اسرار۔۔۔۔ تاحال جن پر سے پردہ نہ اٹھ سکا

انوار فطرت  اتوار 9 ستمبر 2012
خوف نے انسان کو جہد للبقاء کا راستہ سجھایا اور اسرار نے حجاب کشائی پر مجبور کیا۔ فوٹو: فائل

خوف نے انسان کو جہد للبقاء کا راستہ سجھایا اور اسرار نے حجاب کشائی پر مجبور کیا۔ فوٹو: فائل

خوف نے انسان کو جہد للبقاء کا راستہ سجھایا اور اسرار نے حجاب کشائی پر مجبور کیا۔

خوف اور اسرار کا ایک دوسرے سے قریبی رشتہ ہے، یہ دونوں مل کر انسان کو ذہنی اور روحانی بالیدگی عطا کرتے ہیں۔ اپنی معلوم اور نامعلوم تاریخ سے لے کر آج تک انسان نے ارتقاء کے جتنے مراحل طے کیے ہیں ان کے پیچھے موجود تاب و توانائی ان ہی دو احساسات کی کارفرما ہے۔ انسان فطرت کے حجابات ہٹاتا چلا جا رہا ہے، چاند پر چہل قدمی کرتا ہے، مریخ پر زندگی کی جستجو کر رہا ہے، اس نے اپنی نظر قرنوں نوری سال تک بڑھا لی ہے، وہ کائنات کے بعید ترین گوشوں تک اپنے پیغامات بھیج رہا ہے، دور دراز کی آوازیں سن رہا ہے، عزائم اس کے نوری برسوں کے فاصلے پر موجود کہکشائوں کو سر کرنے کے ہیں۔

بعض لوگ اس امر پر جِزبِز ہوتے ہیں کہ ابھی کرۂ ارض کے اسرار ہمارے دستِ حجاب کشا کو مبارزت دے رہے ہیں۔ کائنات کے بہت سے راز اسی مٹی میں موجود ہیں پہلے ان کے عقدے کھول لیے جائیں، بہت ممکن ہے کائنات کے ساتھ پہلا مصافحہ یہیں کہیں ہو جائے۔ بات یہ بھی غلط نہیں۔ اس زمین پر بہت سے ایسے عقدے ہیں جو ’’کھلنے‘‘ کے لیے کسی دستِ رسا کے منتظر ہیں۔ یہاں چند ایسے ہی اسرار پیش کیے جا رہے ہیں، جن پر سے پردے اٹھانے کے بہت سے جتن کیے جا چکے ہیں مگر ابھی تک کوئی سرا پیرا ہاتھ نہیں لگا۔

افریقی گولیاں:

جنوبی افریقہ میں چند دہائیوں سے کان کنوں کو کھدائیوں کے دوران کچھ خاص طرح کی دھاتی گولیاں مل رہی ہیں جن کا قطر ایک انچ یا ان سے کچھ زیادہ ہے۔ پہلی نظر میں ان کی بناوٹ خطِ استوا کی ڈور پر گھومنے والے گولوں جیسی ہے۔ ان میں سے کچھ تو کسی اجنبی سی نیلی دھات کے بنی ہوئی ہیں اور ان پر باریک باریک سے سفید دھبّے ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جو کھوکھلے ہیں اور ان میں کوئی ایسا کچھ عجیب سا مادہ ہے جو اسپنج کی طرح کا ہے کہ دبانے سے دب جاتا ہے۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان گولیوں کی عمر کرہِ ارض پر وجود میں آنے والی اوّلیں چٹانوں سے کچھ ہی کم ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ عرصہ لگ بھگ 28 ارب سال بنتا ہے۔ ان گولیوں پر تحقیق ہو رہی ہے کہ یہ کس نے بنائی ہیں اور ان کا مقصد کیا تھا؟ کیا کوئی ایسی ذہین مخلوق تھی جو کسی اور دنیا سے یہاں آئی اور اپنی کوئی چیز یہاں بھول گئی یا دانستہ چھوڑ گئی؟ تاحال کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔

12 ہزار سال قدیم سنگی ریکارڈ:

چین میں ایک سلسلۂ کوہ ہے جسے بائیان کارا۔ یولا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ایک بار ایک مہم جو طائفے نے ادھر کا رخ کیا جس کی راہ بری بر معروف چینی ماہرِ آثارِ قدیمہ ڈاکٹر چی پو تی کو کچھ غارملے۔ انہیں یوں محسوس ہوا جیسے یہ کسی قدیم تہذیب کے آثار ہیں اور ایسا ہی ہوا۔ یہ لوگ جب ان غاروں میں داخل ہوے تو وہاں صدیوں سے جمع ہونے والی گرد کے نیچے انہیں گراموفون کے ریکارڈ کی شکل کی بے شمار طشتریاں ملیں۔ ان کا قطر تقریباً 9 انچ ہے اور یہ پتھر سے بنے ہوئی ہیں۔ ان کی قدامت کا اندازہ 10 سے 12 ہزار برس لگایا گیا ہے۔

ان ریکارڈوں پر ہیرو غلیفی سے مماثل خط میں کسی اور دنیا سے آنے والی خلائی گاڑیوں کا واقعہ درج ہے۔ ان خلائی گاڑیوں کو اس مقام پر معلوم نہیں ہنگامی طور پر اترنا پڑا یا انہوں نے عمداً یہاں قیام کیا۔ ان لوگوں نے خود کو ڈروپا کا نام دیا ہے اسی نام کے حوالے سے یہاں سے برآمد ہونے والی سنگی الواح کو Dropa Stones کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ باور کیا جاتا ہے کہ مذکورہ غاروں میں ان ہی لوگوں کی نسل کی باقیات ہیں۔ یہ کون لوگ تھے؟ کیا سچ مچ یہ کسی اور دنیا سے آئے تھے؟ تاحال کوئی ایسا جواب تلاش نہیں کیا جا سکا جسے معقول قرار دیا جاسکے۔

منقش پتھر:

پیرو (Peru) جنوب مغربی امریکا میں واقع ہے۔ 1930 میں آئیکا یونی ورسٹی کے کلچرل انتھراپولوجسٹ ڈاکٹر جاوئیر نے اِنکا تہذیب کے مقبروں سے گیارہ سو ایسے سیاہ پتھر برآمد کیے جن پر مختلف اشکال بنی ہوتی ہیں۔ ان میں بعض پر تو جنسی آسنوں کی تصاویر کندہ ہیں، کچھ پر دائنوساروں اور زمانۂ قدیم کے دوسرے جان وروں کی شبیہیں کھدی ہوئی ہیں لیکن کچھ کو دیکھ کر حیرت سے منہ کھلے کا کھلا رہ جاتا ہے کہ ان پر دل کے آپریشن اور تبدیلیٔ مغز کے مناظر کندہ ہیں۔ ان پتھروں کی قدامت 5 سو سے ڈیڑھ ہزار برس ہے۔ یہ جرّاحت قلب اور مغز کی تبدیلی کے مناظر کیا ہیں؟ کیا اِنکا لوگ حقیقتاً دل و دماغ کی بارکیوں سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے گذر چکے تھے؟

کوسٹاریکا کے دیوہیکل گولے:

کوسٹاریکا وسطی امریکا کا ملک ہے۔ 1930 کی دہائی میں کیلے کے باغات لگانے کے لیے ایک بہت ہی گھنے جنگل کے وسط میں درختوں اور جھاڑیوں کی صفائی کی جا رہی تھی کہ اسی اثناء میں کارکنوں نے پتھر کے بڑے گولے دیکھے۔ ان میں اکثر حیران کن طور پر مدوّر ہیں۔ ان گولوں کی تعداد درجنوں میں ہے۔ چھوٹے سے چھوٹا گولا ٹینسں کی گیند کے برابر ہے جب کہ بڑے گولے آٹھ آٹھ فٹ قطر کے ہیں اور ان کا وزن سولہ سولہ ٹن کے برابر ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سب انسانی ہاتھوں سے بنائے گئے ہیں۔ تاحال کی سرکھپائی کے باوجود یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ انہیں کس نے بنایا ہے، ان کا مقصد کیا تھا اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ یہ بالکل درست گولائی میں کیسے بنا لیے گئے تھے؟ کیوںکہ قدیم انسان سے اس کی توقع نہیں کی جاتی۔

اوئیرا لنڈا کی کتاب:

یہ ایک متنازع کتاب ہے جو انیسویں صدی میں سامنے آئی۔ اس میں تاریخ، دیومالا اور مذہبی نظریات پر مشتمل مواد ہے۔ مذہبی نظریات؛ آفاتِ سماوی، قوم پرستی، مادر سری نظام اور دیو مالا سے متعلق ہیں۔ کتاب کے متن کے مطابق یورپ اور دیگر ممالک تاریخ کے ایک خاصے بڑے دورانیے میں مہاپجارنوں کے زیرنگیں رہے ہیں۔ یہ مہاپجارنیں (یا مہامائیں) فرائیا (Frya) نامی دیوی کی داسیاں ہوا کرتی تھیں۔ فرائیا سب سے بڑے دیوتا ور۔آلدا اور اَرتھا (دھرتی ماں) کی بیٹی تھی۔ اس دیوی کے عہد کو فریسائی (Frisian) تہذیب کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس کتاب میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ فونیقی اور یونانی الفبائی نظام (حروف تہجی) فریسیائی تہذیب کا مرہون منت ہے۔ اس کتاب کا زمانہ تیرہویں صدی بتایا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ یہ کسی قدیم تر کتاب کی نقل ہے جس کا زمانۂ تصنیف 2194 قبل مسیحؑ سے 803 بعدِ مسیحؑ ہے اور اسے مختلف ادوار میں مختلف مصنفوں نے تحریر کیا ہے۔ لکھنے والے کون لوگ تھے؟ اس کا کوئی اتاپتا نہیں ہے۔

اطلانتہ:

کہا جاتا ہے کہ سمیری تہذیب سے بہت صدیاں پہلے کرۂ ارض کے دوسرے عظیم الشان سمندر اطلانتہ میں ایک زبردست تہذیب موجود رہی ہے۔ اسے ’’بہشت‘‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ تہذیب ثقافت و علم کے حوالے سے اپنے بامِ عروج پر تھی تاہم ایک دن اس کو ایک ہیبت ناک زلزلے نے آلیا اور یہ تہذیب پانیوں کے پاتال میں کہیں غرق ہو گئی۔ یہ سمندر یوریشیاـ،افریقہ اور امریکا کے درمیان موجود ہے۔ اطلانتہ تہذیب کا ذکر سب سے پہلے یونان کے شہرۂ آفاق فیلسوف افلاطون نے کیا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اطلانتہ الگ سے ایک براعظم تھا۔ سوال یہ ہے کہ یہ برّاعظم گیا کہاں؟ سمندر میں ڈوبا ہے تو سمندر تو اپنی جگہ آج بھی موجود ہے، اس تہذیب کا کوئی پشّہ تک کیوں نہیں مل پایا، کہیں ایسا تو نہیں کہ افلاطون صاحب اپنی افلاطونیت کی پینک میں کچھ ہانک گئے ہوں؟ جواب تلاش بسیار کے باوجود فی الحال اندھیرے میں ہیں۔

تیورین کا کفن:

یہ کپڑے کا ایک ٹکڑا ہے جو شمالی اٹلی کے شہر تیورین (Turin) کے ایک گرجے میں رکھا ہوا ہے۔ اس کپڑے کی خصوصیت یہ ہے کہ اس پر ایک انسانی شبیہ کا عکس ہے جس سے ایسا تاثر ابھرتا ہے جیسے کسی کو مصلوب کرکے موت کے گھاٹ اتارا گیا ہو۔ اکثر کا خیال ہے کہ یہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کا عکس ہے جس سے اس کو ایک خاص طرح کی تقدیس حاصل ہو گئی اور اسے گرجا گھر میں رکھ دیا گیا۔ یہ عکس کچھ ایسا ہے جیسے اصل فوٹو کی نقل یعنی Negative ہوتا ہے۔ سائنس دان ہزار تحقیق کر چکے ہیں کہ یہ عکس اس کپڑے پر کیسے اترا ہے یا اگر اتارا گیا ہے تو کیسے؟ متعدد توجیہات کی جا چکی ہیں تاہم کام یابی کی تاحال کوئی صورت نہیں نکلی۔ اس کپڑے کی نقل Replica بھی بنانے کی کوشش کی گئی لیکن کام یابی نہیں مل سکی۔

اس کی قدامت پانچویں سے پندرہویں صدی کے درمیان بتائی جاتی ہے لیکن مذہبی گروہ کا کہنا ہے کہ اس کپڑے کی عمر اس سے زیادہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی کپڑے کے ایک اور ٹکڑے کو بھی تقدیس حاصل ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مصلوب ہونے کے بعد اس سے حضرت عیسیٰ ؑ کا سر مبارک ڈھانپا گیا تھا۔ اس کپڑے کو سوداری (Sodarium) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ دونوں کپڑوں کے درمیان رشتہ تلاش کرنے کی کوشش کی گئی تو معلوم ہوا کہ دونوں پر لگے خون کے دھبوں کا گروپ ایک ہی ہے یعنی AB ۔ یہ کپڑا سادہ سا لائنن کا ٹکڑا ہے، کہاں سے آیا؟ اس پر یہ عکس کیسے اتر آیا جب کہ کیمرہ انیسویں صدی میں ایجاد ہوا، دونوں کپڑوں پر جمے لہو کا گروپ ایک کیوںکر ہوا، کیا حضرت مسیحؑ کے خون کا یہ ہی گروپ تھا؟ کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔
یہ آواز کیا ہے؟

امریکا، برطانیہ اور شمالی یورپ کے خاموش اور کم شور مقامات میں بعض اوقات ایک دھیمی لیکن گہری سی آواز سنی جاتی ہے جو ’’ہُم‘‘ کی طرح محسوس ہوتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے اس کا تاثر کچھ یوں بنتا ہے جیسے کسی دور دراز مقام پر ڈیزل انجن چل رہا ہے۔ ایک تو یہ آواز بجائے خود ایک اسرار ہے اس کی دوسری پراسراریت یہ ہے کہ اسے انسانی کان تو سن پاتے ہیں لیکن انتہائی حساس مشینی کان (آلات) اسے ریکارڈ کرنے سے قاصر ہیں حتیٰ کہ VLF انٹینے لگا کر بھی اس آواز کو سننے کی کوشش کی گئی لیکن بے سود۔ اس ’ندائے غیبی‘ کے منبع کا کچھ پتا نہیں چل رہا نہ اس کی صحیح نوعیت کا علم ہوتا ہے۔

یہ آواز نیو میکسیکو کے ایک چھوٹے سے قصبے ٹاؤس کے باسیوں کو اکثر سنائی دے جاتی ہے۔ یہ قصبہ شہر کے شور شرابے سے خاصا دور بھی ہے اور یہاں کی راتیں خاصی سناٹے دار ہوتی ہیں۔ ہرچند اس آواز کا اعادہ کبھی کبھی ہوتا ہے اس کے باوجود بعض لوگ اسے سن کر خوف اور تشویش میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ 1997میں ریاست ہائے امریکا کی کانگریس میں اس حوالے سے سوال بھی اٹھایا گیا تھا اور سائنس دانوں اور مشاہدہ کاروں کو معاملے کی تہ تک پہنچنے کی ہدایت کی گئی، دنیا کے بہترین تحقیقی اداروں کو بھی دعوت دی گئی کہ وہ ’ہُم‘ سنائی دینے والی آواز کے اسرار کو کھولیں۔ بہت کوششیں کی گئیں اور غالباً جاری ہیں لیکن کوئی بھی اس آواز کو سمجھ نہیں پایا کہ اس کی نوعیت کیا ہے، اس کا منبع کہاں ہے اور یہ پیدا کیسے ہوتی ہے اور یہ کس چیز کا اشارہ ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔