی اُن کو انصاف نہیںملا۔ اُنہوںنے یہ رقم چھے سال میں پولیس کے چائے پانی پر خرچ کردیے، اگر وہ پہلے ساتھ ہی یہ اکٹھی رقم پولیس کو دے دیتے تو شاید آج رزلٹ کچھ اور ہوتا یا پھر نزاکت حسین کسی ایم پی اے ،ایم این اے ،وزیر،جنرل یا پھر کسی بڑے افسر کا رشتے دار ہوتا تو تھانہ گوجرخان کی پولیس کا ایسا رویہ نہ ہوتا جب تک تھانہ کچہری تبدیل نہیں ہوتا اور یہ چائے پانی اور مُک مُکا کی ملعون پالیسی ختم نہیںہوجاتی تب تک نہ جانے کتنے معصوم عام شہری اس کرپشن کے اژدھے کی خوراک بنتے رہیں گئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔