آپ اُن سے بہت ملتے ہیں

سہیل احمد صدیقی  اتوار 27 دسمبر 2020
بات کہاں سے نکلی، کہاں جاپہنچی۔

بات کہاں سے نکلی، کہاں جاپہنچی۔

زباں فہمی نمبر 78

واٹس ایپ کال پر دوسری طرف ایک خاتون تھیں جن سے ایک واٹس ایپ حلقے میں نئی نئی جان پہچان ہوئی ہے ، وہ بھی بہت مختصر تعارف کے ساتھ۔ کام کی باتوں کے بعد یکایک بلاتمہید فرمانے لگیں: ’’آپ …….کے شوہر ہیں نا؟‘‘ (اپنی کسی فیس بک سہیلی کا نام لیا)۔ خاکسار نے تردید کے لیے لفظ ’نہیں‘ کہنا شروع ہی کیا تھا کہ پھر اُنھیں دوسری فیس بک سہیلی کا نام یاد آیا:’’اچھا……..کے؟‘‘ میں نے اپنی اکلوتی بیگم صاحبہ کی طرف دیکھتے ہوئے، مسکراکر جواب دیا، ’’نہیں! میری بیوی کا نام …….نہیں۔‘‘ جواب الجواب آیا:’’اچھا….ویسے آپ اُن سے بہت مِلتے ہیں….میں نے فیس بک پر دیکھتے ہی کہہ دیا تھا۔‘‘

اب کیا بتائیں یہ ’’اُن‘‘ کون ہیں اور اُن سے ملنا چہ معنی دارد….ویسے تو ظاہر ہے کہ اُن کی مراد یہ تھی کہ میں بہت ملتا جُلتا ہوں یعنی شکل شباہت میں، مگر کوئی بھی ناواقف سرسری طور پر یہ جملہ پڑھ کر یا سُن کر یہ رائے قایم کرسکتا ہے کہ میں ’’اُن‘‘ سے اکثر ملتا جُلتا رہتا ہوں۔ یعنی ملاقات کرتا رہتا ہوں۔ شکر ہے کہ انھوں نے یہ نہیں کہہ دیا کہ آپ میرے ’’اُن‘‘ سے بہت ملتے ہیں….(یعنی شکل میں ملتے جُلتے ہیں)، ورنہ فوری جواب دینے میں بھی دقت ہوجاتی۔

بات کی بات ہے کہ یہ میری زندگی کا کوئی پہلا واقعہ نہیں جب کسی خاتون کے ایسے بلاتمہید سوال نے دفعتاً ششدر کردیا ہو۔ ایک مرتبہ کسی محفل میں کسی نے خاکسار کا تعارف کسی خاتون سے کرایا تو مقابل خاتون نے سلام کے جواب میں پہلا سوال کیا، ’’آپ کے کتنے بچے ہیں ….ماشاء اللہ؟‘‘۔ نہ یہ پوچھا کہ آپ کیا کرتے ہیں، کیا شادی ہوگئی …نہ کچھ اور۔ حالانکہ اُس وقت یہ راقم کنوارہ تھا۔ {وہی سکھ کا لطیفہ یاد آگیا جو پہلی مرتبہ کسی Clubمیں امرائے شہر کے بیچ جابیٹھا تو دوست کی ہدایت یاد نہیں رہی کہ اگر تمھاری میز پر کوئی خاتون آکر ساتھ بیٹھے تو پہلا سوال کیا کرنا ہے۔

، دوسرا کیا کرنا اور اس کے بعد کیا پوچھنا ہے۔ بدحواسی میں جو پہلی عورت ملی، اس سے پوچھ بیٹھا، ’’خیر سے کتنے بچے ہیں، آپ کے؟‘‘ اور اُس عورت نے ناگواری سے کہا، ’’میری تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئی۔‘‘ سکھ نے بہت خوش دلی سے جوا ب دیا، ’’او  خیر ہے! وہ بھی ہوجائے گی‘‘}۔ اسی طرح ایک معلمہ + تقریباً شاعرہ نے پاکستان ٹیلی وژن، کراچی مرکز میں ایک خاتون پروڈیوسر کے کمرے میں اُن کی غیرموجودگی میں مجھے بیٹھا دیکھ کر تفصیلی انٹرویو لے لیا۔ پہلا سوال یہی تھا، ’’شادی ہوگئی آپ کی؟‘‘۔ جواب نفی میں دے کر پھنس گئے بے چارے ’’جلیبی کی طرح‘‘ بالکل سیدھے سہیل صاحب۔ (اس ذاتی ’ایجاد‘ کی وضاحت پہلے کرچکا ہوں، جسے یاد نہیں، رابطہ کرلے)۔

ملنے اور ملنے جلنے اور ملتے رہنے پر بہت کچھ کہا جاچکا ہے اور کہا جاتا ہے۔ ابھی تو فی البدیہ لیپ ٹاپ پر یہ سطور رقم کرتے ہوئے وہی مشہور زمانہ شعر یاد آرہا ہے ، نجانے کیوں: تیرا ملنا خوشی کی بات سہی / تجھ سے مل کر اداس ہوتا ہوں۔ (مجھے لگتا ہے، یوں ہونا چاہیے تھا: تجھ سے ملنا خوشی کی بات سہی)۔ شاعر نے تو اپنی محبوبہ کے لیے کہا ہوگا، (آج کل GF یعنی گرل فرینڈ ہوتی ہیں، گئے وقتوں میں داشتہ کہہ دیا کرتے تھے)، مگر عملاً یہ عین ممکن ہے کہ بہت سے مظلوم شوہر اپنی بیوی کے لیے ایسا کہنے پر مجبور ہوں۔

یہ الگ بات کہ اُس کے روبرو نہ کہہ پائیں۔ ملنے کی خوشی اور نہ ملنے (یا نہ مل پانے) اور افسوس یا افسردگی جیسی کیفیات ہمارے شاعروں نے بارہا قلم بندکیں، نثرنگاروں کا معاملہ الگ تفصیل ہے۔ ہمارے عہد کے ممتاز شاعرصہبا اختر کہہ گئے ہیں: تجھ سے ملے نہ تھے تو کوئی آرزو نہ تھی/دیکھا تجھے تو تیرے طلب گار ہوگئے۔ ان سے بہت پہلے ہمارے نامورسخنورحسرتؔ موہانی نے کہا تھا: تجھ سے مل کر مجھے حیرت ہے کہ عرصہ اتنا/آج تک تیری جدائی میں یہ کیونکر گزرا۔ انھی کے عہد میں نامور شاعرجلیل مانک پوری نے فرمایا تھا: تجھ سے سو بار مل چکے لیکن/ تجھ سے ملنے کی آرزو ہے وہی۔ کلاسیک سے جدید تک سفر میں ہمارے ایک اور معروف شاعر، جاں نثاراختر کا یہ خیال تھا: آج تو مل کے بھی جیسے نہ ملے ہوں تجھ سے/چونک اٹھتے تھے کبھی تیری ملاقات سے ہم۔ یہ سلسلہ چلاہی ہے تو لگے ہاتھوں ایک غیرمعروف، کلاسیکی شاعر ولی اللہ محب کا شعر ملاحظہ فرمائیں: گرتے ہیں دکھ سے تیری جدائی کے ورنہ خیر/چنگے بھلے ہیں کچھ نہیں آزار ہے ہمیں۔ {قارئین کرام کی طرح اس ہیچ مدآں کو بھی تجسس ہوا کہ یہ نام کہیں پڑھا تھا، مگر کچھ یاد نہیں پڑتا ان کے کوائف کہیں دیکھے ہوں۔

انٹرنیٹ پر ریختہ نامی ویب سائٹ نے ہمیں یہ معلومات فراہم کیں: محبؔ شیخ ولی اللہ نام اور تخلص محبؔ ہے۔ جائے پیدائش دِلّی ہے۔ آبا و اجداد، سرہند کے رہنے والے تھے۔ دہلی آکر شاہ عالم کے درباری شاعر مقرر ہوئے۔ پھر مرزا سلیمان شکوہ کی سرکار میں لکھنؤ چلے گئے۔ یہیں 1792 میں انتقال کیا۔ ایک دیوان اور دو ایک مثنوی فارسی ان کی یادگار ہے۔ ان کے ہم عصر شعرا قمرالدین منت شکیباؔ، فراقؔ اور قاسم ؔوغیرہ تھے۔ ان کے متعلق مجموعہ نغز میں یہ رائے لکھی ہے،’’بسیار پر مشق دیوانے مملوبہ انواع سخن ازوے یادگار زمانہ است‘‘}۔

میل ملاپ کی برائی اس طرح بھی بیان کی گئی، بقول ظہیرالدین ظہیر ؔدہلوی: جتنی برائیاں ہیں، وہ سب ہیں ملاپ میں/ گر یہ نہ ہو تو کون کسی کا گِلا کرے۔ کہیے اب کیا خیال ہے؟ یہ تو وہی بات ہوئی نا کہ ’’کہتے ہیں جس کو عشق، خلل ہے دماغ کا۔‘‘ یہ وہی ظہیرؔ دہلوی ہیں جن کا ایک اور شعر مشہور زمانہ ہے: یوں تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار/ اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں۔ اگر آپ اس منفرد کلاسیکی شاعر کے مزید مشہور اشعار دیکھنا چاہیں تو ملاحظہ فرمائیں:’’اردو کے ضرب المثل اشعار تحقیق کی روشنی میں‘‘ از محترم شمس الحق۔ {ظہیر دہلوی اُن شعراء میں شامل ہیں جن کا کلام جنگ آزادی ہند۔

1857ء کے عینی شاہدین کے طور پر تحقیق وتنقید کا موضوع بنا۔ ڈاکٹر ابوالخیر کشفی مرحوم کے پی ایچ ڈی کے مقالے میں بھی اس کا ذکر ہے}۔ محبوب ومحب میں جدائی ہوجائے اور صلح بھی بمشکل ہوپائے تو پھر بقول شاعربے بدل، حضرت داغؔ، یہ کہنا بالکل برمحل محسوس ہوتا ہے: جھکی ذرا جو چشم جنگجو بھی، نکل گئی دل کی آرزو بھی / بڑا مزہ اُس ملاپ میں ہے، جو صلح ہوجائے جنگ ہوکر۔ اس سے ہٹ کر دیکھیں تو ایک اور شعر بھی ہے جو جرأت ؔنے نجانے کس کیفیت میں کہا: ملاپ کیونکہ (کیونکر) ہو، دونوں کے دل قفس میں ہیں/ جنھو ں کے بس میں ہیں ہم، وہ پرائے بس میں ہیں۔

ملاپ کے معانی میں بھی ایک جہان معانی ہے: ملاپ۔ ہ(یعنی ہندی)۔ اسم مذکر۔ (۱)آمیزش، اختلاط، میل جول، اتفاق۔ (۲)۔ صلح، آشتی، لڑائی کے بعد دوستی، باہم رضامندی، صفائی۔ (۳) مُوافقت، سازگاری، سنجوگ، ایکا، اتحاد۔ (۴) ملاقات، مُواصلت، وصال، وصل۔(۵) دوستی، محبت، میل جول، ربط ضبط، ارتباط۔ (۶)۔ مُعانقہ جسمانی، بغل گیری، گلے لگنا، جیسے ’’بھرت ملاپ‘‘ یعنی رام چندرجی اور بھرت جی کا ایک مدت کے بعد مُعانقہ کرنا۔ (۷) اخلاص، سلوک۔ (۸) سازوں کی ہم آوازی، ہم آہنگی۔ عموماً لفظ ’ملاپ‘ ایک اور لفظ ’میل‘ سے ملا کر یعنی مرکب بولا اور لکھا جاتا ہے۔

اب ذرا لفظ ’میل‘ کی خبر لیتے ہیں۔ میل۔ہ۔ اسم مذکر (میم مَکسوُر، یائے مجہول)}یعنی میم کی دبی ہوئی آواز۔س ا ص{۔(۱) آمیزش ِ مَردُم با مَردُم}یعنی آدمی کا آدمی کے ساتھ میل ملاپ۔ س ا ص، ملاپ، اتحاد، دوستی، اختلاط، مُخالطت، میل جول ، میل ملاپ، راہ ورسم، ربط ضبط، پیار، اخلاص، باہمی ارتباط۔ شعر: ملایا خوں مِرے اشکوں میں عشق نے میرے/ الہٰی آگ کا پانی سے کیونکر میل دیا (ظفر)}یعنی بہادرشاہ ظفرؔ{۔(۲) رشتہ، قرابت، سنبدھ}یعنی سمبندھ{،رشتہ داری، ناتہ }ناتا{۔(۳)۔ مناسبت، نسبت، مشابہت، مطابقت، تعلق۔ (۴)جوڑ، ہمسری، ہمتائی، ہم جنسی، جوٹ جوگ۔ (۵)رلاؤ ملاؤ، آمیزش، غش، ملونی، کم قیمت چیز کا بیش قیمت چیز میں، جیسے تانبے کا سونے میں، سیسے کا چاندی میں ملاؤ۔ شعر: دل ہمارا اس قدر سوزش طلب پروانہ ہے/شمع سے بھاگے جو اُس میں میل ہو کافور کا (ناسخؔ)۔ اک نگاہ کرم میں یوں اُڑگیا رنگ ِشباب/تیری شمع حسن میں کچھ میل تھا کافور کا (مرزا ارشد)۔ {یہ وہی میرزا ارشد گورگانی ہیں۔

جنھوں نے علامہ اقبال کے کچھ کلام پر اصلاح دی تھی }۔ (۶) وصل، پیوستگی، اتِّصال۔ (۷)ساتھ، سنگت، سنجوگ، موافقت۔ (۸)جُفت، جُفتی تاؤ جیسے گھوڑے اور گدھے کے میل سے خچّر ہوتا ہے۔ (۹) صنف، قسم، جنس، قماش، نوع، بھانت، ذات، رقم، فیشن جیسے یہ میل ہمارے پاس نہیں ہے، دُکان میں سب میل ہونا چاہیے۔ }یہ دیکھیے کہ مولوی سید احمد دہلوی صاحب نے کیسے فرہنگ آصفیہ میں اُس دور میں رائج ایسا استعمال اس لفظ کا لکھ دیا جو آج ہمارے اچھے اچھوں کے علم میں نہ ہوگا۔ ہم تو سیدھا سیدھا کہتے ہیں،Stockمیں نہیں ہے، Out of stockہے۔

یہ آپ نے کیا رکھا ہے یہ تو فیشن میں نہیں ہے، آج کل Inنہیں ہے، اب تو Out of fashion ہے، آپ کا نیا Stockکب آئے گا، اس کا Match تو دکھائیں وغیرہ۔ اس لفظ کے ساتھ ’جول‘ ملاکر بھی بولا اور لکھا جاتا ہے یعنی میل جول۔ یہاں پہلے یہ یاد کرتے چلیں کہ انگریزی لفظ Mailاور Male بھی صوتی اعتبار سے اس کے ہم آواز ہیں۔ اب اگر پڑھے لکھے لوگ اردو لفظ ’’میل‘‘ کو زبر سے ’’مَیل‘‘ بولیں یا انگریزی کے ان دو لفظوں کے ساتھ بھی ویسا ہی کریں تو بندہ کیا کرے…..ہمارے یہاں تو خواندہ افراد کی انگریزی دانی کا یہ عالَم ہے کہ RapeکوWrap اور کبھی کبھی اس کے برعکس بول جاتے ہیں۔

بڑے مزے سے۔ لفظ ’’مَیل‘‘ سے تو آپ واقف ہی ہیں، فرہنگ آصفیہ ہمیں بتاتی ہے کہ ہاتھی کے چَلانے کا کلمہ ’’مَیل مَیل‘‘ ہے}یعنی جب اُسے کہنا ہو چلو تو ایسا کہتے ہیں{ اور اُسے زمین سے اُٹھانے کے لیے ’’دَھت دَھت‘‘ بولا جاتا ہے ۔

اب پتا نہیں کہ آج کل ہمارے چڑیاگھروں کے مہاوت یا فِیل بان کیا کہتے ہیں اور کیا پتا یہی قومی زبان ہی استعمال کرتے ہیں یا بے چارہ ہاتھی بھی English medium کے زیرِعتاب ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے اور تجربے اور مشاہدے کا خلاصہ کہ پالتو جانور کو جس زبان میں مخاطب کرتے ہوئے گھر یا کسی اور جگہ رکھا جائے، اُسے کھانا، دانہ پانی دیتے ہوئے پکارا جائے، وہ اُسی زبان کا عادی ہوتا ہے جیسے ہمارے عظیم، مہان، منفرد اور بے مثل، آنجہانی بِلّو مہاراج تھے۔ انھیں ہم نے اردو میں تعلیم دی، کیونکہ وہ ہمارے گھرانے کا حصہ تھے۔ بس کبھی کبھی Bravo جیسا کوئی لفظ بول دیا کرتے تھے۔ وہ شروع شروع میں Shake hand بھی سمجھ لیتے تھے، مگر پھر ہم نے اردو کا مکمل نفاذ کردیا تو فقط اردو ہی سمجھتے تھے۔

بات کہاں سے نکلی، کہاں جاپہنچی۔ اگر آپ کو بِلّومہاراج اور بِلّو Juniorکے متعلق جاننے کا شوق ہے تو www.express.pk پر خاکسار کے نام بطور مصنف کے ذیل میں، بہ سلسلہ سخن شناسی تلاش کرلیں۔ ویسے غم زمانہ اور غم روزگار نے فرصت نہ دی (غم جاناں تو کب کا گیا بھاڑ میں)، ورنہ Mantu اور چھوٹُو سمیت دیگر پالتو بلّے بلیوں کے متعلق بھی لکھ دیتا، نیز امریکا میں مقیم ایک بزرگ کی فرمائش پر انگریزی میں لکھنا ادھار رہا۔ میل ملاپ کے لیے لفظ ’ملاقات‘ بھی عام طور پر مستعمل ہے۔ قلندربخش جرأت ؔکیا خوب کہہ گئے ہیں، سرسری اُن سے ملاقات ہے گاہے گاہے/صحبت ِ غیر میں گاہے، سرِراہے گاہے۔

اُن سے زیادہ مشہور استاد ذوق کا شعر ہے: اے ذوق کسی ہمدم ِدیرینہ کا ملنا/بہتر ہے ملاقات ِ مسیحا و خضر سے۔ جب ذوقؔ کی بات ہوئی تو حریف ِ ذوقؔ یعنی میرزا غالب ؔ کا بھی شعر یاد رہے: سیکھے ہیں مہ رُخوں کے لیے ہم مصوری/تقریب کچھ تو بہرملاقات چاہیے۔ داغؔ کا یہ مشہور زمانہ شعر کون بھول سکتا ہے: راہ پر اُن کو لگا لائے تو ہیں باتوں میں/اَور کھُل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں۔

صاحبو! ہم بات کررہے تھے، ملنے، ملتے جُلتے ہونے اور ملتے جُلتے رہنے کی تو آپ نے دیکھا کہ اردو زبان کا ذخیرہ الفاظ ومعانی کس قدر وسیع اور معنی خیزومعنی آفریں ہے۔ یہ اردو زبان کا حسن ہے کہ بعض اوقات ایک ہی لفظ، ترکیب، اصطلاح، محاورہ یا استعارہ معانی کے لحاظ سے برعکس بھی استعمال ہوسکتا ہے۔ اب کوئی یہ کہے کہ ’’اردو ایک چھوٹی، نسبتاً نئی، نوزائیدہ اور انگریزی کے مقابلے میں محدود ذخیرہ الفاظ کی حامل زبان ہے‘‘ تو اُس کی کم علمی، لاعلمی یا کھُلے لفظوں میں جہالت کا ماتم ہی کیاجاسکتا ہے۔ یہ تو ہوئی بات ’ملنے ‘ کی، اب آئیے ذرا لفظ /اصطلاح ’’اُن‘‘ کا کچھ ذکر ہوجائے۔

برصغیر پاک وہند میںاکثر خواتین اپنے شوہر کا نام نہیں لیتیں کہ یہ ہماری ہندوستانی روایت ہے جسے مشرقی کہا جانے لگا، مگر تمام مشرق میں یکساں صورت حال نہیں۔ یہ نکتہ آپ کو عجیب لگے گا، مگر ایسا ہی ہے۔ پہلے مسلم معاشرے یعنی عرب معاشرے میں عموماً خواتین اپنے شوہر کو، احتراماً کُنیت سے پکارتی تھیں یعنی بجائے اصل نام عبداللہ کے لیے ابواحمد۔ مرد بھی اپنی اہلیہ اور دیگر خواتین کو جب کبھی احتراماً مخاطب کرتے، کنیت سے یا لقب یا عرفیت سے پکارتے تھے۔ یہ روایت ہمارے خطے میں قدرے مختلف ہے یا ہوگئی ہے، امتدادزمانہ سے۔ ہم نے پنجاب اور یوپی کے مخلوط کلچر میں بارہا دیکھا اور سنا کہ خواتین اپنے شوہر کو ’’سناں جی!‘‘ کہہ کر گفتگو کا آغاز کرتیں (اب ماہرین یہ مسئلہ نہ کھڑا کردیں کہ جناب یہ نون غنہ کیوں لگایا….بھئی جو ہے۔

وہی نقل کیا ہے)۔ بعض گھرانوں میں اس کی جگہ ’’ذرا سنیے‘‘، ’’اجی سنتے ہو‘‘ ، ’’سنیے نا‘‘ وغیرہ کا چلن رہا ہے اور بعض میں اب بھی ہے۔ یہ الگ بات کہ نئی پود بہت مختلف ہے۔ یا تو ایک دوسرے کو ناموں سے مخاطب کرتی ہے، عرف سے یا ہندوستانی فلموں کے اثر سے ’’بے بی‘‘، ’’جانو‘‘۔ پہلے تو ڈارلنگ بھی ہوا کرتا/کرتی تھی، مگر شاید جدید دور میں یہ دقیانوسی یعنی You know، تھوڑا وہ جو کہتے ہیں Out of date ہوگیا ……You know۔ بات کی بات ہے کہ یونائیٹڈ بینک میں خاکسار کے سابق باس [Boss] سید ذاکراحسن (مرحوم) سے ہی میں نے یہ سیکھا کہ انگریزی کا یہ لفظ فقط محبوبہ یا اخلاقاً بیوی ہی کے لیے استعمال تک محدود نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔