ڈرون حملے بند نہیں ہوں گے

زمرد نقوی  اتوار 29 دسمبر 2013

آخر کار اقوام متحدہ نے ڈرون حملوں کے خلاف متفقہ قرارداد منظور کر لی ۔اس کے باوجود ڈرون حملوں کو روکا نہیں جا سکتا اور نہ ہی اس قرار داد میں ڈرون حملوں کی کوئی مذمت ہوئی ہے۔ ڈرون حملے تو اس وقت بھی بند نہیں ہوئے جب سلالہ پوسٹ پر حملے سے 25 پاکستانی فوجی شہید ہوئے اور پاکستان نے سات ماہ تک نیٹو سپلائی روکے رکھی۔ امریکا نے متبادل ذرایع سے نیٹو سپلائی جاری رکھی۔ اس وقت امریکا کو افغانستان سے انخلا کا معاملہ بھی درپیش نہیں تھا۔ اب جب کہ امریکا افغانستان سے نکل رہا ہے جس کا مطالبہ افغان عوام ایک عرصے سے کر رہے تھے نہ سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ تحریک انصاف والوں نے خیبر پختوانخوا کے راستے نیٹو سپلائی بند کر دی ہے۔ کیا وہ نہیں چاہتے کہ امریکا افغانستان سے نکلے۔

ان کے نقاد کہتے ہیں کہ عمران خان نے حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے غم میں نیٹو سپلائی بند کر دی ہے جب کہ پاکستانی فوج پر حملہ کرنے والے بڑے دہشت گرد اس سے پہلے بھی مارے گئے لیکن ایسا قدم اس سے پہلے نہیں اٹھایا گیا۔ لگتا ہے کہ تحریک انصاف کو غم صرف ان لوگوں کا ہے جو ڈرون حملوں میں مارے جاتے ہیں۔ قابل تعریف بات یہ ہوتی اگر عمران خان نہ صرف ڈرون حملوں بلکہ دہشت گردی کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والے بے قصور نہتے شہریوں کے حق میں احتجاج کرتے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کے کسی بڑے لیڈر نے کھل کر دہشت گردی کے نتیجے میں جان دینے والوں کے حق میں بیان جاری نہیں کیا اور نہ ہی ان کے لیے جلوس نکالا۔ کیا یہ پاکستانی کیڑے مکوڑے تھے کہ ان سے ہمدردی گناہ ہے کہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا۔ تاہم یہ امر خوش آیند ہے کہ عمران خان نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ پولیو ورکرز پر حملہ خیبر پختوانخوا میں طالبان کرتے ہیں۔ انھوں نے طالبان سے اپیل کی کہ نہتے پولیو ورکرز جن میں مرد اور عورتیں شامل ہیں پر حملے نہ کریں۔یہ ایک اچھا فیصلہ ہے اور اس پر قائم رہنا چاہیے۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ جب انتہا پسندوں کے حمایتیوں سے پوچھا جائے کہ دہشتگردی کون کر رہا ہے تو فوراً یہود ہنود نصاریٰ کا نام لیتے ہیں لیکن وہ پولیو ورکرز پر حملے کے حوالے سے طالبان سے عمران خان کی اپیل کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ طالبان پولیو مہم کے کیوں خلاف ہیں۔ اس سے بچے اپاہج و مفلوج ہو نے سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ کیا وہ چاہتے ہیں کہ پاکستانی نئی نسل لنگڑی لولی ہو۔ نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ پاکستان کے پولیو زدہ ملک ہونے کی وجہ سے اس کے شہریوں کی بیرون ملک جانے پر پابندی لگ رہی ہے۔ دشمن بھی یہی چاہتے ہیں کہ پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہو اور اس کی معیشت مفلوج ہو جائے۔

ایک طرف ملک میں خود کش حملے ہوتے ہیںتو دوسری طرف ان کی ذمے داری قبول کر لی جاتی ہے۔ جب کہ ہمارے دائیں بازو کے سیاستدان اس کی ذمے داری ا یہود ہنود نصاریٰ پر ڈالتے ہیں ‘یہ سب کیا ہے۔ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر کہا گیا کہ اس سے مذاکرات سبوتاژ ہوئے۔ جب کہ طالبان کے ترجمان نے بار بار کہا کہ کونسے مذاکرات کہاں کے مذاکرات‘ کوئی مذاکرات نہیں شروع ہوئے تھے۔ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف والے کہتے ہیں کہ حکیم اللہ کی ہلاکت سے مذاکرات کا خاتمہ ہو گیا جب کہ اس سے چند دن پہلے پاک فوج کے میجر جنرل کو شہید کردیا گیا جس کی ذمے داری مولوی فضل اللہ نے لی اور اس کے ساتھ یہ بھی کہا کہ وہ پاک فوج کے سابق سربراہ کیانی کو بھی نشانہ بنائیں گے۔ان معاملات سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان مذاکرات پر آمادہ نہیںتھے اور ہمارے لوگ ان سے مذاکرات کی بھیک مانگ رہے ہیں۔

پاکستان کے پاس دنیا کی بہترین فوج ہے۔ اس کے باوجود ہم انتہا پسندوں سے مذاکرات کی بھیک مانگ کر دنیا کو اپنے بارے میں کیا تاثر دے رہے ہیں۔ جب دہشت گردوں کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ وہ پاک فوج کو شکست نہیں دے سکتے توانھوں نے شہری علاقوں میں خودکش حملے کرانے شروع کر دیے تا کہ سول حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے۔ ایسا ہی ہوا۔ جوگروہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بچوں‘ عورتوں‘ بوڑھوں کی جان لینے سے گریز نہیں کرتے۔وہ مذاکرات کو کیا اہمیت دے سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ سوچنا ہمارے سیاستدانوں اور حکومت کا کام ہے۔ وہ جو مرضی کرے لیکن اسے کم از کم اس حقیقت کا ضرور اندازہ ہونا چاہیے کہ اگر ریاستیں باغی گروہوں کے ساتھ جھک کرمذاکرات کرنا شروع کر دیں تو پھر ان کا وجودقائم رہنا ممکن نہیں ہوتا۔پاکستان کی حکومت اگر مذاکرات کرنا چاہتی ہے تو اسے اپنی شرائط پر ایسا کرنا چاہیے۔طالبان بھی اگر مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہیں تو انھیں اپنے رویے میں لچک لانی پڑے گی۔ورنہ ان کے خلاف آپریشن لازمی ہو جائے گا۔ابھی وقت موجود ہے ‘اس حوالے سے کوئی بریک تھروہو سکتا ہے۔

دنیا کو لگتا ہے کہ پاکستان دہشتگردوں کے لیے محفوظ سرزمین ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ہمارے قبائلی علاقوں میں ازبک‘ چیچن‘ تاجک عرب موجود ہیں۔ سوال یہ پیدا ہتا ہے کہ یہ سب کچھ اپنے ملکوں میں جا کر کیوں نہیں کرتے؟ ہنگو میں ڈرون حملہ ہوا پتہ چلا افغان تھے۔ نصیر الدین حقانی اسلام آباد میں مارے گئے حالانکہ وہ بھی افغانستان کے شہری تھے اور مجھے یقین ہے کہ ان کے پاس پاکستان کا ویزا ہو گا اور نہ ہی افغانستان کا پاسپورٹ ۔ حکومت اگرچہ مذاکرات کا ورد اب بھی کر رہی ہے لیکن طالبان نے اپنی کارروائیوں کو ایک دن کے لیے بھی نہیں روکا۔ جس دن آل پارٹیز کانفرنس نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حق میں قرار داد منظور کی تھی اس دن بھی دہشت گردی ہوئی۔ تازہ ترین دہشت گردی 18 دسمبر کو شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی میں ہوئی جب بارود بھرا ٹرک اس چیک پوسٹ سے ٹکرا دیا گیا جہاں فوجی اور ایف سی اہلکار نماز مغرب ادا کر رہے تھے۔ اس میں 45 اہلکار شہید و زخمی ہوئے لیکن عمران خان نے اس بارے میں ایک لفظ بھی مذمت کا نہیں کہا نہ ہی اظہار افسوس کیا۔ عمران میں بہت سی خوبیاں ہیں لیکن جب وہ دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہیں تو ان کی خوبیاں ماند پڑ جاتی ہیں۔انھیں اپنے منشور میں میرے جیسے لوگوں کے لیے بھی کچھ نہ کچھ جگہ رکھنی چاہیے تاکہ ہم بھی ان کی حمایت میں نکل سکیں۔

طالبان کے خلاف آپریشن کب ہو گا۔ اس کا پتہ جنوری فروری خاص طور پر جنور ی کے آخر اور فروری کے شروع میں چلے گا۔

ڈرون حملے آخر کار 015 2میں بند ہو جائیں گے۔

سیل فون :۔0346-4527997

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔