تہذیب و ثقافت

قادر خان  جمعـء 25 دسمبر 2020

چند باغبانوں نے اپنے باغ کے پھول مسل ڈالے، قدیمی محلہ ہو یا مقامات نظرکو خیرہ کیے ہوئے ہیں۔ یادوں کی موسلا دھار بارش، من بھیگتا ہے بوند بوند چاہت اور یادیں، جھولتی بہاریں،کوئل کی کوک، پرندوں کی چہچہاہٹ، ہواؤں کا راگ، خیالوں کا جہاں روشن۔ شدت احساس میں یاد ماضی تصور بن کر یادوں کے چراغ میں تھرتھرا رہے ہیں۔ وقت نے کروٹ لی آندھیاں آئیں، سیلاب آیا حسیں یادیں خلش بن کر رہ گئیں آج بھی اسی چمن سے اخلاق ، تہذیب وتمدن کی خوشبو مہک رہی ہے دلوں میں اترنے کے لیے سیڑھی کی نہیں بلکہ اچھے اخلاق کی ضرورت ہے۔

میری ذاتی رائے ہے کہ ’’ اخلاق ایک دکان اور زبان اس کا تالا ہے، جب تالا کھلتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ دکان سونے کی ہے یا کوئلے کی۔‘‘ دنیا کے ہر میدان میں ہار جیت ہوتی ہے لیکن اخلاق میں کبھی ہار اور تکبر میں کبھی جیت نہیں ہوتی۔ چلمن سے لے کر سینے میں اخلاق، تہذیب و ثقافت کے لمحات کتابوں میں یوں درج ہو جاتے ہیں لاکھ مٹانا چاہیں مٹنا ممکن نہیں۔ اخلاقیات سے لاکھ دامن چھڑانا چاہیں لیکن شاید ہو نہیں سکتا۔ کسی کی پہلی ملاقات پہلی گفتار، پہلی رفتار، کسی کا پھول، پہلا پیغام، وقت کے ہاتھوں تقدیرکا کھو جانا، لیکن کسی کی شیریں گفتار اپنا اثر رکھتی ہیں وہ کبھی نہیں کھوتیں۔

اخلاق ، عزت ، تہذیب و ثقافت آج بھی موجود ہے چاہے شب نے منہ پھیر لیا، صبح ہوئی کلیوں کو خیال آیا کھلنے کا اور ساگر سے اٹھنے لگیں موجیں، خس وخاش آندھی و طوفان کی نذر ہوئے آنکھوں میں اخلاق بھری تمناؤں کی جھیل نظر آئی۔ ایسی جھڑی لگی جس کا تھمنا مشکل، اشک بہتے رہے لیکن وہی پرانی تہذیب و اخلاق باقی رہا۔ اللہ تعالیٰ کو عبادت سے، مخلوق کو اپنے اخلاق سے، تب ہم دنیا وآخرت میں مقام حاصل کر پائیں گے۔ سادہ زندگی چاہت و الفت، اخلاق، عزت بڑھانے کی دوا ہے۔

اختلافات پرصبر، دوسروں کی برداشت، اخلاق کا خاصا ہے۔ اپنا دوست بنانے سے پہلے کبھی مال و زر اور چہرہ نہ دیکھیں بلکہ اس کا اخلاق دیکھیں یاد رہے اگر سفید رنگ میں وفا ہوتی تو نمک زخموں کی دوا ہوتا۔ اپنے بچوں کو تعلیم کے ساتھ اچھا اخلاق سکھانا ازحد ضروری ہے، انسان کی پہچان اچھا لباس نہیں بلکہ اخلاق اور اس کا ایمان ہے۔ ہمیں اخلاق ، تہذیب و عزت سے بات کرنی چاہیے جس سے کچھ خرچ نہیں ہوتا۔ انسان پر سب سے زیادہ مصیبتیں اس کی زبان کی وجہ سے آتی ہیں، یاد رہے اکثر گناہ زبان سے سرزد ہوتے ہیں۔ عمدہ اخلاق گناہوں کو اس طرح پگھلا دیتے ہیں جس طرح پانی برف کو پگھلا دیتا ہے۔

بداخلاقی انسان کے اعمال کو اس طرح بگاڑ دیتی ہے جس طرح شہد کو سرکہ بگاڑ دیتا ہے۔ اخلاق وہ شہد ہے جس کی کوئی قیمت نہیں دینا پڑتی مگر اس سے ہر چیز خریدی جا سکتی ہے، خوبصورتی کی کمی کو خوب سیرت اخلاق پورا کرسکتا ہے لیکن کسی کی بد اخلاقی، بدزبانی کو خوبصورتی پورا نہیں کرسکتی۔ میں سمجھتا ہوں خوش اخلاق لوگوں سے خوش اخلاقی سے پیش آنا کمال نہیں بلکہ بداخلاق فرد سے خوش اخلاقی سے پیش آنا کمال ہے۔

یقین کی پختگی اور اخلاق کا حسن انسان میں آجائے تو وہ ایک ہی وقت میں خالق اور مخلوق دونوں کا محبوب بن جاتا ہے۔ اخلاق خلق سے ہے جس کے معنی پختہ عبادت کے ہیں، خلق سے مراد وہ اوصاف جوکسی کی فطرت اور طبیعت اس طرح لازمی جز بن جائیں کہ زیادہ غوروفکرکیے بغیر روزمرہ کی زندگی میں اس کو ظاہر ہوتا ہے۔ کسی کو اخلاق میں شکست دینا جنگ میں شکست دینے سے بڑی کامیابی ہے۔ ضروری نہیں ہر فرد کسی شخص کی تمام باتیں درست سمجھے، اکثریت ان باتوں پر یقین رکھتی ہے۔

جس طرح اخلاق کی بلندی جنت کی حامل ہے اسی طرح پرہیز گاری سے عزت حاصل ہوتی ہے۔ جو ظلم کے ذریعے عزت چاہتا ہے اللہ اسے انصاف کے ذریعے ذلیل کرتا ہے، عزت کے بغیر محبت کا کوئی وجود نہیں۔ زندگی عزیز ہے لیکن بہادرآدمی کے لیے عزت زندگی سے زیادہ عزیز ہے، اگر عزت و احترام چلا جائے تو محبت بھی چلی جاتی ہے۔

تہذیب وہ اجتماعی رویہ، افکار، سوچ ہیں جو لاشعوری طور پر قوم کے رویے یا اس کا حصہ بن جائے جسے ایک رویہ سے مثلاً اونچا بولنا بلند آواز لاشعوری طور پر ہمارے عمل کا حصہ ہے۔ یہ ایک علامت یعنی اجتماعی رجحانات، عمومی، افکار، عادات انسانی عمل و زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اول اس کو تہذیب کہتے ہیں۔ دوم جس کی پابندی سب اپنے اوپر بغیر کسی دلیل کے لازم سمجھتے ہیں۔

تیسری نشانی تہذیب کا جز ہے کسی مضمون، کسی کتاب یا علم پر مخالفت کریں تو کوئی اعتراض نہیں کرے گا بلکہ یہ کہا جائے گا یہ ان کا اپنا اظہار، اپنا تجزیہ، اپنی رائے ہے جس پر کوئی اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔ میں نے سمجھا تہذیب اس کو کہتے ہیں رویے، عادتیں، واقعات وہ رسومات جو خود آ کر ایک قوم کے عمل کا حصہ بن جاتے ہیں اس کا کوئی منہ نہیں۔ بالکل اسی طرح معاشرے میں ذلت و حقارت بھی تہذیب کا حصہ بن جاتے ہیں۔ الفاظ کی مالا پرونا عام فہم الفاظ میں کوئی معاشرتی پہلوکا گہوارا بنانا، اپنا مدعا بیان کرنا ادیب کا خاصا ہے۔

نہیں معلوم یادیں، اخلاق، تہذیب یا پھر عزت و ثقافت ضروری نہیں ہر فردکے من کا آنگن خوشبو سے مہکا دیں۔ وقت نے کیا حسیں ستم، کسی نے کہا تہذیب انمول، کسی نے کہا اخلاق اور عزت بن مول، کسی نے کہا دین و مذہب اہم ہے۔ کوئی غلط نہیں کہہ رہا مذہب تو ہماری بنیاد ہے باقی سب اختیاری ہیں۔ وقت گزر چکا اور گزر رہا ہے کہا جاتا ہے مدتوں سے اپنی تہذیب وثقافت، عزت و اخلاق کو سنبھالا یہ راز ہے ہم سب کا۔ بے تابی بڑھتی ہے، دھڑکنوں کی صدائیں، زمانے کی ان باتوں کو ویرانے میں چھوڑ دیا ہے، شب پکارتی ہے تنہائیوں میں آرزو کی شکستگی ہے اور چہک بھی۔ تہذیب و ثقافت ایک ہی معنی میں استعمال ہونیوالے الفاظ ہیں اور ان کا استعمال ساتھوں ساتھ ہوتا ہے۔ ان کے مابین ایک فرق موجود ہے جن کا سمجھنا ضروری ہے۔

دراصل کسی بھی جگہ کسی بھی حصے میں رہنے والے لوگ جواز بنتے ہیں، رسم و رواج طور طریقے، فنون لطیفہ، نظریات ان کے عقائد ان کی سوچیں کن باتوں پر یقین رکھتے ہیں اورکن باتوں پر عقائد۔ موت وزیست کے مواقع پر جو اظہارکرتے ہیں۔ ان باتوں کو مختلف میلوں میں ثقافت رکھتے ہیں۔ ایسے تمام طریقے رسم و رواج جب معاشرے میں استعمال کیے جاتے ہیں ان کو ایک طریقے سے سمجھنے کے لیے کچھ اصول وضوابط کے تحت انھیں استعمال کیا جاتا ہے، تو پھر وہی تہذیب کے معنی میں آجاتا ہے اورکسی بھی ثقافت پر بہت زیادہ اثر ہوتا ہے۔

مختلف تہذیب و ثقافت کے لوگ دنیا میں موجود ہیں ان میں سیکڑوں پرانی تہذیب موجود ہیں۔ تہذیب و ثقافت کے دو الفاظ ہماری زندگی میں استعمال ہوتے ہیں۔ تہذیب وثقافت کے ساتھ ایک اور لفظ استعمال ہوتا ہے جس کو تمدن کہتے ہیں۔ تمدن اور ثقافت، ان میں آپس میں بڑا ربط ، تمدن کے معنی ہیں زندگی گزارنا۔ اس تمدن سے عربی زبان میں مدینہ استعمال ہوتا ہے اس کے معنی شہرکے ہیں۔ ثقافت کہتے ہیں زندگی گزارنے کے بنیادی اثاثی ضوابط۔ ان اصول وضوابط کو سامنے رکھتے ہوئے ایک معاشرہ تشکیل دیتے ہیں۔

وہ معاشرہ ترقی کرتے کرتے جب سامنے آتا ہے تو اسے تمدن کہا جاتا ہے۔ دہائی حیات جب ارتقا کرتی ہے تو وہ بھی تمدن کی ہی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ گویا ثقافت انسانی معاشرتی اصولوں کوکہہ سکتے ہیں وہ بنیادی اصول جو ارتقا میں اور انسانی زندگی تک پہنچاتے ہیں۔ مسلم معاشرہ، انسانوں کی اقدار دیگر معاشرتی اقداروں سے افضل ہیں۔ خوش اخلاقی، راست گوئی، عفو و درگزر اس کا خاصا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔