پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اورجمعیت علماء اسلام (ف) میں قربتیں بڑھنے لگیں

رضا الرحمٰن  بدھ 30 دسمبر 2020
ان ارکان پارلیمنٹ نے نازک ملکی سیاسی صورتحال کے تناظر میں پارٹی کی قیادت پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے

ان ارکان پارلیمنٹ نے نازک ملکی سیاسی صورتحال کے تناظر میں پارٹی کی قیادت پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے

 کوئٹہ: پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل جماعتوں نے بلوچستان سے متعلق ایشوز اور سیاست میں مشترکہ حکمت عملی بنانے کیلئے بھرپور تعاون کرنے پر اتفاق رائے کر لیا ہے۔

ضمنی الیکشن سمیت گوادر میں باڑ اور جزائر کے معاملے پر پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور تحریک چلائیں گی۔ جمعیت علماء اسلام کے سید فضل آغا کے انتقال سے خالی ہونے والی نشست پر ضمنی الیکشن میں پی ڈی ایم کی جماعت پشتونخواملی عوامی پارٹی نے اپنا اُمیدوار کھڑا نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور پارٹی نے اپنے تمام کارکنوں کو ہدایت  کی ہے کہ وہ اس ضمنی انتخاب میں جے یو آئی کے نامزد اُمیدوار کو کامیاب بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں ۔

سیاسی حلقوں کے مطابق ماضی میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور جے یو آئی ایک بڑے سیاسی حریف تصور کئے جاتے تھے۔ تاہم پی ڈی ایم کے قیام کے بعد ان دونوں جماعتوں میں قربتیں بڑھی ہیں اور دونوں سیاسی حریف ایک دوسرے کے قریب آئے ہیں ۔ ضمنی الیکشن میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے اس فیصلے کو بھی بڑی پذیرائی مل رہی ہے اور مستقبل میں ایسے مثبت فیصلوں اور رویوں کو بلوچستان خصوصاً پشتون بیلٹ کیلئے نیک شگون قرار دیا جا رہا ہے تاہم پی ڈی ایم کی دوسری اہم جماعت اے این پی نے ابھی تک اس نشست کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔

سیاسی حلقوں کے مطابق2018ء کے جنرل الیکشن میں پی بی20 پشین کی یہ نشست جمعیت نے جیتی تھی تاہم سید فضل آغا کے انتقال کے بعد اس نشست پر ضمنی الیکشن کے انعقاد میں تاخیر ہوئی۔ جمعیت علماء اسلام نے اس نشست پر اپنے اُمیدوار کا ابھی تک فیصلہ نہیں کیا ہے۔

تاہم ان سیاسی حلقوں کے مطابق اس نشست کیلئے جمعیت علماء اسلام دو اُمیدواروں کے ناموں پر غور کر رہی ہے جن میںمیں ایک سید فضل آغا کے بھتیجے سید خلیل آغا اور آغا نواب شاہ کے نام شامل ہیں امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ قرعہ فعال سید خلیل آغا کے نام پر نکلے گا۔ سیاسی حلقوں میں اس بات پر بھی بڑی بحث چل رہی ہے کہ ایک طرف جے یو آئی اور پی ڈی ایم میں شامل دیگر پارلیمانی جماعتیں اسمبلیوں سے استعفے دے رہی ہیں اور دوسری جانب ضمنی انتخابات میں حصہ بھی لیا جا رہا ہے؟

صوبائی اسمبلی کی اس نشست پر زبردست معرکہ آرائی کی توقع ہے کیونکہ بعض اطلاعات یہ ہیں کہ حکمران جماعت بی اے پی اس نشست پر اپنا اُمیدوار نامزد کرنے کیلئے مشاورت کر رہی ہے اور پی ڈی ایم کی اہم جماعت اے این پی جو کہ بلوچستان میں بی اے پی کی اتحادی جماعت ہے نے اس نشست کیلئے پارٹی کارکنوں سے درخواستیں طلب کی ہیں اور امکان اس بات کا ہے کہ بی اے پی اور اے این پی مل کر الیکشن لڑیں گی تاہم اے این پی کے فیصلے کے اثرات پی ڈی ایم کے مستقبل پر پڑ سکتے ہیں ۔

(ن) لیگ کی سینیٹر کلثوم پروین کے انتقال کے باعث خالی ہونے والی سینٹ کی نشست پر14 جنوری کو ضمنی انتخاب ہونے جا رہا ہے، خالی ہونے والی سینٹ کی اس نشست کیلئے اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو نے چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان کو ایک خط کے ذریعے سینٹ کی اس نشست پر ضمنی الیکشن روکنے کی درخواست بھی کی تھی جس میں اُن کا موقف تھا کہ کیا 10 دن کیلئے نئے سینٹر کا انتخاب ہو سکتا ہے؟ دوسرا نقطہ اُن کا یہ تھا کہ کرونا کی لہر کی وجہ سے یہ انتخاب ممکن نہیں لہٰذا الیکشن کمیشن اس نشست پر ضمنی انتخاب کے جاری کردہ شیڈول پر نظر ثانی کرے۔

اسپیکر بلوچستان اسمبلی کی اس درخواست کو الیکشن کمیشن نے مسترد کر دیا جس کے بعد سینٹ کی اس نشست پر ضمنی انتخاب شیڈول کے مطابق ہو رہا ہے اور حکمران جماعت بی اے پی کی جانب سے دو خواتین جن میں ایک موجودہ اقلیتی ایم پی اے کی اہلیہ ہیں نے کاغذات نامزدگی داخل کئے ہیں امکان اس بات کا ہے کہ اس نشست پر بلا مقابلہ بی اے پی کی نامزد اُمیدوار خاتون کامیاب ہو جائیں گی ۔

سیاسی مبصرین کے مطابق ملکی سیاست کی طرح بلوچستان کی سیاست میں بھی گرما گرمی آتی جا رہی ہے پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں بی این پی، جے یو آئی، پشتونخواملی عوامی پارٹی، (ن) لیگ، پی پی پی اور دیگر مشترکہ حکمت عملی کے تحت بلوچستان کے ایشوز پر تحریک چلانے پر متفق ہوگئی ہیں جس میں گوادر میں باڑ اور جزائر کے معاملات سر فہرست ہیں ۔

اسی طرح جمعیت علماء اسلام (ف) میں بغاوت کا آغاز بھی بلوچستان سے ہی ہوا ہے جس کے تحت جمعیت علماء اسلام (ف) کی ڈسپلنری کمیٹی نے جے یو آئی (ف) بلوچستان کے سابق امیر و رکن قومی اسمبلی مولانا محمد خان شیرانی اور مرکزی سیکرٹری اطلاعات و سابق رکن قومی اسمبلی حافظ حسین احمد کی رکنیت ختم کر کے ملکی سیاست میں ہلچل سی پیدا کر دی ہے جے یو آئی کی قیادت نے ان دو اہم سیاسی شخصیات کے علاوہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے اپنے دیگر دو اہم ستونوں سابق سینیٹر مولانا گل نصیب اور مولانا شجاع الملک کی رکنیت بھی ختم کر دی، یہ اطلاعات بھی ہیں کہ ان منحرف رہنماؤں نے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے خلاف صف بندی کا فیصلہ کرتے ہوئے جمعیت میں موجود اپنے ہم خیال رہنماؤں سے رابطے شروع کر دیئے ہیں۔

سیاسی مبصرین کے مطابق جمعیت کے اندر بغاوت کا یہ سلسلہ پہلی مرتبہ نہیں اس سے قبل بھی جمعیت علماء اسلام (ف) کے اندر اختلافات ہوئے تھے جس پر بلوچستان سے تعلق رکھنے والی بعض سیاسی شخصیات جن میں سابق سینیٹر حافظ فضل محمد بڑیچ (مرحوم) ،مولانا عبدالقادر لونی اور ان کے دیگر ساتھیوں نے ایک الگ دھڑا (جمعیت علماء اسلام نظریاتی) کے نام سے تشکیل دیا جو کہ آج بھی سیاست میں جے یو آئی نظریاتی کے نام سے حصہ لے رہا ہے۔

قومی اسمبلی کے رکن مولانا عصمت اﷲ بھی اس دھڑے کے ساتھ منسلک رہے تاہم کچھ عرصہ قبل وہ اس دھڑے سے الگ ہو کر دوبارہ جے یو آئی(ف) کے ساتھ منسلک ہوگئے تھے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق موجودہ سیاسی تناظر میں جے یو آئی (ف) میں ایک مرتبہ پھر دھڑے بندی اور اختلافات کے مستقبل قریب میں کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ اور اس کڑے امتحان سے جے یو آئی (ف) اور اس کی قیادت کس طرح نکلتی ہے یہ آنے والے دنوں میں واضح ہو جائے گا ؟

سیاسی مبصرین کے مطابق سینٹ الیکشن سے قبل اور موجودہ سیاسی اُتار چڑھاؤ میں بلوچستان کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی نے بھی اپنی اتحادی جماعت تحریک انصاف سے مرکز اور کے پی کے میں نمائندگی کا مطالبہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے پارٹی کے بعض ارکان کے مطابق وفاق میں تحریک انصاف کی اتحادی جماعت ہونے کے ناطے اور وفاقی کابینہ میں مزید نمائندگی دینے کے وعدے پر وزیراعظم عمران خان کی مسلسل خاموشی  سے اسلام آباد میں اُمید پر بیٹھے بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے بعض سینیٹرز اور ارکان قومی اسمبلی میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

ان ارکان پارلیمنٹ نے نازک ملکی سیاسی صورتحال کے تناظر میں پارٹی کی قیادت پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے کہ وہ وفاقی کابینہ میں پارٹی کی مزید نمائندگی کے وعدے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے آواز بلند کرنے کے ساتھ ساتھ کے پی کے میںپارٹی  میں شامل ہونے والے ایم پی ایز کو نمائندگی دینے پر دو ٹوک بات کرے ۔n

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔