برام اسٹوکر: ڈریکولا جیسا لافانی کردار تخلیق کرنے والا ادیب

محمد اختر  اتوار 29 دسمبر 2013
برام سٹوکر جب بچہ تھا تو وہ کسی نامعلوم بیماری کی وجہ سے بستر پر رہتا تھا۔  فوٹو : فائل

برام سٹوکر جب بچہ تھا تو وہ کسی نامعلوم بیماری کی وجہ سے بستر پر رہتا تھا۔ فوٹو : فائل

انسانی شکل میں اڑنے والا چمگادڑ، انسانی خون پینے والادرندہ، کبھی بھیڑیا اور کبھی چمگادڑ بن کرانسانوں کے چیتھڑے اڑانے والی بلا، اس تصوراتی انسانی درندے کو کچھ بھی کہیں ، دنیا اس کو ڈریکولا کے طورپر جانتی ہے۔آج کیا بچے اور کیا بوڑھے ، سب اس تصوراتی کردار سے واقف ہیں۔مشرق سے مغرب تک دنیا کے ہر کونے میں یہ کردار پہنچ چکا ہے۔اس کردار پر سینکڑوں فلمیں بن چکی اور کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔یہ وہی ڈریکولا ہے۔آخر یہ ڈراؤنا کردار کہاں سے آیا؟

یہ کوئی حقیقی کردار نہیں تھا۔مغربی ادب سے دنیا بھر کو ملنے والے بے شمار تصوراتی کرداروں جیسے ٹارزن ، جیمزبانڈ، شرلاک ہومز ،زومبی، انسانی بھیڑیا ، برفانی انسان یٹی ، سپرمین ،فرینکنسٹائن اور دیگر کرداروں کی طرح یہ بھی یہ ایک تصوراتی کردار تھا۔ڈریکولا کے تصوراتی کردار کو لافانی شکل دینے والا ادیب آئرلینڈ کا رہنے والا تھا۔ اس کا نام ابراہام سٹوکر جونئیر تھا۔ ابراہام سٹوکر چونکہ روانی میں ’’برام سٹوکر‘‘ بولا جاتا چنانچہ یہی اس کا نام بن گیا۔ گوتھک طرز کا یہ ناول ’’ڈریکولا‘‘ برام سٹوکر نے 1897 میں لکھا۔ اگرچہ برام سٹوکر نے اور بھی کئی ناول اور کہانیاں لکھیں لیکن اسے لافانی شہرت ڈریکولا سے ملی۔

برام سٹوکر آئرلینڈ کے دارالحکومت ڈبلن کے ایک نواحی علاقے کلونٹارف میں تولد ہوا۔ اس کے باپ کا نام بھی ابراہام سٹوکر ہی تھا جبکہ ماں کا نام شارلٹ تھا ۔ برام سٹوکر سات بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھا۔برام سٹوکر اپنی زندگی میں زیادہ تر اداکار ہنری ارونگ کے پرسنل اسسٹنٹ اور ارونگ کے لائسیم تھیٹر کے بزنس مینیجر کے طورپر جانا جاتا تھا۔

ڈریکولا کے خالق برام سٹوکر کے بارے میں ایک دلچسپ حقیقت سے شاید لوگ واقف نہ ہوں۔ برام سٹوکر جب بچہ تھا تو وہ کسی نامعلوم بیماری کی وجہ سے بستر پر رہتا تھا۔ اس بیماری کی وجہ سے وہ سات سال کی عمر میں سکول جانا شروع ہوا تھا۔اس زمانے کے بارے میں برام سٹوکر کا خود کہنا تھا کہ وہ فطری طورپر بہت سوچنے والا تھا، یہی وجہ ہے کہ جب وہ بیماری کے باعث بستر پر رہتا تھا تو اسے طرح طرح کے خیالات آتے تھے۔یہ خیالات اس کی بعد کی زندگی میں بہت ثمرآور ثابت ہوئے۔وہ ابتداء میں ایک پادری کے نجی سکول میں پڑھتا تھا۔ ایک بار بیماری سے صحت یاب ہونے کے بعد اسے کوئی مسئلہ نہ ہوا۔حتیٰ کہ یونیورسٹی کے زمانے میں وہ بہترین ایتھلیٹ بھی بنا۔ٹرینیٹی کالج ڈبلن سے ریاضی میں بی اے کرنے کے بعد وہ عملی زندگی میں مصروف ہوگیا۔اس عرصے کے دوران اس نے کئی قسم کی کہانیاں لکھیں ۔ اس نے نان فکشن بھی لکھا اور مختلف مصروفیات میں مشغول رہا جن کی تفصیل طولانی ہے۔

1878 میں برام سٹوکر نے فلورنس بالکومب سے شادی کی جو کہ لیفٹننٹ کرنل جیمز بالکومب کی بیٹی تھی۔ وہ بہت خوبصورت عورت تھی جس کا پہلا امیدوار بھی ایک عظیم ادیب اور شاعر آسکر وائڈتھا۔سٹوکر ، آسکر وائلڈ کو زمانہ طالب علمی سے جانتا تھا۔ وہ فلورنس کی سٹوکر سے شادی پر اداس تھا تاہم بعدازاں اس کے سٹوکر کے ساتھ تعلقات بہتر ہوگئے اور وہ دوبارہ دوست بن گئے۔سٹوکر فلورنس سے ایک بیٹے کا باپ بھی بنا۔دوسری جانب ارونگ سے تعلق کی وجہ سے سٹوکر کا معاشرے کے رئیس طبقے میں بھی اٹھنا بیٹھنا بڑھ گیا۔ یہاں پر اس کی ملاقات جیمز ایبٹ اور سر آرتھر کونن ڈائل جیسے ادیبوں سے ہوئی۔ اس طرح برام سٹوکر بھی معاشرے میں اہم مقام رکھنے لگا۔یہیں پر اس کی ملاقات ہال کین سے بھی ہوئی اوراپنا مشہور ناول ’’ڈریکولا‘‘ اس نے اسی کے نام منسوب کیا۔

ارونگ کی وجہ سے سٹوکر کو دنیا بھر کی سیر کاموقع ملا لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ وہ کبھی مشرقی یورپ نہیں گیا جو کہ اس کے مشہور ترین ناول ’’ڈریکولا‘‘ کا علاقہ تھا۔سٹوکر نے امریکہ کی خوب سیر کی جہاں ارونگ بہت مقبول تھا۔ارونگ کی وجہ سے ہی اسے وائٹ ہاؤس جانے اور امریکی صدر روزویلٹ سے ملنے کا موقع بھی ملا۔اس نے امریکی پس منظر اور کرداروں کے ساتھ دو ناول لکھے۔

جن دنوں میں برام سٹوکر ، اداکار ارونگ کا سیکریٹری اور لندن کے لائسیم تھیئٹر کا ڈائریکٹر تھا ، اس نے ناول لکھنے شروع کیے جس کا آغاز 1890میں The Snake’s Pass اور 1897 میں Draculaسے ہوا۔ان دنوں سٹوکر ’’ڈیلی ٹیلی گراف‘‘ لندن کے ادبی سٹاف کا بھی حصہ تھا جب اس نے دیگر افسانے بشمول ڈراؤنے ناول The Lady of the Shroud اورThe Lair of the White Worm لکھے۔اس نے ارونگ کی وفات کے بعد اس کی سوانح عمری بھی لکھی۔

ڈریکولا لکھنے سے پہلے سٹوکر کی ملاقات ہنگری کے ایک ادیب اور سیاح آرمن ویمبری سے ہوئی۔یوں لگتا ہے کہ ڈریکولا اسی ادیب کی کارپاتھیان کی پہاڑیوں کے پس منظر میں لکھی جانے والی ڈراؤنی کہانیوں سے متاثر تھا۔ اس کے بعد سٹوکر نے کئی سال یورپی لوک کہانیوں اور خون پینے والی بلاؤں سے متعلق تصوراتی کہانیوں پر تحقیق میں گذارے۔ ڈریکولا کی کہانی مکتوباتی شکل میں تھی یعنی اس کو فرضی ڈائریوں ، ٹیلی گرام ، خطوط ، بحری جہاز کے رجسٹروں اور اخباری تراشوں کی شکل میں لکھا گیا تھا۔اس طریقے سے کہانی لکھنے کی وجہ سے یہ حقیقت کا گمان پیش کرتی تھی۔یہ کہانی لکھنے کا ایسا طریقہ تھا جو سٹوکر نے اخبارمیں کام کرنے کے دوران سیکھا تھا۔’’ڈریکولا‘‘ کو اس کی اشاعت کے بعد ایک سیدھا سادہ ڈراؤنا ناول کہا گیا جو کہ ایک ماورائی زندگی کی تصوراتی تخلیق کی بنیاد پر لکھا گیا تھا۔نقادوں کے مطابق اس نے ایک عالمی فینٹیسی کی شکل اختیار کرلی اور پاپولر کلچر کا حصہ بن گیا۔

ڈریکولا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا اصلی 541 صفحات پر مشتمل مسودہ گم ہوگیا تھا جو1980 کی دہائی میں امریکی ریاست پنسلوینیا سے ملا۔یہ ٹائپ شدہ تھا اور جگہ جگہ سے تصیح شدہ تھا۔ اس کے پہلے صفحے پر ہاتھ سے ’’UN-DEAD‘‘ لکھا تھا لیکن یہ ’’ڈریکولا‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔اس کے نیچے مصنف کا نام برام سٹوکر لکھا تھا۔اس نایاب مسودے کو مائیکرو سافٹ کے شریک بانی پال ایلن نے خرید لیا تھا۔

برام سٹوکر کی پرورش پروٹسٹنٹ کے طور پر ہوئی۔وہ لبرل پارٹی کا سرگرم حامی تھا اور آئرلینڈ کے معاملات میں ہرممکن دلچسپی لیتا تھا۔وہ آئرلینڈ کی خودمختاری کا حامی تھا لیکن شدت سے اس بات کا بھی حامی تھا کہ آئرلینڈ کو سلطنت برطانیہ کا حصہ ہی رہنا چاہیے کہ اس کے نزدیک یہ سلطنت ’’نیکی کی طاقت‘‘ تھی۔سٹوکر سائنس اور میڈیسن میں زبردست دلچسپی رکھتا تھا اور ترقی پسند تھا۔اس کے کچھ ناولوں کو ابتدائی سائنس فکشن قرار دیا جاتا ہے۔اس کا ماننا تھا کہ توہم پرستی کو ختم ہونا چاہیے اوران کی جگہ سائنسی تصورات کو ملنی چاہیے۔

برام سٹوکر کا انتقال ہوا تو اس کی بیوی فلورنس سٹوکر نے 1914 میں اس کی کہانیوں کے مجموعےDracula’s Guest and Other Weird Stories کو شائع کرایا۔ڈریکولا پر جب پہلی فلم بنائی گئی تو اس کا نام Nosferatu تھا۔اس وقت برام سٹوکر کی بیوہ حیات تھی۔اس نے فلم کے خلاف مقدمہ دائر کردیا اور الزام لگایا کہ فلم کو اس کی اجازت لیے بغیر بنایا گیا اور اسے کسی قسم کی رائلٹی نہیں دی گئی۔مقدمہ کئی سال تک چلتا رہا ۔ فلورنس نے فلم کے نیگیٹیو اور تمام پرنٹس ضائع کرنے کا مطالبہ کیا۔ آخر کار 1925 میں اس نے مقدمہ جیت لیا۔ تاہم فلم کی کچھ کاپیاں بچ گئیں اور فلم بہت مشہور ہوئی۔

ڈریکولا پر پہلی باضابطہ اور اجازت شدہ فلم دس سال بعد جاکر بنی جو کہ یونیورسل سٹوڈیو کی جانب سے بنائی گئی تھی۔اب تک ڈریکولا کے حوالے سے دنیا بھر میں سینکڑوں فلمیں بنائی جاچکی ہیں۔ہزاروں کہانیاں اور ناول اس کے علاوہ ہیں۔لیکن اس کردار کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی۔اب ڈریکولا کے کردار کو نئے نئے اور جدید سے جدید تناظر میں پیش کیا جارہا ہے۔ ’’بلیڈ‘‘ اور ’’انڈر ورلڈ‘‘ جیسی فلمیں اس کی ایک مثال ہیں۔ اس طرح ایک اور ہٹ فلم ’’وان ہیلسنگ‘‘ ہے جس میں ڈریکولا کے بجائے مرکزی موضوع ویمپائرز کے شکاری وان ہیلسنگ کو بنایا گیا ہے۔حالانکہ برام سٹوکر کے ناول میں وان ہیلسنگ مرکزی کردار نہیں۔ وہ ایک ڈچ پروفیسر ہے جو خون پینے والی بلاؤں کا شکار کرتا ہے اور انسانوں کو ان سے بچانا چاہتا ہے۔

ڈریکولا کے کاپی رائٹس کے حوالے سے برام سٹوکر مختلف تنازعات میں الجھا رہا تھا۔ان تنازعات کی تاریخ کے حوالے برام سٹوکر کے ایک پڑپوتے اور کینیڈین مصنف ڈیکرے سٹوکر نے سکرین رائٹر ایان ہولٹ کی جانب سے حوصلہ افزائی کے بعد ڈریکولا کی اگلی قسط لکھنے کا فیصلہ کیا۔ چونکہ اس کے مصنف کے ساتھ ’’سٹوکر‘‘ کا لاحقہ لگا ہو، اس لیے یہ اوریجنل ناول کا اصل سلسلہ کہلایا۔2009 میں ’’ڈریکولا: دی ان ڈیڈ‘‘ ریلیز ہوئی جسے ڈیکرے سٹوکر اور ایان ہولٹ نے لکھا تھا ۔ یہ فلم کامیاب رہی اور ڈیکرے سٹوکر کا تحریری ڈیبیو بھی بنی۔

افسانہ اور حقیقت
اگرچہ ’’ڈریکولا‘‘ایک تصوراتی کہانی ہے تاہم اس کو کچھ حقیقی تاریخی حوالوں سے بھی جوڑا جاتا ہے۔ تاہم یہ معاملہ تاحال بحث کا موضوع ہے۔کہا جاتا ہے کہ ویلاڈ سوئم ٹرانس سلوانیہ کے یورپی خطے کا ایک جاگیردارتھا اور اسی کو ڈریکولا کہا جاتا تھا۔یہ ایک ظالم اور سفاک جاگیردار تھا۔ ویلاڈ کے مرکزی دور کے دوران کہا جاتا ہے کہ ’’ویلاڈ ، گاڑنے والا‘‘ کے نام سے مشہور اس جاگیردار نے لگ بھگ چالیس ہزار سے لے کر ایک لاکھ افراد کو قتل کیا جو کہ زیادہ تر اس کے سیاسی مخالف ، جرائم پیشہ افراد اور وہ لوگ تھے جنہیں وہ انسانیت کے لیے بے کار سمجھتا تھا۔

وہ ان کو اپنے مخصوص طریقے سے قتل کرتا تھا جس کے تحت انہیں ایک تیز دھار کھمبے میں پرو دیا جاتا تھا۔ روایات کے مطابق وہ اپنے دشمنوں کا خون بھی پیتا تھا۔ ٹرانس سلوانیہ میں آباد ہونے والے سیکسن آبادکاروں کی تحریروں سے بھی ان واقعات کے شواہد ملتے ہیں تاہم اس میں مبالغہ آرائی بھی ہوسکتی ہے کیونکہ سیکسن آباد کاروں کی بھی ویلاڈ سوئم سے لڑائیاں عام تھیں۔کہا جاتا ہے کہ رومانیہ کے لوگوں کے نزدیک ویلاڈ سوئم ہیرو تھا کیونکہ اس نے حملہ آور ترکوں کو اپنے خطے سے نکال باہر کیا تھا۔ مبینہ طور پر اس نے جن افراد کو اپنے مخصوص طریقے سے قتل کیا تھا ان میں ایک لاکھ کے قریب عثمانی ترک بھی شامل تھے۔

ڈریکولا کے نام کی وجہ تسمیہ کے مطابق ویلاڈ سوئم کے والد کو عیسائیت کے دفاع کے لیے قائم ڈریگن فرقے سے تعلق کی بناء پر ’’ویلاڈ دوئم ڈراکول‘‘ کہا جاتا تھا اور اسے یہ نام ترکوں کے خلاف بہادری سے لڑنے پر دیا گیا تھا اور اس کا مطلب بھی بہادر اور دلیر تھا۔ویلاڈ سوئم نے جب اپنے باپ کی جگہ لی تو وہ ویلاڈ سوئم کے ساتھ ساتھ ’’ڈریکولا‘‘ کہلایا جس کا مطلب تھا ’’ڈراکول کابیٹا‘‘۔اس کے سکوں پر بھی یہی نام شائع ہوا۔

برام سٹوکر جن دنوں رومانیہ کی تاریخ پڑھ رہا تھا ، تو اس کے سامنے ’’ڈریکولا‘‘ کا نام آیا تو اسے یہ اتنا پسند آیا کہ اس نے پہلے نام ’’کائونٹ ویمپائر‘‘ کی جگہ اس کا نام ’’کائونٹ ڈریکولا‘‘ رکھ دیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔