سبق

ایم جے گوہر  اتوار 27 دسمبر 2020

جنوبی ایشیا کی یہ بدقسمتی ہے کہ خطے کے دو اہم ایٹمی ممالک پاکستان اور بھارت کے درمیان اپنے قیام سے آج تک قابل اعتماد اور خوشگوار تعلقات قائم نہ ہوسکے۔ اول دن سے بھارتی حکمران پاکستان کے خلاف سازشوں کے جال بنتے چلے آ رہے ہیں۔ بالخصوص بھارتیہ جنتا پارٹی جوکٹر ہندو ازم کی پرچارک ہے۔ جب بھی برسر اقتدار آتی ہے پاکستان مخالف سرگرمیوں میں تیزی سے اضافہ ہونے لگتا ہے۔

بی جے پی کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی انتہا پسند ، متعصب اور منتقمانہ مزاج رکھنے والے حکمران ہیں۔ بھارت کی دوسری اقلیتوں کے مقابلے میں مسلمانوں کے خلاف مودی کے عزائم انتہائی خوفناک ہیں۔ گزشتہ سال 5 اگست کے جارحانہ اقدام کے بعد مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں کے خلاف بھارتی فوجیوں کی متشدد کارروائیوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

مودی مقبوضہ وادی میں مسلمہ مسلمان اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے پے درپے اقدامات اٹھا رہا ہے۔ اس کے پہلو بہ پہلو بھارت کے اندر بھی مسلمان اقلیتوں کے خلاف انتہا پسند ہندوؤں کی پرتشدد کارروائیاں جاری ہیں جس کے باعث بھارت کا سیکولرازم کا دعویٰ نقش برآب ثابت ہوا ہے۔ دوسری جانب بھارتی فوج تواترکے ساتھ لائن آف کنٹرول کی نہ صرف خلاف ورزیاں کر رہی ہے بلکہ بھارت پاکستان کے خلاف جعلی فلیگ آپریشن کی بھی تیاری کر رہا ہے۔

وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے عالمی برادری کی توجہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے پاکستان مخالف امکانی جارحانہ عزائم کی جانب مبذول کراتے ہوئے واضح کردیا ہے کہ اگر بھارت نے کوئی حماقت کی تو اسے منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ انھوں نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ کنٹرول لائن پراقوام متحدہ کے فوجی مبصرکی گاڑی جس پر اقوام متحدہ کا واضح نشان اور نیلا پرچم لہرا رہا تھا کو نشانہ بنانا عالمی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے، بھارت کا یہ اقدام اس بات کی علامت ہے کہ وہ کسی بھی عالمی قانون اور ادارے کا احترام کرنے کا پابند نہیں ہے۔

پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب نے ادارے کے سیکریٹری جنرل اور صدر سلامتی کونسل کے نام اپنے خطوط میں صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اقوام متحدہ کی گاڑی پر بھارتی فوجیوں کا حملہ درحقیقت یو این مشن کے کام میں رکاوٹ ڈالنے اور پاکستان کے خلاف ایک اور مہم جوئی کی سازش ہے۔

خط میں واضح کیا گیا ہے کہ آر۔ایس۔ایس، بی جے پی حکومت اپنے اندرونی مسائل و مشکلات سے توجہ ہٹانے کے لیے اور پاکستان کے خلاف کسی اور مہم جوئی کا جواز پیدا کرنے کے لیے جعلی فلیگ آپریشن کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران نے بھی اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت اقتصادی کساد بازاری، کسانوں کے بڑھتے ہوئے احتجاج اور کووڈ 19 سے نمٹنے کی غلط حکمت عملی سے توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان کے خلاف جعلی فلیگ آپریشن کرسکتا ہے۔

مبصرین اور تجزیہ نگار بھی اس امر پر متفق ہیں کہ بھارت اس وقت اندرونی مسائل میں بری طرح جکڑا ہوا ہے۔ بد ترین معاشی صورتحال،کورونا سے بڑھتے ہوئے مسائل، مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف تشدد آمیز کارروائیاں اس پہ مستزاد کسانوں کی مودی کی زرعی پالیسی کے خلاف احتجاجی تحریک نے بھارتی حکومت کو ادھ موا کر رکھا ہے۔

بھارت کو جب کوئی راستہ ، اندرونی مسائل سے نکلنے کا سجھائی نہیں دیتا تو وہ سارا غصہ پاکستان کے خلاف جارحانہ بیانات اور لائن آف کنٹرول پر خلاف ورزیوں کی صورت میں نکالنے لگتا ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق بھارت کی جانب سے 2020 میں لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر سیزفائرکی تین ہزار مرتبہ خلاف ورزی کی جا چکی ہے۔ بلااشتعال فائرنگ کے نتیجے میں خواتین و بچوں سمیت 270 سے زائد افراد زخمی و شہید ہوچکے ہیں لیکن ایل او سی کی خلاف ورزیاں تاحال جاری ہیں۔

بھارت کی امکانی جارحیت کے خلاف منہ توڑ جوابی کارروائی کے لیے پاک فوج پوری طرح تیار ہے۔ بھارت27 فروری اور ابھی نندن کو ابھی بھولا نہیں ہوگا۔ ہمارے جاں باز دشمن کو عبرت ناک انجام سے دوچارکرنے اورکبھی نہ بھولنے والا سبق سکھانے کے لیے پوری طرح چوکس اور ہوشیار ہیں۔

یہاں یہ حقیقت اہل وطن کے پیش نظر رہنی چاہیے کہ جب بیرونی دشمن جارحیت کے لیے پر تول رہا ہو، سروں پر خطرات منڈلا رہے ہوں، محاذوں پر چنگاریاں سلگ رہی ہوں تو ایسی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اندرون وطن تمام قوم سیسہ پلائی دیوار کی مانند پاک فوج کی پشت پرکھڑی ہوجائے۔ قومی زندگی کے تمام شعبے، طبقے اور افراد حکومت کے ساتھ قدم سے قدم ملا کرکھڑے ہوں۔

سوال یہ ہے کہ کیا آج اندرون وطن تمام قوتیں متحد ہیں؟ کیا حکومت، اپوزیشن اور ریاستی ادارے سب ایک صف میں کھڑے ہیں؟ کیا ہمیں 16 دسمبر 1971 کا سبق یاد ہے؟ کیا ہم نے بحیثیت قوم اپنے ماضی کے حوادث سے کچھ سبق سیکھ لیا ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔