مشکل حالات

عثمان دموہی  جمعـء 25 دسمبر 2020
usmandamohi@yahoo.com

[email protected]

کہا جا رہا ہے کہ پاکستان 20 جنوری 2021 تک سخت خطرے میں ہے۔ اس دوران بھارت ہی نہیں اسرائیل بھی پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی جارحانہ کارروائی کرسکتا ہے۔ ایسا اس لیے کہا جا رہا ہے کہ ٹرمپ 20 جنوری تک امریکا کے صدر رہیں گے، اس کے اگلے دن یعنی 21 جنوری کو جوبائیڈن امریکی صدارت کی ذمے داریاں سنبھال لیں گے۔

صدر ٹرمپ امریکی صدارتی الیکشن ہارکر سخت پریشان ہیں کیونکہ وہ اپنے اقتدار کے اگلے پانچ سالوں میں اسرائیلی ایجنڈے کو کامیاب بنانے کے لیے جو سرگرم مہم چلا رہے تھے وہ اب ادھوری ہی رہنے کا احتمال ہے۔ جوبائیڈن پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ٹرمپ نے گزشتہ پانچ سالوں میں جو غلطیاں کی ہیں وہ انھیں درست کریں گے اور امریکی امیج کو بحال کرائیں گے۔

مسئلہ فلسطین کے حل نہ ہوتے ہوئے مسلمانوں سے زبردستی اسرائیل کو تسلیم کرانے کی ٹرمپ کی مہم سراسر ناانصافی،سلامتی کونسل کی قراردادوں کی تضحیک اور امریکی ساکھ کے لیے ضرر رساں ہے، تاہم ٹرمپ اب بھی اپنے اقتدار کے بچے کچھے دن اسرائیل نوازی کے لیے وقف کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، چنانچہ اسرائیل اس دوران کسی بھی ملک کو نشانہ بنا سکتا ہے اور ٹرمپ اس کی مدد کرنے کے پابند ہوں گے۔ اسرائیل شروع سے ہی پاکستان کا دشمن بنا ہوا ہے کہ پاکستان نے اسے تسلیم کیوں نہیں کیا اور پھر وہ فلسطینیوں کی آزادی کا سب سے بڑا حامی کیوں ہے وہ پاکستان کے جوہری طاقت بننے پر بھی برہم ہے۔

اب اس وقت جب کہ کچھ مسلم ممالک ٹرمپ کے دباؤ میں آ کر اسرائیل کو تسلیم کرچکے ہیں اور کچھ تسلیم کرنے کا سوچ رہے ہیں تو اسے شک ہے کہ پاکستان مسلم ممالک کو اسے تسلیم کرنے سے روک رہا ہے۔ پاکستان کے خلاف جارحیت میں وہ پہلے سے ہی بھارت کی مدد کر رہا ہے اور اب اس وقت جب کہ بھارت پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑنے کی باتیں کر رہا ہے وہ بھارت کی بھرپور مدد کر رہا ہے۔ پہلے اسرائیل خفیہ طور پر پاکستان کے خلاف بھارت کی مدد کرتا تھا اور کبھی اس نے کھل کر پاکستان کے خلاف کوئی بیان بھی نہیں دیا تھا مگر اب ایسا ہوا ہے۔

نئی دہلی میں متعین اسرائیلی سفیر رون ملکا نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ اسرائیل بھارت کے ساتھ ہے اور اس کی سلامتی پر آنچ نہیں آنے دے گا وہ بھارت کے دشمنوں سے نمٹنے کے لیے تیار ہے اور بھارتی سلامتی کے لیے آخری حد تک جائے گا۔ اسرائیلی سفیر کا یہ بیان یقیناً ایک سخت پیغام ہے مگر اس کا اطلاق چین پر بھی ہوتا ہے۔ اس وقت بھارتی میڈیا چیخ چیخ کر یہ اعلان کر رہا ہے کہ بھارت پاکستان اور چین دونوں سے بیک وقت جنگ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ میڈیا کے ہی مطابق بھارت پاکستان اور چین کی سرحدوں پر دس کے بجائے پندرہ دن تک گھمسان کی جنگ کرنے کے لیے گولہ بارود، جدید حربی ہتھیار اور طیارے اکٹھا کر رہا ہے۔

بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ پہلے ہی بیان دے چکے ہیں کہ بھارت چین سے اپنی ایک ایک انچ زمین واپس لے کر رہے گا چنانچہ بھارت اپنی زمین کا قبضہ چھڑانے کے لیے چین سے جنگ چھیڑ سکتا ہے مگر بھارت ایسی بے وقوفی ہرگز نہیں کرسکتا کیونکہ وہ چین کا مقابلہ کسی صورت بھی نہیں کرسکتا اور اگر اس نے ایسا کیا تو وہ اپنے کچھ مزید علاقے گنوا سکتا ہے چنانچہ اس کی تمام فوجی تیاری کا اصل نشانہ پاکستان ہے۔

ہو سکتا ہے کہ وہ پاکستان پر جنگ مسلط کرنے سے قبل پلوامہ جیسا ڈرامہ رچا کر پہلے پاکستان کو اپنی سرجیکل اسٹرائیک کے ذریعے آمادہ جنگ کرے اور پھر جنگ کا میدان سجائے۔ بھارت کی خواہش ہے کہ اس دفعہ پاکستان کو نشانہ بنائے، ٹرمپ بھی یہی چاہتے ہیں کہ وہ جاتے جاتے چین کو بڑا نقصان پہنچا کر جائیں، ساتھ ہی بھارت کو بھی دلی خوشی ہوگی کیونکہ وہ پاکستان کو خوشحال دیکھنا نہیں چاہتا، ساتھ ہی اسے گوادر بندرگاہ کی روس اور وسطی ایشیائی ممالک تک رسائی کسی حال میں برداشت نہیں ہے۔

بھارت جنگ کرنے کی جو بھرپور تیاری کر رہا ہے تو لگتا ہے اسے ٹرمپ کی جانب سے اشارہ مل چکا ہے، بھارت گزشتہ سال 5 اگست کو ٹرمپ کی تھپکی پر ہی مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کی کوشش کر چکا ہے۔ جہاں تک بھارت کی جانب سے فالس فلیگ آپریشن کا تعلق ہے تو اس سے کسی خیر کی توقع نہیں۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ابوظہبی کے اپنے دورے میں واضح طور پر پوری دنیا اور بالخصوص متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کو ان کے نئے دوست بھارت کی اس دہشت گردانہ حرکت سے آگاہ کردیا ہے۔

بھارت ان دونوں ممالک سے جو بھی دوستی کی پینگیں بڑھا رہا ہے اور ان کی قربت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، تو یہ اس کی صرف پاکستان سے انھیں دورکرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔ وہ ان دونوں ممالک میں پاکستان کی جگہ لینا چاہتا ہے وہ وہاں اپنی فوج کو تعینات کرنے کا خواہش مند بھی ہے۔ متحدہ عرب امارات میں بھارت ایسا کرنے میں شاید کامیاب ہو جائے مگر سعودی عرب میں ایسا ہونا مشکل ہے، اس لیے کہ سعودی عوام اور فوج بھارت کو برداشت نہیں کر پائیں گے وہ شروع سے ہی پاک فوج کو پسند کرتے ہیں۔

اس لیے کہ پاک فوج نے سعودی عرب کی سلامتی کے لیے اہم ذمے داریاں نبھائی ہیں، شاہ فیصل کے بیٹے ترکی بن فیصل نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ سعودی عوام پاک فوج کی وفاداری کے قائل ہیں اور اس کے بدلے میں کسی اور فوج کو برداشت نہیں کرسکیں گے۔ اصل مسئلہ حرم شریف کی حفاظت کا ہے جس پر پہلے وہاں کے باغی قبائل نے قبضہ کرلیا تھا اور یہ پاک فوج تھی جس نے کمال حکمت عملی سے حرم شریف کو ان سے خالی کرا لیا تھا۔

کہا جا رہا ہے کہ نریندر مودی نے سعودی حکمرانوں کو پیشکش کی ہے کہ وہ حرم کی حفاظت کے لیے اپنے مسلمان فوجی مہیا کرسکتا ہے۔ مانا کہ وہ مسلمان ہوں گے مگر ایک بت پرست اور مسلمانوں کے کٹر دشمن حکمرانوں کے اطاعت گزار ہوں گے جو ان کے حکم پر ہی چلیں گے، لہٰذا ان پر بھروسہ کرنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہوگا۔ سوڈان اور مراکش نے جو اسرائیل کو تسلیم کیا ہے تو امریکا نے ان پر دباؤ ڈالنے کے علاوہ لالچ بھی دی ہے۔

سوڈان پر جو دہشت گردی کا لیبل لگا ہوا تھا امریکا نے اسے ہٹا لیا ہے اور مراکش نے اسرائیل کو اس لیے تسلیم کیا ہے کہ امریکا نے مغربی صحارا کو اب اس کا حصہ تسلیم کرلیا ہے۔ خبریں ہیں کہ مصرکے صدر سی سی اور نیتن یاہو کے درمیان مسئلہ فلسطین کو حتمی شکل دینے کے لیے مذاکرات جاری ہیں، کچھ یورپی ممالک بھی اس میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔

اگر اسرائیلی حکومت اس فارمولے کو تسلیم کرلیتی ہے اور نئی امریکی حکومت فلسطینی ریاست کی سلامتی کی گارنٹی دے دیتی ہے تو یقینا یہ مسئلہ سلجھ سکتا ہے اور مسلم ممالک پھر اسرائیل کو تسلیم کرنے پر غور کر سکتے ہیں اس مسئلے کے حل کے بعد مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھی امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔