اسکولوں کی بندش اور آن لائن تعلیم کے دوران اساتذہ و والدین کو تلخ تجربات کا سامنا، ایکسپریس سروے

صفدر رضوی  ہفتہ 26 دسمبر 2020
”ایکسپریس“کے سروے میں مختلف معیارات رکھنے والے سرکاری و نجی اسکولوں کی انتظامیہ، اساتذہ  اور والدین کا اظہار خیال (فوٹو : فائل)

”ایکسپریس“کے سروے میں مختلف معیارات رکھنے والے سرکاری و نجی اسکولوں کی انتظامیہ، اساتذہ  اور والدین کا اظہار خیال (فوٹو : فائل)

 کراچی: کراچی سمیت ملک بھر کے تعلیمی اداروں اور ان سے منسلک طلبہ، والدین اور اساتذہ  ”کوویڈ 19“ کی دوسری لہر میں اپنی نوعیت کے تیسرے مرحلے کا سامنا کر رہے ہیں اور ہر بار انہیں انتہائی تلخ تجربات کا سامنا کرنا پڑا۔

پہلے مرحلے میں کئی ماہ پر مشتمل اسکولوں کی طویل ترین بندش ہوئی، دوسرا مرحلہ سماجی فاصلوں کے ساتھ فزیکل کلاس رومز جبکہ تیسرے اور موجودہ مرحلے میں ایک بار پھر اسکولوں کی بندش میں طلبہ گھروں پر محصور اور اپنی تعلیم پر سمجھوتہ کررہے ہیں۔ طلبہ، والدین، اساتذہ اور اسکولوں کی انتظامیہ کو درپیش ان تینوں مراحل کے دوران انتہائی حیرت انگیز اور تلخ تجربات کا سامنا رہا۔

اس سلسلے میں  ”ایکسپریس“ کی جانب سے ”اسکولوں کی بندش، فزیکل کلاس رومز اور ایک بار پھر بندش“ کے حوالے سے کیے گئے تفصیلی سروے میں حیران کن اور چونکا دینے والے حقائق سامنے آئے ہیں جس کے مطابق نہ صرف دیہی علاقوں بلکہ شہروں میں بھی رہائش پذیر کچھ متوسط و مکمل طور پر غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ کا تعلیمی سلسلہ بیشتر عرصے منجمد رہا جبکہ پوش اور متوسط علاقوں میں قائم اسکولوں کے طلبہ آن لائن کلاسز میں معیار تعلیم پر سمجھوتہ کرنے پر مجبورہیں۔

ساڑھے 6 ماہ کے پہلے زمانے میں سرکاری اسکولوں اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے نجی اسکولوں کے طلبہ کا تعلیمی سلسلہ تقریباً مفقود رہا کسی بھی وجہ کی بنا پر آن لائن کلاسز سے عدم وابستہ بعض نجی اسکولوں نے ہوم ورک یا ہوم اسائمنٹس کی بنیاد پر طلبہ سے اپنا رابطہ قائم تو رکھا تاہم یہ طلبہ اپنے اساتذہ و اسکول کی روایتی تدریس کے بجائے والدین کی غیر رسمی ٹیوشنز/کوچنگ پر انحصار کرتے رہے۔

گزشتہ سیشن میں طلبہ اپنے نصاب کا مکمل content کور نہیں کرسکے جس کے سبب اب جب وہ اگلی کلاسز میں آئے ہیں تو مضامین کے بعض عنوانات کی ”بیک گراؤنڈ نالج“ان کے پاس نہیں ہیں۔ بعض اسکولوں کی انتظامیہ و اساتذہ کی رائے ہے کہ ساڑھے 6 ماہ کی بندش کے بعد جب طلبہ نے کوویڈ کے دوران دوسرے مرحلے یا زمانے میں 15 ستمبرکے بعد اسکولوں میں قدم رکھا تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ان کے ذہنوں کو جیسے زنگ لگ چکا ہے یا طلبہ کا ذہن اب معلومات کا ذخیرہ نہیں بلکہ ایک خالی تختی ہے۔

اس پورے سال میں پری پرائمری کے بچوں کا اپنے ٹیچر سے نہ ”ریلیشن“ بن  سکا اور نہ ہی یہ بچے اسکول کے بارے میں کچھ جانتے ہیں۔ آن لائن کلاسز کے لیے اس عمر کے بچے تیار نہیں ہیں اور اب تیسرے مرحلے میں بعض اسکول اپنے گزشتہ تجربات کی بنا پر بہت کچھ سیکھ چکے ہیں اور یہ سمجھتے ہوئے کہ آن لائن کے سوا تدریس کا کوئی دوسرا متبادل نہیں وہ اسی بنیاد پر تدریسی سلسلے کو بمشکل آگے بڑھا رہے ہیں۔

انٹرنیٹ کنیکٹویٹی، اینڈرائیڈ موبائل اور متعلقہ ڈیوائسز کی عدم فراہمی یا محدود فراہمی کے سبب آج بھی سرکاری اسکولوں و غریب علاقوں میں قائم نجی اسکولوں کے طلبہ کا تدریسی سلسلہ جزوی بحال ہے۔

یہ حقائق ”ایکسپریس“ کی جانب سے کیے گئے اس سروے میں مختلف معیارات رکھنے والے سرکاری و نجی اسکولوں کی انتظامیہ، اساتذہ  اور والدین سے پوچھے گئے سوالات میں سامنے آئے ہیں۔ اسکول انتظامیہ، اساتذہ والدین سے  ’’26 فروری سے 15 ستمبر تک اسکولوں کی طویل بندش، 16 ستمبر سے 25 نومبر تک سماجی فاصلوں کے ساتھ تدریسی سلسلے اور 26 نومبر سے تاحال دوبارہ اسکولوں کی بندش“ کے تینوں زمانوں سے متعلق دریافت کیا گیا تھا۔

آئی بی اے سکھر کے تحت اندرون سندھ کے مختلف شہروں اور قصبوں میں چلنے والے کمیونٹی کالجز اینڈ اسکولز کے ڈائریکٹر نور حسین سے جب ”ایکسپریس“ نے اس سلسلے میں رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ آئی بی اے سکھرکے تحت کمیونٹی کالجز، پبلک اسکولز اور گورنمنٹ ہائی اسکولز پر مشتمل 40 تعلیمی ادارے چلائے جارہے ہیں ان اسکولوں میں مجموعی طور پر سرکاری عملے سمیت 1600 تدریسی و غیر تدریسی اسٹاف ہے جبکہ انرولمنٹ  25 ہزار سے زائد ہے۔

کورونا کی پہلی اور دوسری وبا کے دوران مذکورہ تینوں زمانوں کے چیلنجز اور ایشوز پر کیے گئے سوال پر نور حسین کا کہنا تھا کہ آئی بی اے سکھر کے تحت چلنے والے ان تعلیمی اداروں میں کچھ اسکول دیہی علاقوں جبکہ کچھ شہری علاقوں میں قائم ہیں، شہری علاقوں حیدرآباد، سکھر اور لاڑکانہ میں قائم اسکولوں کے طلبہ اس وقت بھی zoom کلاسز لے رہے ہیں اور پہلے مرحلے میں بھی کچھ عرصے کے بعد ہم ان طلبہ کی زوم کلاسز شروع کرنے میں کامیاب رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے قبل ہمیں متعلقہ اساتذہ کی تربیت کرنی پڑی کیونکہ وہ اس سے آشنا نہیں تھے لیکن ان ہی شہری علاقوں کی تحصیلوں

میں قائم اسکولوں میں ہم چاہتے ہوئے بھی آن لائن کلاسز شروع نہیں کرسکے ان میں سے اکثر تحصیلوں میں تو انٹرنیٹ کی سہولت ہی موجود نہیں تھی۔

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پہلے مرحلے کے بعد جب اسکول کھلے اور بچے کلاسز میں آئے تو ابتدا میں ہم نے انھیں revision کرایا، ایک تعلیمی سیشن ختم ہونے پر ہم ان مسائل کے سبب کورس کا مکمل content کور نہیں کرسکے جس سے تعلیمی سطح پر کچھ نہ کچھ فرق ضرور آیا لیکن ہم نے اپنی جانب سے انھیں دستیاب وسائل اور حالات میں بہتر سے بہتر تدریس کی کوشش جاری رکھی۔

کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں قائم ”سولائزیشن پبلک اسکول کی منیجمنٹ سے جب ”ایکسپریس“ نے بات کی تو اسکول منیجمنٹ کا کہنا تھا کہ کوویڈ کی پہلی لہر کے دوران جب اسکول ساڑھے چھ ماہ تک بند رہے اس اثناء میں ہمیں فزیکل کلاسز کے ذریعے نصاب کا جو حصہ طلبہ کو پڑھانا تھا آن لائن کلاسز کے ذریعے ہم اس کا ایک تہائی حصہ ہی پڑھا سکے جبکہ اس پورے 10 ماہ کے عرصے میں ”ہم نصابی سرگرمیاں“مکمل طور پر معطل رہی۔

انہوں ںے کہا کہ بعض گھروں میں والدین کے پاس بیک وقت تین تین ڈیوائسز نہیں ہوتی تھیں اور ان کے دو یا تین بچے ہمارے اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے تھے اس کے لیے ہم نے کلاسز اس طرح شیڈول کی تھیں کہ ہر کلاس علیحدہ تو تاکہ تدریس ہوسکے تاہم اس کے سبب ہمارے اساتذہ صبح سے شام تک کلاسز ہی میں مصروف رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ  اسکول منیجمنٹ نے اس بات کا اقرار کیا کہ ہمارے اسکول کے ایک چوتھائی والدین کے پاس ڈیوائسز نہیں ہیں، آن لائن کلاسز کے سلسلے میں ہم ان بچوں کا کچھ نہیں کرسکے جبکہ لوئر مڈل کلاس میں انٹرنیٹ کنکشن کے ایشوز پر رہے، ایسے دونوں درجات کے لیے ہم نے اسٹڈی پیک بنا کر دیے جبکہ اسکول کھلنے کے بعد ہم طلبہ کو ہفتے میں دو روز بلاتے تھے۔

گلستان جوہر میں قائم ایک کیمبرج اسکول کے پرنسپل نے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر اپنے تجربات شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ”پہلے مرحلے میں جب 26 فروری کو اسکول بند ہوئے تھے تو بہت زیادہ غیر یقینی تھی ہم آن لائن کلاسز کے لیے تیار نہیں تھے ہمیں اس پر جانے میں بہت وقت لگا کیونکہ ہمارے ساتھ اساتذہ کی تربیت اور ٹیکنالوجی کے دیگر کئی مسائل تھے۔

پرائمری، پری پرائمری کلاسز اور ان کے طلبہ پر کیے گئے سوال پر ان کا مزید کہنا تھا کہ چھوٹی کلاسز بالخصوص پری پرائمری کے بچوں سے اساتذہ کا ”ریلیشن“ اس پورے سال میں نہیں بن سکا جب کہ پری پرائمری میں ٹیچر اور طالب علم کا تعلق اس کی ابتدائی تعلیم میں بنیادی و کلیدی کردار ادا کرتا ہے،  ہماری مونٹیسوری کلاسز کے لیے یہ اب تک بہت بڑا چیلنج ہے، پری پرائمری کے طلبہ یہ جانتے ہی نہیں کہ اسکول کس چیز کا نام ہے، وہ کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ کے آگے بیٹھتے ہی نہیں تو ٹیچر انھیں کیا بتائے اور کیا پڑھائےَ آن لائن کلاسز میں ٹیچر کا کردار محدود اور گھر پر موجود ماؤں کا کردار بڑھ  گیا ہے“۔

علاوہ ازیں کراچی کے علاقے ابراہیم حیدری میں قائم ”کورنگی اکیڈمی“کی پرنسپل مس اسماء کا کہنا تھا کہ جب لاک ڈاؤن ہوا اور اسکول بند کیے گئے تو ابتداء میں ہمارے پاس کوئی حل نہیں تھا کیونکہ ہمارا اسکول ایک less privilege area میں قائم ہے لہذا آن لائن کلاسز شروع کرنے سے قبل ہمیں اساتذہ کے بجائے والدین کی تربیت کرنی پڑی اور انہیں بتایا کہ کس طرح آن لائن زوم کلاسز ہوں گی۔

کورنگی اکیڈمی کی پرنسپل نے مزید بتایا کہ ہم پلے گروپ کی کلاسز ریکارڈ شدہ ویڈیو لیکچرز کے ذریعے کرا رہے ہیں اس کے بعد ہم نے ایک سروے بھی کرایا کہ کون کون سے بچے آن لائن کلاسز میں نہیں آرہے جس کے بعد معلوم ہوا کہ ان بچوں کے والدین کے پاس کسی بھی قسم کی ڈیوائسز نہیں ہیں ہم اب تک 45 والدین کو لیپ ٹاپ اور 29 کو موبائل فونز دے چکے ہیں تاکہ ان کے بچے کلاسز میں آسکیں کیونکہ ہمارے اسکول ایک این جی اوکے تحت چل رہا ہے۔

پرنسپل نے ایک سوال پر بتایا کہ اسکول کھلنے پر جب پرائمری کلاسز کے بچے اسکول آئے تو ان کے پاس گزشتہ معلومات نہیں تھی لہذا ہمیں پہلے revision میں جانا پڑا۔

ادھر”ایکسپریس“ نے سرکاری اسکولوں کا احوال جاننے کے لیے جب سولجر بازار میں قائم عرفان گورنمنٹ اسکول کی ایک خاتون استاد سے رابطہ کیا تو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ان کا کہنا تھا کہ نویں اور دسویں کے علاوہ کسی بھی کلاس کا آن لائن سیشن نہ اسکولوں کی پہلی بندش میں ہوا تھا اور نہ ہی اب ہو رہا ہے۔ انھوں نے یہ بتا کر مزید حیران کیا کہ نویں اور دسویں جماعت کا ایک واٹس ایپ گروپ بنا ہوا ہے اساتذہ اس پر اپنے وائس لیکچر بھیج دیتے ہیں۔

اسی طرح گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول جہانگیر نمبر ایک کے ایک استاد نے بتایا کہ ہم بچوں کو نوٹس کی شکل میں لیکچر کے پرنٹ آؤٹ نکال کر دے دیتے ہیں اس کے علاوہ مزید کچھ نہیں ہورہا۔

سہراب گوٹھ کے علاقے میں قائم علامہ اقبال اسکول کمپاؤنڈ میں قائم معصومیہ گورنمنٹ اسکول سے وابستہ ایک ٹیچر نے بتایا کہ گورنمنٹ ایس او پیز کے تحت  ہر کلاس ہفتے میں ایک روز اسکول آتی ہے، انھیں ہوم ورک دیتے ہیں، آئندہ ہفتے اساتذہ ان کا ہوم ورک چیک کرتے ہیں اور انھیں دوبارہ ہوم ورک دے دیتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ اسکول میں 288 بچے ہیں لیکن اکثریت کے والدین کے پاس کوئی بھی ایسی ڈیوائس نہیں ہے جس پر آن لائن کلاس لی جاسکے، جب 7 ماہ کے بعد بچے اسکول آئے تھے تو ان میں سے 60 فیصد بچے جو کچھ پڑھا تھا وہ سب کچھ بھول چکے تھے۔

واضح رہے کہ اسکولوں کی بندش ان کے دوبارہ کھلنے اور ایک بار پھر بند ہونے کے حوالے سے والدین کے تجربات بھی انتہائی تلخ ہیں۔ کچھ والدین کہتے ہیں کہ ان کے تین بچے ہیں، کچھ کہتے ہیں ان کے چار بچے ہیں، سب اسکول جاتے ہیں گھر میں ایک اسمارٹ فون ہے، سب بچوں کی کلاسز ایک ہی وقت پر ہوتی ہیں ہم کس بچے کو پڑھائیں؟ اور کس کی تعلیم پر سمجھوتہ کریں، پہلے صرف اسکول کی فیس دیتے تھے اب انٹرنیٹ کے اخراجات علیحدہ ہیں، پہلے سات ماہ تک یہ اخراجات برداشت کیے اب پھراسی مشکل میں الجھ  گئے ہیں۔

کراچی کے علاقے صدر میں قائم معروف نجی اسکول میں زیر تعلیم طلبہ کے والدین نے ”ایکسپریس“کو بتایا کہ اسکول سے روزانہ آن لائن کلاسز کے ساتھ ساتھ ریکارڈ شدہ لیکچر بھی شیئر ہوجاتے ہیں جس سے بچے سہل پسند ہوگئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آن لائن کلاس کیوں لیں؟ جب ریکارڈ شدہ لیکچر موجود ہے، پھر بچے ریکارڈ شدہ لیکچر بھی نہیں دیکھتے اور ہوم ورک بھی نہیں کرتے اس طرح پورا سال گزر گیا۔

فیڈرل بی ایریا کے ایک نجی اسکول میں زیر تعلیم طالب علم کی والدہ فرحت فاطمہ نے ”ایکسپریس“کو بتایا کہ ان کے بچوں کی آن لائن کلاسز نہیں ہورہی، فیس معمول کے مطابق ہی جارہی ہے، روزانہ موبائل اور واٹس ایپ پر اسائنمنٹس اور ہوم ورک بھیج دیے جاتے ہیں۔ والدہ نے سوال کیا کہ جب بچے کو آن لائن کلاسز نہیں کرائی جارہی انھیں لیکچر سمجھایا نہیں جارہا  تو وہ کس طرح یہ اسائمنٹ کریں؟ والدہ کا کہنا تھا کہ اس پورے سال میں ان کے بچے نے تعلیمی قابلیت میں کوئی اضافہ نہیں کیا اس اسکول سے کوئی باز پرس کرنے والا نہیں ہے؟۔

علاوہ ازیں ”ایکسپریس“ نے کوویڈ کی پہلی اور اب دوسری لہر کے دوران سامنے آنے والے ان ایشوز پر چیئرمین آئی بی سی سی اور آغا خان تعلیمی بورڈ کے سربراہ شہزاد جیوا سے بھی بات چیت کی اور ان سے پوچھا کہ وہ اپنے عہدے کی حیثیت ان مسائل سے نمٹنے میں کیا کچھ کرسکے؟

شہزاد جیوا نے کہا کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کوویڈ 19 کے سبب نظام تعلیم بند رہا جس کے سبب 188 ممالک میں تعلیمی ادارے بند کردیے گئے،  ایک اندازے کے مطابق 1.60 بلین طلبہ اسکول سے باہر ہوگئے، تعلیم کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی، اب 2020ء کے آخر میں ہر ماہر تعلیم، والدین اور طالب علم کے ذہن میں ایک ہی سوال ہے کہ تعلیم کے تسلسل کو کیسے جاری رکھا جائے؟ اور یہ پالیسی میکر کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔

انہوں ںے مزید کہا کہ  پاکستان نے بھی دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مختلف حکمت عملی بنائی، پاکستان میں 50 ملین سے زیادہ طلبہ اس صورتحال سے متاثر ہیں، پاکستان میں گریڈ 1 سے 8 تک کے طلبہ کو پروموٹ کیا گیا جبکہ نویں سے بارہویں جماعت کے طلبہ کو آئی بی سی سی کی تجویز پر وفاقی حکومت نے صوبوں کے ساتھ مشاورت سے ان کے امتحان  ملتوی کرکے  پروموٹ کیا، یہ فیصلہ طلبہ کی صحت، حفاظت  اور ایجوکیشن سیکٹر میں کام کرنے والے پروفیشنلزکے لیے کیا گیا تھا۔

انہوں ںے مزید کہا کہ آئی بی سی سی کی اسٹیئرنگ کمیٹی نے اپنی حتمی تجاویز وفاقی وزارت تعلیم کو بھجوائی ہیں اور اس میں گزشتہ پیش آنے والے مسائل و چیلنجز کو ملحوظ خاطر رکھ کر سفارشات رکھی گئی ہیں کہ کس طرح اب اسکولوں میں امتحانات لیے جائیں اسے منظوری کے لیے این سی او سی کے ہونے والے آئندہ اجلاس میں پیش کیا جارہا ہے، اب اکیڈمک ایئر اور سلیبس کو بھی محدود کرنے پر کام کیا گیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔