مولانا فضل الرحمن سیاسی مشکلات کی زد میں

تنویر قیصر شاہد  پير 28 دسمبر 2020
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

گیارہ جماعتی حکومت مخالف اتحاد’’پی ڈی ایم ‘‘ کا سربراہ بننا آسان اور سہل نہیں ہے ۔سو، حضرت مولانا فضل الرحمن اِس سربراہی کی قیمت ادا کررہے ہیں۔مولانا صاحب ، بے نظیر بھٹو مرحومہ کی برسی میں بوجوہ شریک نہیں ہُوئے ہیں تو ’’پی ڈی ایم‘‘ کے مخالفین نے اِسے بھی اسکینڈل بنانے اور مولانا فضل الرحمن اور بلاول بھٹو زرداری کو آمنے سامنے کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے۔

خبریں ہیں کہ کل بتاریخ 29دسمبر کو اسلام آباد میں مولانا کے کچھ سابق اور منحرف ساتھی اُن کے خلاف نئی صف بندی کرنے جا رہے ہیں۔ مولانا موصوف ’’پی ڈی ایم ‘‘ کے پلیٹ فارم سے حکومت کا ناطقہ جس طرح بند کرنے کی کوششیں کررہے ہیں ، ایسے میں ردِ عمل کے طور پر حکومت کو بھی مولانا فضل الرحمن کے خلاف شاید وہی ہتھکنڈے بروئے کار لانے چاہئیں جو وہ استعمال کرتی نظر بھی آ رہی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان جو پرانی کشیدگی چلی آرہی ہے، مولانا کے پی ڈی ایم کے صدر بننے کے بعد اس میں مزید اضافہ ہُوا ہے ۔ عمران خان حکومت کے خلاف اسلام آباد پر مولانا فضل الرحمن کی اولین چڑھائی کو بھی خان صاحب بھولے نہیں ہیں ۔

اگر یہ کہا جائے کہ ’’پی ڈی ایم‘‘ میں مولانا فضل الرحمن کو مرکزی مقام حاصل ہے تو بے جا نہیں ہوگا ۔ حکومت، طاقت کے اس مرکز کو توڑنے کی درپے ہے۔ جب بھی کوئی حکومت مخالف اتحاد معرضِ عمل میں آتا ہے ، اتحاد کی مخالف قوتیں بھی ساتھ ہی متحرک ہو جاتی ہیں ۔ان کی حتمی کوشش ہوتی ہے کہ حکومت کے خلاف اکٹھے ہونے والوں کا کسی بھی طرح تاروپود بکھیر دیا جائے۔مقدمات کی چھڑی بھی استعمال کی جاتی ہے ۔ الزامات کے جھکڑ بھی چلائے جاتے ہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ حکومت مخالف جمہوری قوتیں یکجا ہوجائیں اور حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہے۔

خان صاحب کی حکومت بھی خاموش نہیں ہے ۔اس کے ملکی و غیر ملکی دوست، بہی خواہ ’’پی ڈی ایم‘‘ اور اس کی قیادت کو منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی تتر بتر کرنے کی شدید آرزُو رکھتے ہیں ۔ اِسی حوالے سے چند دن پہلے ایک ’’خبر‘‘ شایع ہُوئی ہے کہ ’’ مولانا فضل الرحمن کے حالیہ کردار سے امریکا میں ناراضی اور ناخوشی پائی جاتی ہے۔‘‘ کیا اِس خبر یا تجزیے یا کسی کی خواہش پر مبنی الفاظ کو سنجیدہ لینا چاہیے ؟لیکن ہم سمجھ سکتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن کے حالیہ کردار سے کون کون، کہاں کہاں پریشان ہو رہا ہے ۔

اس ’’چاند ماری‘‘ ہی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت اور اس کے بہی خواہوں کو سب سے زیادہ خطرہ کس شخصیت سے محسوس ہورہا ہے ۔ حکومتی بیانیے سے لگتا یہی ہے کہ ’’پی ڈی ایم‘‘ نے حکمرانوں کے اعصاب پر خاصا دباؤ ڈال رکھا ہے ۔ اس دباؤ سے نجات کی آرزُو غیر فطری نہیں ہے ۔

مولانا فضل الرحمن کے خلاف ایک ہی روز میں  وزیر اعظم صاحب، حکومتی ارکان، وزیروں اور مشیروں  کے جو بیانات شایع ہُوئے ہیں ، وہ بھی دباؤ کی کیفیت کو ہی ظاہر کرتے ہیں۔  مثال کے طور پر :وزیر اعظم صاحب نے اپنے ترجمانوں سے خطاب کرتے  ہوئے کہا: ’’ مولانا فضل الرحمن نے اثاثے بنائے ، احتساب بھی ضروری ہے ۔‘‘ وزیر اعظم نے مولانا کے اثاثوں کا ذکر کیا تو ایک وفاقی وزیر نے اپنے دوسرے وفاقی وزیر ساتھی سے مل کر پریس کانفرنس کی اور مولانا فضل الرحمن کے مبینہ کروڑوں روپے مالیت کے کئی بنگلوں کی داستان ِ ہوشربا بیان کرتے ہُوئے کہا: ’’ان جائیدادوں کے بارے میں مولانا سے پوچھا جائے تو جواب نہیں دیا جاتا۔ اب وہ احتساب سے نہیں بچ سکتے۔‘‘ ساتھ ہی تیسرے وفاقی وزیر نے ایک پرانا اور ناقابلِ یقین الزام بھی دہرا دیا۔اسی روز چوتھے وفاقی وزیر نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا: ’’ اپوزیشن نے فیٹف بِل کے لیے نیب  قوانین میں 38میں سے 34ترامیم کے ذریعے این آر او مانگا۔ اگر یہ ترمیمات مان لی جاتیں تو بے نامی دار قانون سے شہباز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن محفوظ ہو جاتے ۔‘‘ شنید ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو ’’نیب‘‘ کی طرف سے  احتساب کا نوٹس بھی جاری ہو چکا ہے ۔

اس سے قبل بھی ایسا ہی ایک نوٹس جاری ہُوا تھا تو مولانا کے بھائی ، مولانا عطاء الرحمن، کی طرف سے ایک دہکتا ہُوا جوابی بیان آ گیا تھا جس کے کارن یہ نوٹسی کارروائی آگے نہیں بڑھ سکی تھی۔ حکومت نے بھی شاید پی ڈی ایم کے صدر کا لہجہ بدلنے کا انتظار کیا تھا۔لہجہ بدلنے کے بجائے مزید تلخی آئی ہے تو نوٹس دوبارہ بھجوانے کی خبریں گردش میں ہیں۔

ادھر ایک یہ بیان سامنے کہ :’’ مولانا فضل الرحمن سمیت 20سیاستدانوں کی زندگیوں کو خطرہ ہے ۔ خطرے کی فہرست میں اُن کا نام سب سے اوپر ہے۔‘‘ حیرت ہے مولاناصاحب کا نام تو لے لیا گیا لیکن باقی 20سیاستدانوں کے نام ظاہر کرنے سے دانستہ اعراض ہی برتا گیا۔ مولانا موصوف کا دعویٰ ہے کہ حکومت کی طرف سے انھیں دی گئی سیکیورٹی بتدریج کم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن حکومت اس دعوے کو مسترد کرتی ہے ۔

جس صورتحال کا مولانا فضل الرحمن شکار ہیں، اسی میں اُن کے ایک بھائی ( ضیاء الرحمن ، جو سرکاری ملازم ہیں) کو بھی رگڑا دیا جا رہا ہے ۔ اسی دوران جے یو آئی کے اندر بغاوت سامنے آگئی۔ یوں ان کی جماعت کے اندر سے ہی مولانا فضل الرحمن کی طاقت کو چیلنج کیا گیا۔ یہ چیلنج مولانا صاحب کی پارٹی کی ایک ممتاز شخصیت اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین، مولانا محمد خان شیرانی ، کی طرف سے دیا گیا ہے۔ مولانا شیرانی صاحب نے پی ڈی ایم کے صدر کو یوں للکارا : ’’مولانا فضل الرحمن خود سلیکٹڈ ہیں۔ پی ڈی ایم اتحاد جعلی ہے ،  جلد ٹوٹ جائے گا۔‘‘ مولانا شیرانی نے اپنے بیان میں مولانا فضل الرحمن کے خلاف اور بھی باتیں کیں ۔یہ ایک غیر متوقع اور غیر معمولی بیان تھا۔ مولانا شیرانی کے بیان سے مگر حکومت کی بانچھیں ضرور کھلی ہیں ۔

پنجاب کے ایک وزیر نے مسرت انگیز لہجے میں کہا: ’’مولانا شیرانی نے مولانا فضل الرحمن کی سیاست کا جنازہ نکال دیا ہے ۔‘‘ لیکن اس کھیل میں90سالہ مولانا محمد خان شیرانی کو کیا ملا ہے؟ انھیں اب جے یو آئی سے نکال دیا گیا ہے ۔مولانا فضل الرحمن صاحب کے خلاف متنوع حکومتی الزاماتی یلغار سے جمیعتِ علمائے اسلام کی قیادت سخت ناراض ہے۔ اس ناراضی کا اظہارجے یو آئی کے مرکزی قائد، سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری، کی تازہ پریس کانفرنس میں بھی سامنے آیا ہے جس کے بعض آتشیں حصوں سے اتفاق کرنا اگرچہ ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ پی ڈی ایم کے صدر اور حکومت کا یہ باہمی جھگڑا ہمیں کہاں لے جائے گا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔