میرا کیا قصور

جاوید قاضی  اتوار 27 دسمبر 2020
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

کس طرح لکھے گا مورخ ان لوگوں کی آپ بیتی، نہ کھایا نہ پیا،گلاس توڑا بارہ آنے۔ گناہ کیا،نہ جزا ملی، صرف سزا ملی۔اس شخص کی طرح جو دارکی خشک ٹہنی پر وارا گیا، نیم تاریک راہوں پہ مارا گیا۔

شاید وہ کہانی قرۃ العین حیدرکی تھی جو میں نے مدد علی سندھی کی ترجمہ کی ہوئی پڑھی تھی، جس میں ایک سائیکل سوار، سائیکل پر دنیا گھومنے نکلتا ہے اور بلآخر ویت نام کی سرحد پارکرتے ہوئے کسی گمنام گولی کا نشانہ بن جاتا ہے۔ تب ہی توکہا تھا مارٹن لوتھرکنگ نے کہ ناانصافی ایک کونے میں ہوتی ہے اور پھیلتی دوسرے کونے تک ہے، تب ہی توکہا تھا کبیر نے۔

میرا مجھ میں کچھ نہیں جوکچھ ہے سوتیرا

تیرا تجھ کو سونپ دیں کیا لاگے ہے میرا

خان صاحب نے جو باتیں کیں شاید سب بے خودی میں کیں۔ ڈھائی سال کے دورحکومت میں جو باتیں انھوں نے کیں، یو ٹرن سے لے کر لوگ اگر خودکشی کررہے ہیں تو وہ کیا کریں ؟ مگر یہ جو انھوں نے کہا ہے کہ حکومت میں آنے سے پہلے تیاری کرنی ہو تی ہے کہ حکومت کس طرح کرنی ہے؟ اور یہ کہ تین ماہ تک ان کو پتہ ہی نہ چلا کہ ہوکیا رہا ہے؟ ادھر ہاتھ ڈالتے تھے تو چیزیں ادھرکو چلی جاتی تھیں اور جب ادھرکو ہاتھ ڈالتے تو چیزیں وہاں سے بھی پھسل جاتی تھیں۔

اقتدار کے اس جھگڑے میں مارا کون گیا ؟ صرف غریب! جو اس ملک کا90فیصد ہے، بس تجربات ہی کیے گئے۔ ایک انجینئرنگ پر دوسری انجینئرنگ کی گئی کہ ہم1970کے شفاف انتخابات کے ڈسے ہوئے تھے۔اس وقت شیخ مجیب کا نعرہ بلند تھا۔ بیوقووں نے انتخابات کروائے اس رپورٹ کے تحت کہ مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی کا پلڑا بھاری ہے۔ ووٹ کو عزت دی گئی تھی پھر جو انتخابات کا نتیجہ آیا اور ووٹ کی وہ کی گئی کہ مشرقی پاکستان ہی چلا گیا ۔

کیا یہ سنہری موقع ہندوستان چھوڑ دیتا، اس نے اپنی سازشوں کا بازارگرم کیا اورکود پڑا مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان اور مشرقی پاکستان کا سقوط ہوا۔ مشرقی پاکستان کے اس ووٹ کو بے عزت کرنے میں مغربی پاکستان کا ووٹ بھی شامل تھا اور ہم بھی مجرم ٹھہرے۔ فیض اس ندامت سے خوب آشنا تھے، ’’ڈھاکا سے واپسی ‘‘ کے عنوان سے لکھی ہوئی ان کی نظم میں:

ہم کے ٹھہرے اجنبی کتنی مداراتوں کے بعد

پھر بنیں گے آشنا،کتنی ملاقاتوں کے بعد

کارکردگی نہ ہی نواز شریف کی اچھی تھی نہ ہی ، ہمارے زرداری صاحب کی مگر یہ لوگوں کے منتخب کردہ حکمراں ضرور تھے اور اس کی جزاوسزا بھی لوگوں کو ہی آنی چاہیے کیونکہ ان کو منتخب کرنے والے خود لوگ ہی ہیں، مگر خان صاحب تو یہ کہہ گئے کہ مجھے اقتدار تو دے دیا مگر انھوں وہ سب نہیں کیا جو ہم کرکٹرز،کرکٹ کے میدان میں نئے کھلاڑی کو نیٹ پریکٹس میں کروایا کرتے تھے۔ اب اگر ایسا ہوجائے کہ سب کچھ لٹا کر ہوش میں آئیں تو پھرکیا کیجیے۔کس تیزی سے پی ڈی ایم کا بیانیہ کرنسی بن گیا ۔’’ کرپٹ انڈہ آٹھ روپے، صادق اور امین انڈہ بیس روپے۔‘‘ چینی کی قیمت کہاں پہنچ گئی اور آٹے کی قیمت آسمانوں پر اور پھرگیس بھی صحیح وقت اور صحیح داموںپرخرید نہیں سکے۔

ہماری مجموعی پیداوار ان کے آنے سے پہلے 315ارب ڈالر تھی، ان کے آنے کے بعد یہ 264 ارب ڈالر رہ گئی۔ اب کورونا وائرس کے آنے کے بعد مزید نیچے گر چکی ہے اور خان صاحب فرماتے ہیں کہ لوگ خودکشیاں کررہے ہیں تو وہ کیا کریں!خان صاحب جب اقتدار میں آرہے تھے تو کیا ان کو اس بات کا علم نہ تھا کہ حکومت کیا ہوتی ہے ؟ وہ تو حکومت کوکہیں باہر سے دیکھ رہے تھے۔کیا بھٹو صاحب کوکسی نے بتایا تھا جب پہلی بار ان کی پارٹی اقتدار میں آئی تھی۔کیا بے نظیر صاحبہ کوکسی نے اسباق پڑھائے تھے کہ حکومت کیا ہے اورکس طرح چلانی ہے۔ بائیس سال سیاست میں گزارنے کے بعد بھی۔

ہم کیسی قوم ہیں ،دنیا میں سب سے نرالے کہ اتنے تلخ تجربوں کے بعد بھی کہاں آکر ٹھہرے ہیں۔گیس پائپ لائن ہمیں ایران نے سرحد تک لاکردی مگر ہم نے امریکا کے ڈر سے گنوا دی ۔ مہاتیر محمد ملائیشیا میں اقتدار میں آئے ،انھوں نے مسلمانوں کا نیا محاظ بنانا چاہا، مگر ہم اس سے بھاگ نکلے۔ اس وقت امریکا اور چین کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہو چکا ہے اور ہم اس جنگ کے درمیان کہیں بھنور میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں اور ہماری بے بسی کا یہ عالم ہے کہ نہ ہم امریکا سے منہ موڑ سکتے ہیں نہ چین کی دوستی چھوڑسکتے ہیں مگراس پسِ منظرمیں سب سے زیادہ نقصان کشمیر کا ہورہا ہے۔ یو اے ای اسرائیل کو تسلیم چکا ہے، کئی اور عرب ممالک بھی اسی راہ پر ہیں۔

ہمارے ہزاروں لوگ ان ممالک میں رہائش پذیر ہیں اور ہمارے بیرونی ذخائرمیں اپنا پیسہ ڈال رہے ہیں، اگر ہم ان ممالک سے الگ ہوکردنیا کے نظام میں آگے بڑھتے ہیں تو پھر جو چین کی بینکوں سے ہم نے قرضہ لے کر ان کو دیا اور چونکہ یہ قرضہ چین کی بینکوں نے ہمیں دنیا کے مہنگے ترین سودکی شرح پر دیا وہ ہم کس طرح واپس کر پائیں گے۔

بھلے ہی خان صاحب وزیراعظم ہائوس میں آرام پذیر رہیں۔ اگر یہی رویے رہے تو بہت دیر ہوجائے گی، ان رویوں کے ساتھ چلنا کسی بہت بڑے طوفان کو دعوت دینے کے برابر ہے۔ ایسا ہی بحران تھا وینزویلا میں اور وہاں کے لوگوں نے بلآخر ہجرتیں کیں۔ انھیں بحرانوں کے سبب شام کے لوگوں نے اپنا وطن چھوڑا اور ہجرت کی۔

یہ ہائبرڈ جمہوریت یا آمریت کا نظام اب زیادہ دیر چل نہیں سکتا۔ اب بندکیجیے، اس ملک کے غریبوں پر تجربے کرنا۔ خدارا واپس لوٹ آ ئیے اوراس ملک کو اس کے آئین کے مطابق چلائیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔