راج کمار: بولی وڈ کا ناقابل فراموش اداکار

مرزا ظفر بیگ  اتوار 29 دسمبر 2013
راج کمار نے اپنے کیریئر کا آغاز 1940کی دہائی کے اواخر میں بمبئی پولیس میں ایک سب انسپکٹر کی حیثیت سے کیا تھا۔ فوٹو : فائل

راج کمار نے اپنے کیریئر کا آغاز 1940کی دہائی کے اواخر میں بمبئی پولیس میں ایک سب انسپکٹر کی حیثیت سے کیا تھا۔ فوٹو : فائل

راج کمار بولی وڈ کے وہ اداکار ہیں جنہوں نے اپنی خوب صورت اداکاری اور پرکشش آواز کے سبب بولی وڈ پر کئی دہائیوں تک حکم رانی کی۔ مخصوص لہجے، منفرد انداز اور ڈائیلاگ ڈلیوری میں کمال کے باعث ان کے ہم عصر ان کے سامنے گونگے ہوجاتے تھے۔

راج کمار نے اپنے کیریئر کا آغاز 1940کی دہائی کے اواخر میں بمبئی پولیس میں ایک سب انسپکٹر کی حیثیت سے کیا تھا۔ اس کے بعد وہ اداکاری کی طرف مائل ہوگئے، جس کے نتیجے میں 1952میں ان کی پہلی فلم ’’رنگیلی‘‘ منظر عام پر آئی جو اوسط درجے کی فلم ثابت ہوئی، خاص طور سے اس میں ان کے بولنے کے منفرد انداز کو فلم بینوں نے بہت پسند کیا۔ اس کے بعد وہ بولی وڈ کی لازوال فلم ’’مدر انڈیا‘‘ میں جلوہ گر ہوئے جو آسکر ایوارڈز کے لیے بھی نام زد ہوئی تھی۔ یہ فلم 1957میں آئی تھی۔ اس فلم نے برصغیر کی فلمی تاریخ میں زبردست شہرت حاصل کی اور اسی کی وجہ سے راج کمار کو بھی شہرت ملی جس کے باعث انہوں نے کام یابی کی اس شاہراہ پر ایسا قدم رکھا کہ پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ان کا فلمی کیریئر کم و بیش چار عشروں پر محیط رہا اور اس عرصے میں انہوں نے بولی وڈ کی 70سے زیادہ فلموں میں کام کرکے فلم بینوں اور ناقدین سے خود کو ایک ورسٹائل فن کار تسلیم کرایا۔

٭ذاتی زندگی:
راج کمار بلوچستان کے ایک علاقے میں 8اکتوبر1926ء کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کا پیدائشی نام کل بھوشن پنڈت تھا۔ شروع میں وہ اپنے آبائی علاقے میں ہی رہے، مگر بعد میں ان کا بھی دل چاہا کہ وہ کوئی انوکھا اور منفرد کام کریں۔ مگر اس کے لیے انہیں اپنے علاقے سے باہر جانا تھا۔ پھر 1940کی دہائی کے آخر میں راج کمار بمبئی پہنچے اور وہاں پولیس کے محکمے میں بھرتی ہوگئے اور ایک سب انسپکٹر کی حیثیت سے فرائض انجام دینے شروع کیے۔ اس دور میں یہ ایک بڑی اور اہم جاب تھی۔ بے شک انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز تو ایک سب انسپکٹر کی حیثیت سے کیا تھا، مگر شروع سے ہی ان کے اندر کا فن کار انہیں بے چین رکھتا تھا۔ وہ اسے تھپک تھپک کر مطمئن کرنے کی کوشش کرتے تھے، مگر وہ نہیں مانتا تھا، یہ وہ بے چینی اور بے کلی تھی جو اظہار چاہتی تھی۔ شاید ان کے اندر چھپے ہوئے آرٹسٹ کی یہ بے چینی ہی تھی جس نے انہیں بمبئی کی فلم انڈسٹری کی طرف بھیج دیا۔ اس زمانے میں اس انڈسٹری کو بولی وڈ کے بجائے بمبئی فلم انڈسٹری کہا جاتا تھا۔ بہرحال راج کمار کے اندر پوشیدہ آرٹسٹ نے انہیں پریشان کیا اور انہیں خوب سے خوب تر کی تلاش پر مجبور کیا، اس طرح بولی وڈ کو ایک بے مثال اداکار مل گیا۔

٭شادی اور بچے:
1960کے عشرے میں راج کمار نے گائتری سے شادی کرلی۔ ان کے تین بچے تھے۔ دو بیٹے اور ایک بیٹی۔ بڑے بیٹا کا نام پورو راج کمار ہے جس نے اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بولی وڈ میں اداکاری بھی کی، مگر اسے کام یابی نہیں مل سکی۔ اس سے چھوٹا بیٹا پنینی راج کمار ہے اور بیٹی واستویکتا راج کمار نے بھی پردۂ سیمیں پر اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اس کی پہلی فلم 2006میں آئی تھی، مگر وہ فلم بینوں کے معیار پر پوری نہیں اترسکی۔ گویا راج کمار کی اولاد ان کی طرح فلم انڈسٹری میں کام یاب نہ ہوسکی۔

٭فلمی کیریئر:
راج کمار کی پہلی فلم ’’رنگیلی‘‘ تھی جس کے بعد وہ ’’آبشار‘‘، ’’گھمنڈ‘‘ اور ’’لاکھوں میں ایک‘‘ اور اوسط درجے کی کام یابیاں سمیٹتے رہے۔ مگر سہراب مودی کی فلم ’’نوشیروان عادل‘‘ میں انہوں نے شہزادہ نوشاد کا لازوال کردار ادا کرکے فلم سازوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ اس کردار نے انہیں بے مثال شہرت بخشی۔ اس کے بعد 1957میں آنے والی فلم ’’مدر انڈیا‘‘ میں انہوں نے اداکارہ نرگس کے شوہر کا مختصر مگر بھرپور کردار ادا کرکے اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ ان کے ساتھ اس فلم میں سبھی بڑے اسٹار تھے جیسے خود نرگس، راجندر کمار، سنیل دت وغیرہ۔

مگر راج کمار کا کردار سب سے منفرد تھا۔ اس کے بعد انہوں نے فلم ’’پیغام‘‘ میں بھی ایک غیررومانی کردار کیا جو ایک مل ورکر کا تھا۔ اس فلم میں راج کمار کے سامنے اپنے وقت کے بڑے اداکار دلیپ کمار بھی تھے، مگر راج کمار کسی بھی مرحلے پر دلیپ کمار سے مرعوب دکھائی نہیں دیے۔ اس کے بعد یش چوپڑا کے فیملی ڈرامے ’’وقت‘‘ میں راج کمار کو سنیل دت، ششی کپور، سادھنا، شرمیلا ٹیگور اور بلراج ساہنی جیسی بڑی کاسٹ کے ساتھ لیا گیا۔ اس فلم میں انہوں نے اپنی اداکارانہ مہارت کے جوہر دکھائے اور کئی مقامات پر ساتھی اداکاروں پر برتری بھی حاصل کی۔ یہ فلم نہایت کام یاب ثابت ہوئی۔ سری دھر کی فلم ’’دل ایک مندر‘‘ میں راج کمار نے کینسر کے مریض کا کردار ادا کیا تھا۔ فلم میں ان کے سامنے ڈاکٹر کے روپ میں راجندر کمار تھے جو دور طالب علمی میں کینسر کے مریض کی بیوی (میناکماری) سے عشق کرتے تھے۔

وہ دونوں شادی کرنا چاہتے تھے مگر میناکماری کی شادی کینسر کے مریض (راج کمار) سے کردی گئی۔ اتفاق سے اس کا علاج میناکماری کے محبوب (راجندر کمار) کو کرنا پڑا۔ یہ بڑی جذباتی فلم تھی جس کے ایک ایک منظر نے فلم بینوں کو اپنی طرف متوجہ کیے رکھا۔ اس فلم کے گیت بھی بہت خوب صورت تھے جو آج تک بڑے شوق سے سنے جاتے ہیں۔ بہرحال راج کمار نے کینسر کے مریض کا لازوال کردار ادا کرکے بیسٹ سپورٹنگ ایکٹر کی کیٹیگری کا فلم فیئر ایوارڈ جیتا۔ اسی طرح انہوں نے فلم ’’وقت‘‘ کے لیے بھی بہترین معاون اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ لیا تھا۔ اس کے بعد تو راج کمار کی ہر طرف دھوم مچ گئی۔

اس دور کے نوجوان ان کے مکالمے ادا کرنے کے انداز سے اس قدر متاثر ہوئے کہ جگہ جگہ ان کی طرح بولتے دکھائی دینے لگے۔ ان کی ڈائیلاگ ڈلیوری کا انداز سب سے منفرد تھا۔ فلم ’’وقت‘‘ میں انہوں نے ایک ڈائیلاگ بولا تھا:’’چنائے سیٹھ! جن لوگوں کے گھر شیشے کے ہوں، وہ دوسروں پر پتھر نہیں پھینکا کرتے۔‘‘

ان کی دیگر مشہور فلموں میں ہمراز(1967) ہیر رانجھا(1970) لال پتھر(1971) اور پاکیزہ (1972)شامل تھیں۔
1970کی دہائی کے وسط تک راج کمار نے محدود فلموں میں کام کیا تھا جس کی وجہ سے وہ ایک منفرد کیریکٹر ایکٹر بن کر سامنے آئے۔

1980کی دہائی میں ان کی فلمیں قدرت (1981)ایک نئی پہیلی(1984) مرتے دم تک (1987) مقدر کا فیصلہ (1987) اور جنگ باز (1989) شامل ہیں۔

تین دہائیوں تک بولی وڈ کی دو لیجنڈ یعنی دلیپ کمار اور راج کمار الگ الگ اپنی اداکارانہ صلاحیتوں کے جوہر دکھاتے رہے، مگر لگ بھگ 32سال بعد 1991میں ’’سوداگر‘‘ فلم کے ذریعے دونوں ایک بار پھر یک جا ہوئے۔ انہیں فلم میں ایک ساتھ کاسٹ کرنے والے سبھاش گھئی تھے۔ ان دونوں نے اس فلم میں ایک ساتھ کام کیا اور خوب انجوائے کیا۔

اپنی پہلی فلم ’’رنگیلی‘‘ کے بعد راج کمار نے اپنی زندگی کی آخری فلم ’’گاڈ اینڈ گن‘‘ میں کام کیا جو 1995میں آئی تھی۔ انہوں نے اپنے پورے فلمی کیریئر کے دوران لگ بھگ 60 فلموں میں مختلف نوعیت کے کردار کیے جن میں ڈاکو کا کردار بھی تھا، نواب کا بھی، ایک چور کا کردار بھی تھا اور ایک عاشق کا بھی۔ کئی فلموں میں انہوں نے شرابی کے ایسے کردار کیے جن پر حقیقت کا گماں ہوتا تھا۔ انہوں نے جو کردار بھی کیے، ان میں ڈوب گئے۔ ان کی نشست و برخاست، چلنا پھرنا، بولنا، ہنسنا، رونا، غرض ہر انداز ہی نمایاں اور منفرد تھا۔ انہوں نے نواب بن کر بھی دلوں کو گرمایا تو ایک معمولی مزدور، کسان بن کر بھی یادگار پرفارمنس دی۔ ان کے سامنے اس عہد کے بڑے آرٹسٹ بھی آئے جن میں دلیپ کمار، راجندر کمار، سنیل دت، میناکماری وغیرہ شامل تھیں، مگر کسی بھی مقام پر انہوں نے دوسرے آرٹسٹوں سے کم پرفارمنس نہیں دی، اسی لیے اپنی لازوال اداکاری کے سبب وہ آج بھی بولی وڈ میں یاد کیے جاتے ہیں۔

٭موت:
راج کمار 3جولائی 1996ء کو گلے کے کینسر کی وجہ سے انتقال کرگئے۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 69 سال تھی۔ ان کی موت کے چند ماہ بعد ان کے بیٹے پورو راج کمار نے اپنی پہلی فلم ’’بال برہمچاری‘‘ بنائی، جو بعد میں اسی سال ریلیز ہوئی۔ شاید اسی لیے پورو راج کمار نے اپنی یہ فلم اپنے آنجہانی باپ کے نام کردی۔

٭فلموگرافی:
راج کمار کے کیریر میں یہ فلمیں شامل ہیں: رنگیلی، آبشار، گھمنڈ، مدر انڈیا، کرشنا سداما، نوشیروان عادل، نیل مانی، دلہن، جیلر، پنچایت، اردھانگنی، درگا ماتا، پیغام، شرارت، سورگ سے سندر دیش ہمارا، اجالا، دل اپنا اور پریت پرائی، مایا مچھندرا، گھرانا، سوتیلا بھائی، آج اور کل، دل ایک مندر، گودان، پھول بنے انگارے، پیار کا بندھن، دوج کا چاند، زندگی، وقت، کاجل، اونچے لوگ، رشتے ناتے، ہمراز، نئی روشنی، میرے حضور، نیل کمل، واسنا، ہیر رانجھا، لال پتھر، مریادا، پاکیزہ، دل کا راجہ، ہندوستان کی قسم، 36 گھنٹے، ایک سے بڑھ کر ایک، کرم یوگی، بلندی، چمبل کی قسم، قدرت، دھرم کانٹا، ایک نئی پہیلی، راج تلک، شرارہ، اتہاس، مرتے دم تک، مقدر کا فیصلہ، مہاویر، محبت کے دشمن، سازش، دیش کے دشمن، جنگ باز، گلیوں کا بدمعاش، سوریہ : این اواکننگ، پولیس پبلک، سوداگر، ترنگا، انسانیت کا دیوتا، پولیس اور مجرم، الفت کی نئی منزلیں، بے تاج بادشاہ، جواب، گاڈ اینڈ گن اور بکواس۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔