’’قل و دل‘‘

سعد اللہ جان برق  بدھ 30 دسمبر 2020
barq@email.com

[email protected]

یہ خالص عربی الفاظ ہیں، اسے بھول کر بھی اردو، پشتو،پنجابی میں مت کہیے گا ورنہ وہ جو انگریزی کے ’’ایجنٹ‘‘کا بُرا نہیں مناتے، وہ ایجنٹ کے اردو ترجمے پر سخت برُا مناتے ہیں۔قل ودل۔عربی کا مطلب ہے کم لیکن سم۔یعنی تھوڑا کہو اچھا کہو۔ اورا سی بات پر ہم آج تھوڑا سا رونا چاہتے ہیں کہ اپنے ہاں سراسر اس کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔

زیادہ اورسراسر فضول کہنے کا رواج ہے۔ لگتا جسے سب نے قسم کھا رکھی ہے کہ بولیں گے، بے تحاشا بولیں گے اور سب کا سب فضول بولیں گے ۔عام آدمی ہو، وزیر ہو، مشیر، معاون عمومی ہو یا معاون خصوصی برائے…ہو، بولو، بولتے رہو چاہے کوئی سنے یا نہ سنے۔جو ش ملیح آبادی کے بارے میں یہ لطیفہ توآپ نے سنا ہوکہ جب وہ کچھ بھی کہنا نہیں چاہتے تھے تو ستر ستر بند کی نظم کہتے اور جب کچھ کہنا مقصود ہو تو دو شعروں کی رباعی میں کہہ دیتے تھے، غالباً مولانا ظفرعلی خان کے بارے میں مشہور ہے کہ ایک مرتبہ کسی نے ان سے کہا، مولانا آپ اتنے لمبے چوڑے مضامین کیوں لکھتے ہیں، محتصر لکھیے۔فرمایا، میرے پاس مختصر لکھنے کے لیے ’’وقت‘‘نہیں ہے۔

یہی اصل بات بھی ہے، خالی برتن اور خالی ڈھول اونچا بجتا ہے۔مطلب یہ کہ جو ’’بغل‘‘بجائے جاتے ہیں، وہ بھی بغل نہیں ہوا بجتی ہے۔خدا نہ کرے، خدا نہ کرے، اگر ہمارا اشارہ لیڈروں، رہنماوں اور تلقین شاؤں کی طرف ہو۔اور نہ ہی اپنے دانا دانشور کالم نگاروں کی طرف ہے کیونکہ۔جس کو ہو دین ودل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں؟بلکہ ہم تو آج پیر ومرشد کے ایک ’’قل و دل‘‘ شعر پر کچھ کہنا چاہتے ہیں جو ’’قل ودل‘‘ کے پہلے بانی مبانی تھے۔فرماتے ہیں،

لیتاہوں مکتب غم دل میں سبق ہنوز

لیکن یہی کہ ’’رفت‘‘گیا اور’’بود‘‘تھا

جو بات ہم نے جو ش ملیح آبادی اور مولانا ظفرعلی خان کے بارے میں بتائی ہے، وہی معاملہ مرشد کے ساتھ بھی تھا۔ان کا نظریہ ’’باتوں‘‘کے بارے میں وہ نہیں تھا جو آموں کے بارے میں تھا۔اس لیے جب بے مطلب کے بولتے تھے تو فارسی میں بولتے تھے اور مطلب کی بات’’ریختہ‘‘میں کہتے ہیں۔اسے پشتو اصطلاح کے مطابق ’’سیٹی میں کہنا‘‘کہتے ہیں اور حافظ شیراز ’’بہ بانگ چنگ‘‘کہتے تھے۔

بہ بانگ چن می گوئیم آن حکایت ہا

کہ از نہفتں آں دیگ سینہ می زد جوش

یہ اسی’’گدائے گوشہ نشین‘‘اور’’حافظا مخروس‘‘ والی غزل کا شعر ہے جس کا مطلع ہے

سحرز ہاتف غیبم رسید مژدہ بگوش

کہ دور شاہ شجاع است می دلیر بنوش

یعنی صبح سویرے میں نے ہاتف غیبی سے یہ مژدہ سنا کہ یہ ’’وژن‘‘کا دور ہے، شراب جی بھر کے اور دھڑلے سے پی۔ غالباً اس زمانے میں وژن کو ہاتف غیبی کہتے تھے یا شاید معاونین برائے اطلاعات سو ہاتف غیبی۔اور ان کے کہے کو مژدہ کہتے تھے جو صبح نازل ہوتاتھا

بات پھر ٹرن لے کر پھیل گئی ہم مرشد کے ’’رفت‘‘اور بود تھا کے بارے میں کچھ کہنا چاہ رہے تھے۔’’رفت‘‘اور’’بود‘‘بظاہر دو عام سے الفاظ ہیں۔ رفت کامطلب ہے،جیسے نواز شریف رفت۔ڈاکٹر پروفیسر علامہ طاہرالقادری رفت۔باباجی عرف ڈیموں والی سرکار رفت۔ مطلب یہ کہ یہ زیادہ سے زیادہ ’’جانے‘‘کے لیے استعمال ہوتا ہے جب کہ ’’بود‘‘بڑا ہی کلاکار بلکہ ہرکار لفظ ہے۔ اس کے بارے میں کہاجاسکتا ہے کہ۔جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی۔ وضاحتاً عرض ہے کہ اس میں بھی رائج الوقت شیخ کی طرف اشارہ نہیں ہے۔

’’بود‘‘جو صرف تین حرفوں کا بنا ہوا ہے۔ب،و،د لیکن اس پر تین حرف  بہت سارے حرفوں کے کان کتر دیتا ہے، اسے اگر آپ سیدھا سیدھا ’’بود‘‘(bood) پڑھیں تو مطلب ہوتا ہے’’تھا‘‘۔’’شب جائے کہ من بودم‘‘یا ’’شخصے بود‘‘ ایک آدمی تھا۔رہنما بود، رہزن بود، صدر بود، وزیر بود۔مطلب کہ اس کا تعلق ماضی سے ہوتا ہے لیکن یہی جب حال میں ہوتا ہے تو ’’ہے‘‘ بھی یا ہوتا بھی ہوجاتا، اس وقت یہ ’’بود‘‘کے بجائے بود (bawad) بن جاتا ہے لیکن یہی بود بڑی آسانی سے مستقبل میں بھی چھلانگ لگا لیتا ہے۔ تھوڑا سا بودا(bowad) ہوکر،جیسے

صبا خاک وجود ما باں عالی جناب افتاد

بودکاں ساہ خوباں رانظر بر منظر اندازیم

یعنی اے صبا! میرے وجود کی مٹی اس شاہ خوباں کے آگے رکھ کہ اس طرح میں اس کی نگاہ کا مرکز بن جاوں۔اور پھر یہی بود،یہاں بھی دیکھیے

بہ مے سجادہ رنگیں کن گرت پیر مغاں گوئد

کہ سالک بے خبر نہ بود زراہ وسم منزل ہا

یعنی اگر پیرمغاں تجھے اپنا جامہ شراب میں آلودہ کرنے کو کہے تو فوراً مان لو کیونکہ سالک راہ  ورسم منزل ہا سے واقف ہوتا ہے۔ اب یہاں نہ بود تینوں زمانوں یعنی ہمیشہ ہمیشہ تک پھیل جاتا ہے۔آپ کا کیاخیال ہے، ہم نے یہ ساری فضول گوئی صرف فارسی سکھانے کے لیے شروع کی ہے؟ جی نہیں۔بلکہ ہم ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مرشد روشن ضمیر بھی بہت تھے۔

ان دو لفظوں  رفت اور بود میں پاکستان کی پوری تاریخ بیان کرگئے۔ رفت میں وہ لیڈر مذکور ہیں جو ایک پارٹی میں آمد ورفت رکھتے ہیں لیکن ’’بود‘‘ہر لیڈر پر ہر پارٹی کا دروازہ کھول دیتاہے۔وہ جب بھی جس بھی پارٹی میں ہوتاہے ہمیشہ ’’بود‘‘ ہی رہتاہے، چاہے کوئی’’بود(bawad) پڑھے یا (bowad) اور یا(bood) کیونکہ اصل چیز نہ ماضی ہے نہ حال ہے اور نہ مستقبل۔بلکہ ’’بود‘‘ہے اور بود کے اصل خاندانی معنی’’حاصل‘‘ کے ہوتے ہیں، اس شکل میں یہ ’’بہبود‘‘ ہوجاتاہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔