تعلیمی پسماندگی کی وجوہات؟

نعمان احمد شاہ  پير 30 دسمبر 2013
چھوٹی عمر کی شادیاں، مالی ابتری، اساتذہ کا ناروا رویہ طلبہ کو تعلیم سے دور کر رہا ہے۔ فوٹو: فائل

چھوٹی عمر کی شادیاں، مالی ابتری، اساتذہ کا ناروا رویہ طلبہ کو تعلیم سے دور کر رہا ہے۔ فوٹو: فائل

وطن عزیز میں جس شعبے کی طرف نگاہ اٹھائی جائے مسائل ہی مسائل نظر آتے ہیں۔

حکمرانوں سے لے کر عام آدمی تک ہر کوئی اپنے مسائل کا رونا روتے نظر آتا ہے۔ کم ہی لوگ اپنی زندگی سے مطمئن اور اپنے وسائل میں گزر بسر کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرانے کے بعد ہر طبقہ کے لوگوں کی اکثریت مسائل کا واحد حل تعلیم اور شعور کی آگاہی بیان کرتی ہے، لیکن عملی طور پر دیکھا جائے تو ملک میں حالات اس کے بالکل برعکس ہیں۔ ملک میں شعور بیدار کرنے کا دعویدار میڈیا، سوشل سوسائٹی، این جی اوز اور دیگر سرکاری اداروں کے بلند و بانگ دعوئوں کے برعکس زمینی حقائق کچھ اور ہی تصویر دکھاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے اپنی تازہ ترین رپورٹ جاری کی، جس میں بتایا گیا کہ پاکستان کی نئی نسل میں تعلیم کا رجحان روز بہ روز کم ہو رہا ہے۔ صرف ایک سال پہلے، یعنی 2012ء کی بات کریں، تو اس سال تک ملک بھر میں صرف 21 فیصد افراد پڑھے لکھے اور 79 فیصد ان پڑھ تھے۔ ان دونوں ہندسوں کا درمیانی فرق 21 ویں صدی کے جدید ترین دور میں حیران کن ہونے کے ساتھ ساتھ افسوسناک بھی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کا کہنا ہے کہ دنیا کے221 ممالک میں مذکورہ بالا شرح خواندگی کے ساتھ پاکستان 180 ویں نمبر پر ہے۔

حد تو یہ ہے کہ شرح خواندگی میں پاکستان جنوبی ایشیاء میں صرف افغانستان اور بنگلہ دیش سے اوپر ہے جبکہ چین، ایران، سری لنکا، نیپال اور حتیٰ کہ برما بھی پاکستان سے آگے ہے۔ تعلیم سے متعلق ایک عالمی جانچ کے نتائج کے مطابق، چین کے سب سے بڑے شہر، شنگھائی کے طالب علم دنیا بھر میں بہترین قرار پائے ہیں، جب کہ امریکی طالب علم اب بھی بہت پیچھے ہیں۔ 60 ملکوں میں حساب، مطالعہ اور سائنس کے مضامین کے مقابلے کے نتائج سے یہ بات معلوم ہوئی کہ شنگھائی سب سے آگے ہے۔ پاکستان میں 2012ء میں 70 لاکھ طلباء سکول اور کالج جا رہے تھے جن میں سے 26 لاکھ پرائمری سکول، 29 لاکھ سکینڈری سکول اور 15 لاکھ کالج یا یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ طلباء میں وقت کے ساتھ اعلیٰ تعلیم کے حصول کا رجحان بتدریج کم ہوتاجا رہا ہے، جس کی بڑی وجہ وسائل میں کمی اور مسائل میں روز بروز اضافہ ہے۔ اکثر طلبہ گھریلو زمہ داریوں سے نبردآزما ہونے کیلئے تعلیم کو خیر باد کہہ دیتے ہیں جبکہ چند ایک ہی اپنی تعلیمی اور معاشی ذمہ داریوں کو اکٹھا ادا کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی نے یونیسکو کی جاری کردہ اِسی رپورٹ کے حوالے سے کچھ مزید اعداد و شمار بھی جاری کئے ہیں، جن کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔

٭ ملک بھر میں 75 فیصد لڑکے اور لڑکیاں میٹرک یعنی10ویں کلاس سے بھی پہلے سکول کو سدا کیلئے خیرباد کہہ دیتے ہیں۔

٭81 فیصد طالب علم انگریزی کے الفاظ نہیں پڑھ سکتے۔

٭ 3 سے 5 سال کی عمر کے سندھ سے تعلق رکھنے والے 72 اور بلوچستان کے 78 فیصد طلبا سکول نہیں جاتے۔

٭ سروے کے دوران پانچویں اور چھٹی کلاس کے طلباء کو انگریزی کا ایک مضمون پڑھنے کیلئے دیا گیا۔ ان میں سے چھٹی کلاس کے 94 اور 5 ویں کلاس کے 68 فیصد بچے یہ مضمون نہیں پڑھ سکے۔

٭ اسلام تمام عورتوں اور مردوں کو تعلیم حاصل کرنے کا پابند بناتا ہے، لیکن یہاں51 لاکھ بچے بنیادی تعلیم سے بھی محروم ہیں۔

مندرجہ بالا اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو سب سے خطرناک شرح ان طلبہ کی ہے جو کہ تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں۔ سکول داخل نہ ہونے والوں سے زیادہ تعداد سکول میں داخل ہو کر تعلیم ادھوری چھوڑ دینے والوں کی ہے۔ آخر ایسے کیا عوامل ہیں جن کی وجہ سے بیشتر طلباء تعلیم کو خیر باد کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے سب سے پہلے خواتین کی کم عمر میں شادی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صحت مند معاشرے کی بنیاد صحت مند ’’ماں‘‘ ہے اگر ماں کی صحت اچھی ہوگی تو بچے کی صحت بھی بہتر ہوگی۔ صحت مند معاشرے کو پروان چڑھانے کیلئے ماں کا صحتمند ہونا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ جبکہ خواتین کی کم عمر میں شادی کی وجہ سے بھی اکثر طلبہ تعلیم کو خیر باد کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے کم پڑھے لکھے والدین بچوں کی بہتر پرورش نہیں کر پاتے جس کی وجہ سے آنیوالی نسلیں بھی تعلیم سے محروم ہوتی جا رہی ہیں۔ دوسری بڑی وجہ طلباء کے پاس وسائل کی کمی ہے۔ سرکاری سکولوں میں تعلیم کا گرتا ہوا معیار دیکھ کر والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے بچے کسی اچھے پرائیویٹ سکول میں زیور تعلیم سے آراستہ ہوں لیکن وسائل کی کمی کے باعث یا تو والدین بچوں کو سرکاری سکولوں میں داخل کروانے پر مجبور ہوتے ہیں یا انہیں تعلیم کو خیر باد کہنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے چائلڈ لیبر میں بھی روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ بعض اساتذہ کی طرف سے اپنایا جانیوالا رویہ بھی طلباء کو تعلیم ادھوری چھوڑنے پر مجبور کردیتا ہے۔ اساتذہ کے رویے کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑنے والا طلباء کی تعداد بھی 10 سے 15 فیصد ہے۔

اصل مسئلہ بچوں کا سکول میں داخلہ نہیں، ہماری حکومتیں سارا زور بچوں کے سکول میں داخلہ پر صرف کر دیتی ہے جبکہ اعداد وشمار جو تصویر دکھاتے ہیں، وہ اس کے برعکس ہے۔ سکول چھوڑنے والے بچوں کو دوبارہ سکول تک لانے کے لئے حکومت اور نہ ہی این جی اوز کوئی کردار ادا کر رہی ہیں۔ انہیں سکول لانا تو دور کی بات آج تک کسی نے بھی ایسے بچوں کے مکمل اعداد و شمار تک جمع نہیں کئے جو سکول داخل ہونے کے بعد تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں۔ قدرتی آفات بھی بچوں کو سکول سے دور رکھنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور بروقت اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے ہر دوسرے سال ملک میں سیلاب تباہ کاریاں مچاتا ہے جس کی وجہ سے سینکڑوں سکول اور ہزاروں طلباء کے گھر زیر آب آ جاتے ہیں۔ سیلاب اُتر جانے کے بعد مکین تو دوبارہ اس علاقہ میں آباد ہو جاتے ہیں لیکن سکولوں کو آباد ہونے تک نیا سیلاب آ جاتا ہے جبکہ تقریباً 9 سال قبل آنے والے زلزلہ سے متاثر ہونے والے سکول بھی مکمل طور پر بحال نہیں ہو سکے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ سکولوں میں بچوں کا داخلہ یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ان کے تعلیمی اداروں سے اخراج کی وجوہات جاننے کی کوشش کی جائے اور ان کے مسائل کا تدارک کر کے سکولوں سے طلباء کے اخراج کی شرح کو جتنا ممکن ہو کم کیا جائے۔ کیونکہ ’’ادھوری آگاہی موت ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔