سبھاش چندر بوس اور ان کے پختون معاون

روخان یوسف زئی  اتوار 27 دسمبر 2020
تذکرہ عظیم حریت پسند ’’نیتا جی‘‘ اور ان کی معاونت کرنے والے پختون راہ نماؤں کا،وہ ہمیں خواب دیکھنے والا کہتے ہیں نا ؟

تذکرہ عظیم حریت پسند ’’نیتا جی‘‘ اور ان کی معاونت کرنے والے پختون راہ نماؤں کا،وہ ہمیں خواب دیکھنے والا کہتے ہیں نا ؟

’’وہ ہمیں خواب دیکھنے والا کہتے ہیں نا؟ لیکن مجھے خود اعتراف ہے کہ میں خواب دیکھتا ہوں میں ہمیشہ خواب دیکھنے والا رہا ہوں۔ جب میں بچہ تھا اس وقت بھی خواب دیکھا کرتا تھا، میں بڑے بڑے خواب دیکھا کرتا تھا، لیکن اب تک جتنے خواب میں نے دیکھے ہیں ان میں سے زیادہ عزیز ہندوستان کی آزادی کا خواب ہے۔

ان کے خیال میں خواب دیکھنا عیب ہے لیکن مجھے اس پر فخر ہے۔ وہ ہمارے خوابوں کو پسند نہیں کرتے لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں اگر میں ہندوستان کی آزادی کا خواب نہیں دیکھتا تو ہندوستان کی غلامی کو ابدی خیر سمجھ کر تسلیم کر لیتا، اصل سوال یہ ہے کہ میرے خواب شرمندہ تعبیر بھی ہوں گے؟ میں سمجھتا ہوں کہ بہت حد تک میرے خواب حقیقت بن چکے ہیں۔

آزاد ہند فوج کا بھی میں خواب دیکھا کرتا تھا، جو اب حقیقت میں میرے سامنے موجود ہے مجھے خواب پرست کہلانے میں کوئی عذر نہیں، دنیا کی ترقی خواب پرستوں اور خوابوں کی مرہون منت ہے یہ خواب دوسرے کے لوٹنے اور ظلم کرنے کا نہیں یہ خواب دنیا کے ساتھ بے انصافی کرنے کا نہیں بل کہ یہ خواب عوام کی ترقی، خوش حالی اور آزادی کا ہے اور یہ دنیا کے ہر قوم کے لیے ہے۔‘‘ یہ وہ الفاظ ہیں جو آزاد ہند فوج کے بانی اور برصغیر کی جدوجہد آزادی کے نام ور ہیرو نیتاجی سبھاش چندر بوس نے اس وقت ادا کیے جب لکشمی بائی نے انہیں بتایا کہ دہلی ریڈیو ان کو خواب دیکھنے والا آدمی کہتا ہے۔

ہمارے ہاں شاید آج بھی اکثر لوگوں کے لیے نیتاجی سبھاش چندر بوس کا نام نیا اور غیرمانوس ہو کیوں کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے اس تیز ترین دور میں بھی ہماری جدوجہد آزادی کی تاریخ تاریکی میں لپٹی ہوئی ہے اور اس سرزمین کے حریت پسندوں اور سرفروشوں جن میں حاجی فضل واحد حاجی ترنگ زئی بابا جی، مرزا علی خان المعروف فقیر ایپی، سرتور فقیر ، ملا ھڈی، مفتی سرحد مولانا عبدالرحیم پوپلزئی، خان عبدالغفار خان المعروف باچاخان، کاکا خوشحال، کاکاجی صنوبر حسین مومند، اسلم شہید اور دیگر لاتعداد مجاہدین کی اس وطن کی آزادی کے لیے دی گئی بے شمار قربانیاں اور کارنامے نئی نسل کی نظروں سے اس لیے اوجھل ہیں کہ ہماری لکھی ہوئی تاریخ بھی ایک مخصوص نقطۂ نظر سے ریاستی مورخین نے لکھی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آرڈر پر لکھی گئی تاریخ کے پڑھنے سے ہمارا تاریخی حافظہ بھی انتہائی کم زور ہو چکا ہے، بل کہ ہمارے اجتماعی حافظے نے الٹا کام شروع کردیا ہے اور جن شخصیات کو بار بار یاد کرنے کی ضرورت ہے یا جن تاریخی واقعات و کارناموں کا تذکرہ ہمیں کرنا چاہیے، انہیں بھلا کر اکثر ان لوگوں کا تذکرہ کرتے ہیں جنہوں نے اس سرزمین کی آزادی کی جنگ میں اپنے ہی لوگوں کے خلاف سازشیں کیں اور انگریزوں کے نمک خوار رہے۔

تاریخ ایک قوم کا اجتماعی حافظہ ہوتا ہے اور جس قوم سے اس کا اجتماعی حافظہ چھین لیا جائے وہ دیوانی اور پاگل ہوجاتی ہے۔ اس مٹی کو فرنگی سام راج سے آزاد کروانے کے لیے ہمارے بہت سے مشاہیر اور مجاہدین نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے طرح طرح کی تکالیف اور مصیبتیں برداشت کی ہیں۔

آج ہم بڑی آسانی کے ساتھ ان چند الفاظ اور اصطلاحات کا ذکر کرتے ہیں، جیل، کوڑے، اذیت، تکلیف، جلاوطنی، روپوشی، ٹارچر سیل اور قیدوبند وغیرہ لیکن یہ محض چند الفاظ اور اصطلاحات نہیں بل کہ ان میں سے ہر ایک لفظ اپنے اندر ایک بڑا تلخ تجربہ رکھتا ہے۔ ہر لفظ کی باطن میں ایک الگ کہانی اور مکمل تصویر پنہاں ہے بقول شاعر

لفظ بظاہر لفظ ہے لیکن باطن میں اک چہرہ ہے

چہرے کیا پہچانیں جن کو لفظوں کی پہچان نہیں

نیتاجی سبھاش چندر بوس اور ان کے ساتھیوں کا نام اور جنگ آزادی میں ان کے کردار سے وہ لوگ بخوبی واقف ہیں جنہوں نے تاریخ کو طبقاتی نقطہ نظر اور تاریخی شعور کے ساتھ پڑھا اور سمجھا۔ سبھاش چندر بوس کے نام سے آج ہندوستان میں ایک بہت بڑا ریسرچ سیل قائم کرنے کے علاوہ ان کی شخصیت، حالات زندگی اور تحریک آزادی میں ان کے کردار پر درجنوں کتابیں لکھی گئی ہیں جب کہ چند برس قبل نیتاجی کی زندگی اور حالات پر ایک فلم بھی بنائی گئی ہے، لیکن شاید کم لوگوں کو اس بات کا علم ہو کہ برطانوی سام راج کے خلاف لڑی جانے والی آزادی کی جنگ میں نیتاجی کو سب سے زیادہ سیاسی معاونت اور حمایت اس پختون سرزمین کے فرزندوں نے فراہم کی۔

خصوصاً کلکتہ سے کابل اور کابل سے ماسکو جاتے وقت ان کے فرار میں بنیادی کردار ادا کرنے والے میاں اکبر شاہ کاکا خیل آف بدرشی، عباد خان کاکا سکنہ پیر پیائی، میاں محمد شاہ آف پبی اور بھگت راج تلواڑ آف غلہ ڈھیر تھے۔ اس وقت اگر ان بزرگوں نے نیتاجی کا ساتھ نہ دیا ہوتا اور نیتاجی کو پشاور سے کابل اور کابل سے ماسکو تک نہ پہنچاتے تو شاید آزاد ہند فوج کے قیام کے متعلق نیتاجی کا دیکھا ہوا خواب کبھی پورا نہ ہوتا اور شاید کہ آج ہندوستان اور پاکستان کا نقشہ بھی یہ نہ ہوتا، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں آج بھی لوگوں کی اکثریت اپنے ان تمام پختون حریت پسندوں کے کارکنوں سے کماحقہ آگاہ نہیں ہے جنہوں نے نیتاجی کا ساتھ دے کر اس ملک کو برطانوی سام راج کے چنگل سے آزاد کروانے میں اپنی جوانیاں، اپنا مال اور اپنے قیمتی اثاثے قربان کی۔

دراصل علم اور تاریخ کے حوالے سے ہمارا رویہ ہمیشہ افسوس ناک رہا ہے اور اپنی تاریخ کے لیے بھی ہم مستشرقین کی کتابوں کے حوالے ڈھونڈتے ہیں، وطن کی آزادی کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے لاتعداد معلوم اور نامعلوم حیرت پسندوں کی طرح ہماری آزادی کی قومی اور اجتماعی تاریخ بھی شہید کردی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارا مستقبل بھی ایک ڈراؤنے خواب کی طرح ہمیں ڈرائے رہتا ہے اور جب کسی قوم سے اس کی اجتماعی تاریخ چھین لی جاتی ہے تو مستقبل خود بخود اس سے روٹھ جاتا ہے۔

زیرنظر تحریر تاریخ کے ایک گم شدہ باب کی تلاش کی ایک کوشش ہے تاکہ قارئین کو بتا سکیں کہ برطانوی سام راج کے دورِغلامی میں جب اس دھرتی کے کچھ خاندان انگریزوں کے ایجنٹوں کے ڈر سے نیتاجی جیسے حریت پسندوں سے ہاتھ تک ملانے سے بھی گریز کرتے تھے، یہاں کے غیور اور جانثار آزادی کے پروانوں نے کس طرح ان کی مدد کی اور ان کے قدم سے قدم ملا کر ملک کو انگریزوں کے تسلط سے آزاد کروایا۔

سبھاش چندر بوس 23 جنوری1897ء میں پیدا ہوئے، بچپن میں وہ اپنی ماں کے پاس بیٹھ کر سادھوؤں کی کہانیاں سنا کرتے تھے جو انہیں بہت اچھی لگتی تھیں سب سے پہلے 1909ء میں سبھاش بابو کا نام کٹک کے کالجیٹ اسکول میں لکھا گیا۔ اس اسکول میں ان دنوں ایک ماسٹر بینی مادھو داس تھے، بینی بابو بڑی اچھی عادت کے آدمی تھے اور ان کی زندگی کا بھی سبھاش بابو کے دل پر اچھا اثر پڑا، سبھاش بابو نے بینی بابو کی زندگی سے بہت کچھ حاصل کیا۔ خصوصاً وطن اور غریبوں سے محبت کرنا بینی بابو نے ہی سبھاش چندر کو سکھایا۔ 1914ء میں انہوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا جس میں وہ اسکول میں دوسرے درجے پر رہے۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد سبھاش بابو پریذیڈنسی کالج میں داخل ہوئے۔ سبھاش بابو کی آنکھیں اس وقت بھی اپنے ملک کی آزادی کی طرف لگی ہوئی تھیں۔

ملک میں چھائی ہوئی غربت اور جبر کو دیکھ کر وہ اندر سے پگھلتے جارہے تھے اور اس سوچ و فکر میں رہتے کہ وہ کون سا موزوں راستہ اختیار کیا جائے جس کے ذریعے اس ملک سے برطانوی سام راج کو نکلنے پر مجبور کریں۔ ان دنوں مرزا پور ریاست کے میڈیکل میٹن میں ایک ڈاکٹر ہریش رہا کرتے تھے۔ وہ بڑے محب وطن اور انقلابی نظریات کے مالک تھے۔ انہوں نے کچھ نوجوانوں کی مدد سے ایک آشرم کھولا، اس آشرم میں جو لوگ داخل ہوتے تھے۔ انہیں ملک کی خدمت کرنے کے لیے زندگی بھر بلاشادی کے رہنے کا عہد کرنا پڑتا تھا۔ بنگال کے لاتعداد لوگوں نے اس آشرم میں داخل ہو کر شادی نہ کرنے کا وعدہ کیا۔ جب سبھاش بابو کو اس آشرم کا پتا چلا تو وہ وہاں گئے اور آشرم میں اپنا اور اپنے بھائی برت چندر بوس کا نام بھی لکھوا دیا۔

اس دوران ان کی توجہ پڑھائی کے برعکس سیاست پر زیادہ رہی اور اسی کش مکش میں وہ ایک دن کسی کو بتائے بغیر گھر سے نکل پڑے، لیکن ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں وقت گزارنے کے باوجود ان کی بے چینی کم نہیں ہوئی اور گھر واپس لوٹ آئے۔1915ء میں ایف اے کا امتحان پاس کیا اور اپنے والد کے اصرار پر ولایت جاکر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے کیمبرج یونی ورسٹی میں داخلہ لیا۔ جن دنوں وہ ولایت میں تھے ہندوستان میں عدم تعاون کی تحریک زوروں پر تھی۔

بنگال کے راہ نما دیش بندھو داس نے انہیں خط لکھ کر وطن واپس بلا لیا اور وہ اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر تحریک عدم تعاون میں حصہ لینے کے لیے وطن واپس آگئے۔ دیش بندھو داس نے ان دنوں ایک اسکول کھولا تھا جس کا نام نیشنل کالج رکھا گیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ ایک اخبار بھی نکالتے تھے۔ جب سبھاش بابو واپس آئے تو دیش بندھو داس نے دونوں کام ان کے سپرد کردیے اور اخبار کی ذمے دار ہونے کے علاوہ وہ نیشنل کالج کے پرنسپل بھی مقرر ہوگئے۔ برطانوی سام راج کے خلاف تحریک میں پرجوش حصہ لینے پر ان کو 1919ء میں گرفتار کیا گیا اور پانچ ماہ کی قید سنائی گئی، جس پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’میں مرغی چور تو نہیں ہوں کہ مجھے اتنی کم سزا دی گئی ہے۔‘‘

یوں تو طالب علمی کے زمانے سے ان کا تعلق کانگرس سے تھا لیکن 1920ء میں جیل سے رہا ہونے کے بعد انہوں نے کانگرس کی سرگرمیوں میں زور شور سے حصہ لینا شروع کردیا۔ اس کے علاوہ ایک اخبار ’’فارورڈ‘‘ کے ایڈیٹر بھی مقرر ہوئے جو پارٹی کے پروپیگنڈے کے لیے جاری کیا گیا تھا۔ تاہم بعد میں کانگرس میں اندرونی اختلافات نے زور پکڑ لیا تو انہوں نے ’’جوانوں کی جماعت‘‘ کے نام سے ایک نئی پارٹی قائم کی اور بہت جلد ہندوستان بھر کے نوجوانوں کے مقبول ترین لیڈر بن گئے۔

ان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خائف ہوکر حکومت نے انہیں 25 اکتوبر 1924ء کو دوبارہ گرفتار کرکے مانڈے جیل میں غیرمعینہ مدت کے لیے نظربند کردیا۔ مانڈے جیل ہندوستان بھر میں تکلیفوں اور سختیوں کے لیے مشہور تھی، ان مصائب اور سختیوں کی وجہ سے وہ بیمار پڑگئے اور ان کے پھیپھڑے خراب ہو گئے جب کہ کمر میں بھی درد ہونے لگا اور وزن بہت زیادہ کم ہوا، یہاں سے رہا ہونے کے بعد ان کی گرفتاریوں اور رہائیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ وہ رہا ہوتے تو پھر دوبارہ گرفتار کرلیے جاتے۔ اس دوران انہوں نے سوئٹزرلینڈ، آئرلینڈ، فرانس اور جرمنی وغیرہ کی سیاحت بھی کی اور وہاں کے مقتدر راہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔

1938ء میں وہ بلامقابلہ کانگرس کے صدر منتخب ہوئے اور صدارتی مدت پوری ہونے کے بعد دوسری مرتبہ بھی اکثریت سے صدر منتخب ہوئے، لیکن بعدازآں گاندھی جی سے اختلافات کے باعث انہوں نے استعفیٰ دے دیا اور فارورڈ بلاک قائم کرلیا۔ ان کی خواہش تھی کہ روس، جرمنی اور جاپان جا کر ہندوستان کی آزادی کے لیے ان ممالک کی مدد حاصل کریں۔

اس لیے انہوں نے ہندوستان سے فرار ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ اس مقصد کی خاطر انہوں نے لوگوں سے ملنا جلنا ترک کردیا، داڑھی بڑھالی اور اپنے ساتھیوں میاں اکبر شاہ کاکا خیل، میاں محمد شاہ اور عباد خان کو اعتماد میں میں لے کر ایک مسلمان بیمہ ایجنٹ ضیاء الدین کے بہروپ میں 19 جنوری 1941ء کو پشاور ریلوے اسٹیشن پہنچے۔ عباد خان کاکا نے ان کے لیے اپنا گھر پہلے سے خالی کیا ہوا تھا اور اپنے بچوں کو گاؤں بھیج دیا تھا۔ انہوں نے نہایت احتیاط اور خفیہ طور پر نیتاجی کو ایک ہفتے تک اپنے مکان کابلی بازار میں انگریز سرکار کی خفیہ پولیس اور انگریزوں کے ایجنٹوں سے چھپائے رکھا۔

تاہم اس دوران عباد خان کاکا کی وساطت سے ان کا رابطہ اپنے جان نثار ساتھیوں سے بدستور برقرار رہا۔ رات کی تاریکی میں عباد خان کاکا کے گھر ان کے خفیہ اجلاس بھی منعقد ہوتے رہے۔ پشاور میں ایک ہفتہ قیام کرنے کے بعد عباد خان کاکا کی کوششوں سے سبھاش چندر بوس بھگت رام تلواڑ آف مردان کابل پہنچنے میں کام یاب ہوگئے اور کابل میں کافی مصائب و تکالیف برداشت کرنے کے بعد ایک کابلی پختون کی کوششوں سے نیتاجی جاپان پہنچنے میں کام یاب ہوگئے اور 1943ء میں سنگاپور پہنچ کر آزاد ہند فوج کی راہ نمائی اپنے ذمہ لے لی، جس میں بھرتی ہونے والے ہندوستانی سپاہی ہندوستان کی آزادی کا عہد کرتے تھے اور خون سے لکھے گئے حلف نامے پر دستخط کرتے تھے۔

نیتا جی نے ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آزاد ہند فوج کے قیام کے انقلابی اقدام کے علاوہ اس میں عورتوں کی رجمنٹ بھی بنائی اور ان کو رائفل، مشین گن، برین گن نامی گن چلانے کی تربیت دی۔ اگرچہ ان کی حادثاتی موت (غالباً 18اگست1945ء) سے آزاد ہند فوج کے حملے کے نتیجے میں ہندوستان کے آزاد ہونے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا، تاہم ان کے تربیت کردہ انقلابیوں نے ہر قدم پر ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں بھرپور کردار ادا کیا اور نیتاجی کی وفات کے بعد انگریز استعمار کے پنجے سے ہندوستان کو آزادی دلانے میں کام یاب ہوگئے۔

تاریخ کی درستی اور نئی نسل کی راہ نمائی کے لیے اس امر کی ضرورت ہے کہ جن لوگوں نے اس وطن کی آزادی کی جنگ لڑی ہے اور اپنی سرزمین کو فرنگی سام راج کے تسلط سے آزاد کرانے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے ان کے نام اور کارناموں کو اجاگر کیا جائے۔ اس ضمن میں ہمارے وطن دوست قوم پرست اور سوشلسٹ جماعتوں نے بھی بہت غفلت کا مظاہرہ کیا ہے کیوں کہ آج تک ان جماعتوں نے اپنے ان مشاہیر کو یاد کرنے کے لیے کوئی سیمینار یا کانفرنس منعقد کرنے، کتاب لکھنے یا ان کے مزاروں پر دیا جلانے کی زحمت تک گورا نہیں کی۔

میاں اکبر شاہ کاکا خیل، عبادخان کاکا، میاں محمد شاہ، کاکاجی خوشحال خٹک، اسلم شہید، کاکا جی صنوبر حسین مومند، ڈاکٹر وارث خان کے نام اور کردار سے آج تک کتنے فی صد پختون واقف ہیں؟ یا ان کی قربانیوں کی قدر کرنا جانتے ہیں؟ کیا ہمیں ان قربانیوں کے ثمرات حاصل ہوئے ہیں ؟ کیا ہم آج واقعی آزادی ہیں؟ اب تک اس بات پر تنازعہ ہے کہ وہ کہاں غائب ہوگئے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ 1945ء میں تائیوان میں ایک طیارے کے تباہ ہونے میں مارے گئے تھے لیکن ان کے پیروکار اس بات کو نہیں مانتے۔ اس معاملے کی طے تک پہنچنے کے لیے سپریم کورٹ کا ایک تحقیقاتی کمیشن بھی بنایا گیا تھا، مگر مکمل تسلی بخش معلومات ابھی تک سامنے نہیں آئے ہیں۔

پاکستان اور بھارت میں اب بھی ایسے خاندان موجود ہیں جو کہ اپنے بزرگوں کے دوستوں کو کسی نہ کسی طور پر زندہ رکھنے کے لیے پرخلوص تعلقات پر مبنی رابطوں کو برقرار رکھنے کے خواہش مند ہیں۔ یہ 2005ء کی بات ہے کہ پشاور کی سرزمین پر ہندوستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے دو خاندانوں کے افراد 61 سال قبل اپنے بزرگوں کی یادیں اور واقعات کو ایک دوسرے کے ساتھ احترام کے ساتھ شیئر کر رہے تھے۔

اس ملاقات کے دوران ایک طرف اگر ایک خاندان اپنے بزرگ کے ساتھ ہونے والے تعاون اور مدد پر احسان مندی کے جذبات کا اظہار کر رہا تھا تو دوسری طرف کا خاندان بھی اپنے بزرگوں کی پختون روایات کو زندہ رکھنے اور نظریات کی خاطر انگریزوں سے دشمنی مول لینے پر اپنے بزرگ کے فیصلے پر فخر محسوس کر رہا تھا۔ یہ ملاقات پاکستان اور بھارت کے موجودہ وقت کے کسی بڑی سیاسی شخصیات کے درمیان نہیں تھی بل کہ یہ جنگ آزادی کے ایک انقلابی اور سرگرم راہ نما اور جدوجہد آزادی کے ایک انقلابی کارکن کے خاندانوں کے افراد کے درمیان تھی۔

اس ملاقات کی آرزو لے کر پشاور آنے والی کرشنا بوس کا تعلق ہندوستان سے تھا، کرشنا بوس سبھاش چندر بوس کی بہو ہیں جب کہ دوسری طرف سے ملاقات کرنے والا سبھاش چندر بوس کو پناہ دینے اور افغانستان فرار ہونے میں مدد فراہم کرنے والے عباد خان آف پیر پیائی کے صاحب زادے محمد سراج خان تھے۔ کئی سال بعد دوبارہ ملنے والے تاریخی اہمیت کے حامل خاندانوں کے دونوں افراد کے درمیان یہ ملاقات اس وقت کے وزیرداخلہ مرحوم نصیر اللہ بابر کی رہائش گاہ پر ہوئی تھی۔ ملاقات کے حوالے سے، کرشنا بوس جو تین مرتبہ ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوچکی تھیں اور اس وقت نیتاجی ریسرچ بیورو کی ڈائریکٹر بھی ہیں، کا کہنا تھا کہ یہ میری زندگی کے قیمتی لمحات ہیں جب میں پشاور کی سرزمین پر اس شخصیت کے خاندان کے اس فرد سے ملاقات کر رہی ہوں جس نے نیتاجی کی افغانستان جانے میں مدد کی تھی۔

میری بڑی خواہش تھی کہ میں ان جگہوں کو دیکھوں جہاں نیتاجی نے قیام کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ 1994ء میں بھی اپنے شوہر کے ساتھ پشاور آئی تھیں لیکن اس وقت ان کی ملاقات عباد خان کے خاندان کے کسی فرد کے ساتھ ممکن نہ ہوسکی۔

سراج خان کے ساتھ ان کی ملاقات 1996ء میں کلکتہ میں ہوئی تھی جب وہ خصوصی دعوت پر نیتاجی (سبھاش چندر بوس) کی پیدائش کی صد سالہ تقریبات میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ کرشنابوس نے ملاقات کے دوران یہاں کے پشتونوں کی جدوجہد آزادی میں کردار کو سراہتے ہوئے کہا تھا کہ اگر یہاں کے لوگ انگریزوں کے خلاف جدوجہد آزادی میں حصہ نہ لیتے تو آج نہ پاکستان آزاد ہوتا اور نہ ہی ہندوستان۔ وہ سبھاش چندر بوس کو پناہ دینے اور افغانستان فرار ہونے میں مدد فراہم کرنے پر عباد خان آف پیر پیائی کی بھی احسان مند تھیں اور کہہ رہی تھی کہ نیتاجی کی شہرت میں عباد خان کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ملاقات کے حوالے سے عباد خان آف پیر پیائی کے بیٹے محمد سراج خان کا کہنا تھا کہ وزیرداخلہ مرحوم نصیر اللہ بابر کی بہن نے مجھے فون پر بتایا کہ بابر صاحب آپ سے ضروری بات کرنا چاہتے ہیں۔

اس لیے آپ ان سے رابطہ کریں، جس پر میں نے بابر صاحب کو فون کیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ہندوستان سے ایک وفد آیا ہے۔ اس میں ایک خاتون عباد خان کی فیملی کے کسی فرد سے ملنے کی خواہش مند ہے، اس لیے آپ صبح پشاور تشریف لے آئیں تاکہ ان سے ملاقات ممکن ہوسکے، محمد سراج کا کہنا ہے کہ سبھاش چندر بوس اور عباد خان آف پیر پیائی کے خاندان کے درمیان یہ دوسری ملاقات تھی۔ اس سے قبل 1996ء میں سبھاش چندر بوس کی تاریخ پیدائش کی صد سالہ تقریبات کے سلسلے میں کلکتہ گیا تھا۔

وہاں کے لوگوں میں اب تک میرے والد عباد خان کے حوالے سے احترام کا ایک تعلق موجود ہے، مجھے تقریر کے دوران معلوم ہوا کہ سبھاش چندر بوس کے ساتھ میرے والد کے کیے گئے مدد و تعاون کو وہاں کے لوگ عقیدت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ مجھے جس وقت معلوم ہوا کہ کرشنا سے ملاقات کرنی ہے تو مجھے بڑی خوشی ہوئی کیوں کہ ان ملاقاتوں سے ہم اپنے بزرگوں کی یادیں تازہ رکھتے ہیں، چندر بوس فیملی سے میرے خاندان کا خطوط کے ذریعے مستقل رابطہ رہا جس کے ذریعہ ہم دونوں خاندانوں کے بارے میں خیریت دریافت کرتے تھے۔ پیرانہ سال محمد سراج خان کا کہنا ہے کہ کرشنا بوس کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ڈاکٹر شرمیلا بوس ہیں۔ ڈاکٹر شرمیلا بوس نے 1996ء کے دورہ ہندوستان میں میرا بہت خیال رکھا اور مجھے کسی قسم کی تکلیف نہیں ہونے دی۔1941ء میں سبھاش چندر بوس جس گھر سے نکلے تھے۔

وہاں پر اب بوس خاندان نے نیتاجی ریسرچ بیورو کا مرکزی دفتر قائم کیا ہے جس میں چندر بوس کے حوالے سے تاریخی حقائق اکٹھے کیے جارہے ہیں، کیوں کہ بوس فیملی کا کہنا ہے کہ نیتاجی کے ساتھ تعلق اور تعاون کے حوالے سے بہت دعوے دار سامنے آگئے ہیں۔

اپنے والد عباد خان کے کردار کے حوالے سے محمد سراج کا کہنا تھا کہ وہ تاریخ کی کتابوں میں اس لیے گم نام ہیں کہ ہمارے ہاں تاریخ کو مسخ کر کے پیش کیا گیا ہے۔ ماضی کے حوالے سے دونوں نے بتایا کہ ایک وقت تھا جب پشاور میں میرے والد کی دکان پر ترقی پسند لوگوں کی محفل باقاعدگی کے ساتھ ہوتی تھی اس محفل میں اس وقت کی ممتاز شخصیات صنوبر حسین کاکاجی، سید عاشق شاہ باچا، سالار امین جان، کرامت اللہ فولاد، عبدالخالق خلیق، امین نواز، محمد اسلم محمود اور غنی خان شریک ہوتے تھے جب کہ اس وقت خان قیوم بھی اس محفل میں شریک ہونے کے خواہش مند تھے اور والد صاحب کو راضی کرنا چاہتے تھے، لیکن میرے والد ان کو محفل میں شریک نہ ہونے دیتے اور خان قیوم جب ہماری دکان کے قریب سے گزرتے تھے تو اپنی گاڑی سے ہاتھ نکال کر رام رام کے اشارے کرتے تھے۔ یہ ایک دل چسپ صورت حال ہوتی جو کہ اب بھی میرے ذہن کے پردے پر کسی فلم کی طرح چل رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔