ریڈار کے ذریعے مٹی کی زرخیزی بھی معلوم کی جاسکتی ہے، تحقیق

ویب ڈیسک  پير 28 دسمبر 2020
اپنی موجودہ حالت میں یہ طریقہ 80 فیصد درست نتائج دیتا ہے جسے بہتر بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔ (فوٹو: آر یو ڈی این یونیورسٹی)

اپنی موجودہ حالت میں یہ طریقہ 80 فیصد درست نتائج دیتا ہے جسے بہتر بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔ (فوٹو: آر یو ڈی این یونیورسٹی)

ماسکو: روسی ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی جگہ مٹی کی زرخیزی اور دوسری اہم خصوصیات معلوم کرنے کےلیے کھدائی کی ضرورت نہیں بلکہ زمین میں سرایت کرنے والی ریڈار لہروں سے یہی کام لیا جاسکتا ہے۔

واضح رہے کہ زمین کے اندرونی حصوں کا جائزہ لینے کےلیے ایسے ریڈار برسوں سے موجود ہیں جن سے خارج ہونے والی لہریں خاصی گہرائی تک مٹی اور چٹانوں میں سرایت کرجاتی ہیں۔

دوسری جانب کسی علاقے میں مٹی کی مختلف اور اہم خصوصیات معلوم کرنے کےلیے ایک پتلی لیکن باریک نلکی زمین میں اتاری جاتی ہے جس میں مٹی کے پرت در پرت نمونے جمع ہوتے چلے جاتے ہیں۔

ان نمونوں کا تجزیہ کرکے متعلقہ زمین میں مٹی کا معیار (سوائل کوالٹی) معلوم کیا جاتا ہے۔ تاہم یہ طریقہ بہت طویل اور مشکل ہونے کے ساتھ ساتھ خاصا مہنگا بھی ہے۔

ماسکو میں واقع ’’جامعہ دوستی‘‘ (المعروف آر یو ڈی این یونیورسٹی) کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مٹی کی کثافت، معدنیات، نمک کی مقدار، نمی اور دیگر اہم خصوصیات میں تبدیلی کے باعث مٹی کا رنگ بھی بدل جاتا ہے۔

’’زمین میں سرایت کرنے والا ریڈار‘‘ (جی پی آر) استعمال کرتے ہوئے مٹی کی گہرائی تک عکس حاصل کیا جاسکتا ہے اور اسی عکس کا تجزیہ کرتے ہوئے وہ رنگ بھی شناخت کیے جاسکتے ہیں جو مٹی کے مخصوص معیار یا کیفیت کا پتا دیتے ہیں۔

یہ تکنیک بہت سادہ ہونے کے علاوہ کم خرچ اور تیز رفتار بھی ہے۔

مٹی کے معیار اور مٹی کے اندر سے پلٹ کر واپس آنے والی ریڈار لہروں کے نمونوں (پیٹرنز) میں تعلق جاننے کےلیے انہوں نے روس میں مختلف مقامات پر ریڈار اور کھدائی کا عمل ایک ساتھ انجام دیا، جس کے بعد مٹی کی رنگت، اس کی ترکیب (کمپوزیشن) اور ریڈار لہروں کے نمونوں میں موازنہ کیا گیا۔

سات مختلف مقامات پر چند سینٹی میٹر سے لے کر 10 فٹ گہرائی تک یہ عمل سیکڑوں بار دہرانے کے بعد ماہرین ایک ایسا ماڈل بنانے میں کامیاب ہوگئے جس میں ریڈار لہروں کا نمونہ دیکھ کر مٹی کی رنگت بتائی جاسکتی ہے۔

علاوہ ازیں، مٹی کی رنگ کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بھی بتایا جاسکتا ہے کہ اس میں کون کونسے اجزاء، کس شرح سے موجود ہیں۔ اپنی موجودہ حالت میں یہ طریقہ 80 فیصد درست نتائج دیتا ہے جسے بہتر بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔

نوٹ: اس تحقیق کی تفصیلات ریسرچ جرنل ’’سوائل فزکس‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔