کوچۂ سخن

عارف عزیز  اتوار 27 دسمبر 2020
مرے سپرد کیا ہے نہ خود لیا ہے مجھے،
کسی نے حیرتِ امکاں میں رکھ دیا ہے مجھے۔ فوٹو : فائل

مرے سپرد کیا ہے نہ خود لیا ہے مجھے، کسی نے حیرتِ امکاں میں رکھ دیا ہے مجھے۔ فوٹو : فائل

غزل


مرے سپرد کیا ہے نہ خود لیا ہے مجھے
کسی نے حیرتِ امکاں میں رکھ دیا ہے مجھے
بچا نہیں میں ذرا بھی بدن کے برتن میں
ترے خیال نے بے ساختہ پیا ہے مجھے
تو ایک شخص ہے لیکن تری محبت میں
دل و دماغ نے تقسیم کر دیا ہے مجھے
میں اپنی سمت بھی دیکھوں تو کفر لگتا ہے
خدا نے یاد بڑی چاہ سے کیا ہے مجھے
جدائی، رنج، اداسی، اندھیرا، خوف، گھٹن
ہر ایک یار نے دل کھول کر جیا ہے مجھے
تمہارے بعد نہیں اب کسی کی گنجائش
کہ تم نے اتنا محبت سے بھر دیا ہے مجھے
(علی شیران۔شورکوٹ، جھنگ)


غزل


جو ہو چکا ہے اسے تو بدل نہیں سکتا
جو ہونے والا ہے کیا وہ بھی ٹل نہیں سکتا؟
ہمارے دل میں یقیں کا چراغ روشن ہے
ہمارے دل میں شبہ کوئی پل نہیں سکتا
ستم بھی کرتے ہو اور چاہتے ہو کچھ بھی نہ ہو
خدا کی بستی میں ایسے تو چل نہیں سکتا
یہ راز موسیٰ سے پوچھیں یا طورِ سینا سے
بغیر دید تو پروانہ جل نہیں سکتا
یہ لوگ چومنے لگ جائیں گے مرا ماتھا
جبیں پہ خاکِ درِ یار مَل نہیں سکتا
وہ جس کا اپنا تعلق بھی ہو گلاب کے ساتھ
وہ آدمی تو کلی کو مسل نہیں سکتا
ہم ایسے لوگوں نے اکرام ؔزندہ رہنا ہے
کہ آفتابِ محبت تو ڈھل نہیں سکتا
(اکرام افضل۔ مٹھیال، اٹک)


غزل


آنکھوں نے اسے تجھ سے چھپانا بھی نہیں ہے
جو خواب مجھے تجھ کو دکھانا بھی نہیں ہے
کھلنے کی نہیں تجھ پہ مری ذات کی پرتیں
یہ شعر مجھے تجھ کو سنانا بھی نہیں ہے
کیوں نیند سے لبریز ہوئی جاتی ہیں آنکھیں
جب تجھ کو مرے خواب میں آنا بھی نہیں ہے
رہنے دے مجھے عالم ِامکاں میں مرے دوست
ابہام سے آگے مجھے جانا بھی نہیں ہے
جانا ہے کہیں خود سے ملاقات پہ مجھ کو
اور گھر سے نکلنے کا بہانہ بھی نہیں ہے
ڈرتے ہیں درِ غم سے اٹھائے ہی نہ جائیں
اپنا تو کوئی اور ٹھکانہ بھی نہیں ہے
اک ایسی مسافت پہ روانہ ہوں کہ جس میں
رکنا بھی نہیں ہے کہیں جانا بھی نہیں ہے
(شعیب بخاری۔ لیہ)


غزل


جس کو اتنا چاہا میں نے، جس کو غزل میں لکھا چاند
چھوڑ گیا ہے مجھ کو کیسے آج وہ میرا اپنا چاند
چھپ جائے ،کبھی سامنے آئے، کھیلے آنکھ مچولی کیوں
میری جان مجھے لگتا ہے بالکل تیرے جیسا چاند
دکھ ہو سکھ ہو،رنج، خوشی ہو، مشکل ہو یا آسانی
ہر موسم میں ساتھ نبھائے میرا یار پرانا چاند
نفسا نفسی کا عالم ہے سب کو اپنی فکر پڑی
اپنی دھرتی ،اپنا امبر ،اپنا سورج اپنا چاند
چہروں سے خوشیاں اوجھل ہیں اور غموں سے دل بوجھل
اب کے اپنے دیس میں نکلا عید پہ جانے کیسا چاند
(صبیح الدین شعیبی۔ کراچی)


غزل


عشق کے تاجروں کو نفع و ضرر سے کیا کام
مفت لے جاؤ، ہمیں قیمتِ سر سے کیا کام
چھت سمجھتے ہیں اسے، گر کہیں مل جائے درخت
آپ کے بادیہ پیماؤں کو گھر سے کیا کام
مانگنے میں ہے وہ لذّت جو نہیں پانے میں
جو تجھے مانگتے ہیں ان کو اثر سے کیا کام
یہ تو وہ جانچتے ہیں یارو ہمارا اخلاص
اور ہوگا انہیں دیوانے کے سَر سے کیا کام
ہم تو عاشق ہیں، بھٹکنا ہی ہے منزل اپنی
کیا تعلّق ہمیں جادے سے، خضر سے کیا کام
اس کی تنہائی مٹانے کے لیے آتی ہیں
ورنہ چڑیوں کو بھلا بوڑھے شجر سے کیا کام
فانی! اللہ نے بخشی ہو جسے کانِ سخن
سیم و زَر سے اُسے کیا، لعل و گُہر سے کیا کام
(فضل اللہ فانی صوابوی۔ صوابی،خیبر پختونخوا)


غزل

بڑے عجیب خسارے گلے پڑے ہوئے ہیں
ہمارے ہاتھ ہمارے گلے پڑے ہوئے ہیں
سنبھلنے والی جگہ پر جو گرتے رہتے ہو
تمہارے دوست تمہارے گلے پڑے ہوئے ہیں
یہ آسمان اندھیرے میں رہنا چاہتا ہے
کہ اس کے چاند ستارے گلے پڑے ہوئے ہیں
میں ایک لڑکی سے کرتا ہوں بات اشاروں میں
مجھے یہ دکھ ہے اشارے گلے پڑے ہوئے ہیں
کسی کے بارے میں کیسے کہوں کہ اچھا ہے
یہاں تو سارے کے سارے گلے پڑے ہوئے ہیں
کہ اِن کو چھوڑ کے کچھ اور دیکھنا ہے مجھے
یہ خوش مزاج نظارے گلے پڑے ہوئے ہیں
میں اپنی ذات کے باعث گرا نہیں کاتبؔ
مگر جو میرے سہارے گلے پڑے ہوئے ہیں
(سجاد کاتبؔ۔دریا خان، بھکر)


غزل

ہجر کی درد بھری رات سے ناواقف تھا
میں قیامت کے سے لمحات سے نا واقف تھا
ہر پری رُخ نے کِیا مشقِ ستم اس دل پر
حسن والوں کے کمالات سے ناواقف تھا
میرے اپنے ہی میرے خون کے پیاسے نکلے
ورنہ اپنوں کی عنایات سے ناواقف تھا
چھوڑ کر پھول کو کانٹوں کی خریداری کی
مرا دل خود میرے جذبات سے ناواقف تھا
روز اب اشک کی بارش ہے دلِ بنجر پر
تم سے پہلے تو میں برسات سے ناواقف تھا
میری قسمت میں سلاسل ہوئی حق کہنے پر
میں زمانے کی روایات سے ناواقف تھا
اپنی منزل کو گنوا کر وہ پریشان تھا وفاؔ
رہنماؤں کی گری ذات سے ناواقف تھا
(سلیم وفا۔سکردو)


غزل


شکایت کی طلب ہے پر شکایت کر نہیں سکتا
کوئی سن لے کوئی مجھ پر عنایت کر نہیں سکتا
بڑا دل ہے محبت بھی بڑی مطلوب ہے مجھ کو
میں دل کو خرچ کرنے میں کفایت کر نہیں سکتا
محبت میں معافی ہو دغا کی ، کیسے ممکن ہے
یہ دستورِ محبت ہے رعایت کر نہیں سکتا
اچھائی کو بیاں کرنے سے اچھا کون ہو پایا
معافی چاہتا ہوں میں ہدایت کر نہیں سکتا
کہانی کار کے دل تک رسائی ہو بھی سکتی ہے
مگر میں اپنے اس دل کو حکایت کر نہیں سکتا
میں مفلس ہوں مرے عالیؔ مجھے پیسہ کمانا ہے
یہ کاروبار الفت میں نہایت کر نہیں سکتا
(عمران عالی۔ احمد پور سیال)


غزل


دیکھو خدارا دیکھو ہمارے وجود پر
کیسے نشان پڑ گئے سارے وجود پر
تم چاند کہہ رہو ستارے بھی لا کے دوست
رکھوں گا چوم چوم تمھارے وجود پر
تم کر نہیں رہے ہو مری بات کا یقین
میں نے یقین ،وہم سنوارے وجود پر
چوما تھا ایک بار ترے ہونٹ کو ندیم
اس دن سے آگ لگ گئی سارے وجود پر
(ندیم ملک ۔ نارووال)


غزل


بہت عرصہ تو یہ پتھر رہی ہیں
غنیمت ہے اب آنکھیں بھر رہی ہیں
صدا دیتا ہوں، تو آتا نہیں ہے
ترے غم میں صدائیں مر رہی ہیں
تری گھبراہٹوں کو جانتا ہوں
یہ سب کی سب مجھے اکثر رہی ہیں
یہ کچھ باتیں ہیں خون آلود باتیں
کئی دن یہ مرے اندر رہی ہیں
میں جن پیڑوں کے سائے میں پلا ہوں
وہ شاخیں اب مجھ ہی سے ڈر رہی ہیں
(فرجاد مہدی۔اسلام آباد)


غزل
کب تمہاری رضا کا چلتا ہے
حکم میرے خدا کا چلتا ہے
کیسی قسمت ہے ان چراغوں کی
زور ان پر ہوا کا چلتا ہے
گھر سے نکلوں تو ساتھ ساتھ مرے
سلسلہ اک دعا کا چلتا ہے
دل کی نگری پہ ہر زمانے میں
یار سکہ وفا کا چلتا ہے
چھوڑ جاتا ہے حادثے پیچھے
وقت ظالم بلا کا چلتا ہے
ہم محبت کے مارے لوگوں میں
سارا جھگڑا انا کا چلتا ہے
(ناہید اختر بلوچ۔ ڈیرہ اسماعیل خان)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔