- کراچی میں نیول، رینجرز ہیڈ کوارٹرز، گورنر، سی ایم ہاؤس، سب کا فٹ پاتھوں پر بھی قبضہ ہے، چیف جسٹس
- اوگرا کی تیل کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کرنے کی تردید
- منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم
- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
- قومی اسمبلی کمیٹیاں؛ حکومت اور اپوزیشن میں پاور شیئرنگ کا فریم ورک تیار
- ٹرین میں تاریں کاٹ کر تانبہ چوری کرنے والا شخص پکڑا گیا
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبریں، امریکا نے اسرائیل سے جواب طلب کرلیا
- وزارتِ صنعت و پیداوار نے یوریا کھاد درآمد کرنے کی سفارش کردی
اِن ’آسمانی کنکروں‘ پر 24 ارب روپے لاگت آئی ہے!
ٹوکیو: جاپانی خلائی ایجنسی ’جاکسا‘ نے ’ریوگو‘ نامی شہابیے (ایسٹرائیڈ) سے زمین پر لائے گئے پتھروں اور کنکروں کی تصاویر جاری کی ہیں جو اس کے خلائی مشن ’’ہایابوسا 2‘‘ نے پچھلے سال جمع کیے تھے۔ اس خلائی مشن پر 15 کروڑ ڈالر (24 ارب روپے) لاگت آئی ہے۔
اگرچہ ان کنکروں کی زیادہ سے زیادہ انفرادی جسامت صرف چند ملی میٹر ہے اور یہ مجموعی طور پر صرف 5.4 گرام وزنی ہیں لیکن یہ مقدار سائنسی تحقیق کےلیے بہت کافی ہے۔
جاپان کے ہایابوسا 2 کو بطورِ خاص ’ریوگو‘ شہابیے سے مٹی اور کنکروں کے نمونے جمع کرکے زمین پر لانے کےلیے ہی بنایا گیا تھا۔
البتہ، خوش قسمتی سے اب بھی ’’ہایابوسا 2‘‘ میں خاصا ایندھن بچ گیا ہے لہذا اس کے خلائی مشن میں مزید توسیع کردی گئی ہے۔
اپنے توسیع شدہ پروگرام کے مطابق، یہ خلائی مشن جولائی 2026 میں ’’سی سی 21‘‘ کہلانے والے ایک چھوٹے شہابیے (ایسٹرائیڈ) کے قریب سے گزرے گا۔
اس کے بعد، اگلے دو سال میں، یہ مزید دو مرتبہ زمین کے قریب سے گزرتے ہوئے اپنی رفتار میں اضافہ کرے گا اور جولائی 2031 میں ’1998 کے وائی 26‘ کہلانے والے ایک اور شہابیے کے بالکل قریب پہنچ کر اس کا مشاہدہ کرے گا۔
اس دوران یہ خلا کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے نظامِ شمسی سے باہر سیاروں (explanets) کا مشاہدہ بھی کرے گا۔
’ریوگو‘ ہی کیوں؟
بتاتے چلیں کہ ریوگو شہابیے کا پورا نام ’162173 ریوگو‘ ہے جو دوسرے شہابیوں سے خاصا مختلف ہے۔
شہابیوں میں عام طور پر سلیکان سے بنے مرکبات (سلیکیٹس) اور مٹی کے علاوہ نکل اور لوہے جیسی دھاتوں کی بھی معمولی مقدار پائی جاتی ہے۔
ان کے برعکس ’ریوگو‘ میں کاربن اور کاربن پر مشتمل مرکبات کی مقدار خاصی زیادہ ہے جن کی وجہ سے اس کی رنگت بھی معمول سے زیادہ سیاہی مائل ہے۔
لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ ’ریوگو‘ میں پانی کے علاوہ کچھ نامیاتی مرکبات (آرگینک کمپاؤنڈز) بھی دریافت ہوئے ہیں۔
اسی بناء پر سائنسدانوں کو امید ہے کہ ’ریوگو‘ سے لائے ہوئے ان کنکروں اور پتھروں پر تحقیق سے ہمیں زمین پر زندگی کی ابتداء اور نظامِ شمسی کے ارتقائی مراحل سے متعلق جاننے میں بھی بہت مدد ملے گی۔
واضح رہے کہ زمین پر زندگی کی ابتداء کے بارے میں کئی مفروضوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آج سے تقریباً چار ارب سال پہلے، زمین پر شہابیوں اور دُم دار ستاروں کی زبردست بوچھاڑ برس رہی تھی جن میں پانی کے علاوہ ایسے حیاتی کیمیائی مرکبات (بایوکیمیکلز) بھی شامل تھے جو زندگی کے وجود کےلیے بنیاد کا درجہ رکھتے ہیں۔
شہابیوں اور دُم دار ستاروں کی اسی بوچھاڑ کے نتیجے میں زمین پر سمندر وجود میں آئے جبکہ زمین پر زندگی کی اوّلین شکل نے بھی ان ہی سمندروں میں جنم لیا تھا۔
’ریوگو‘ اور اس جیسے دوسرے شہابیوں کی گہرائی سے حاصل کیا گیا مواد اس مفروضے پر تحقیق میں ہماری بہت مدد کرسکتا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔