نیا سال، اپنا محاسبہ کیجیے

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی  جمعـء 1 جنوری 2021
ہم نے مساکین کی مدد کی یا صرف تماشا دیکھتے رہے ۔۔۔۔ ؟ فوٹو: فائل

ہم نے مساکین کی مدد کی یا صرف تماشا دیکھتے رہے ۔۔۔۔ ؟ فوٹو: فائل

ہمیں سال کے اختتام پر، نیز وقتاً فوقتاً یہ محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہمارے نامۂ اعمال میں کتنی نیکیاں اور کتنی برائیاں لکھی گئیں۔

کیا ہم نے گزشتہ سال اپنے نامۂ اعمال میں ایسے نیک اعمال درج کرائے کہ قیامت کے دن ان کو دیکھ کر ہم خوش ہوں اور جو ہمارے لیے دنیا و آخرت میں نفع بخش بنیں؟ یا ہماری غفلتوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے ایسے اعمال ہمارے نامۂ اعمال میں درج ہوگئے جو ہماری دنیا و آخرت کی ناکامی کا ذریعہ بنیں گے؟

ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا کہ گزشتہ سال اﷲ کی اطاعت میں بڑھوتری ہوئی یا کمی آئی؟ ہماری نمازیں، روزے اور صدقات وغیرہ صحیح طریقے سے ادا ہوئے یا نہیں؟ ہماری نمازیں خشوع و خضوع کے ساتھ ادا ہوئیں؟ ہمارے اندر اﷲ کا خوف پیدا ہوا؟ ہم نے یتیموں اور بیواؤں کا خیال رکھا؟ ہمارے معاملات میں تبدیلی آئی؟ ہمارے اخلاق نبی اکرم ﷺ کے اخلاق کا نمونہ بنے؟ جو علم ہم نے حاصل کیا تھا وہ دوسروں کو پہنچایا؟

ہم نے اپنے بچوں کی ہمیشہ کی زندگی میں کام یابی کے لیے کچھ اقدامات بھی کیے یا صرف ان کی دنیاوی تعلیم اور سہولیات فراہم کرنے کی ہی فکر کرتے رہے؟ ہم نے گزشتہ سال انسانوں کو ایذائیں پہنچائیں یا ان کی راحت رسانی کے انتظام کیے؟ ہم نے مساکین کی مدد بھی کی یا صرف تماشا دیکھتے رہے؟ قرآن کریم کے جو حقوق ہیں وہ ہم نے ادا کیے؟ ہم نے اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کی؟ ہمارے پڑوسی ہماری تکلیفوں سے محفوظ رہے؟ ہم نے والدین، پڑوسی اور رشتے داروں کے حقوق ادا کیے؟

جس طرح مختلف ممالک، کمپنیاں اور انجمنیں سال کے اختتام پر اپنے دفاتر میں حساب لگاتے ہیں کہ کتنا نقصان ہوا یا فائدہ اور پھر فائدے یا نقصان کے اسباب پر غور و خوض کرتے ہیں نیز خسارہ کے اسباب سے بچنے اور فائدہ کے اسباب کو زیادہ اختیار کرنے کی تدبیر کرتے ہیں۔ اسی طرح ہمیں سال کے اختتام پر نیز وقتاً فوقتاً اپنی ذات کا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے کہ کس طرح ہم دونوں جہاں میں کام یابی و کام رانی حاصل کرنے والے بنیں؟ کس طرح ہمارا اور ہماری اولاد کا خاتمہ ایمان پر ہو؟ کس طرح ہماری اخروی زندگی کی پہلی منزل قبر جنّت کا باغیچہ بنے؟

جب ہماری اولاد، ہمارے دوست و احباب اور متعلقین ہمیں دفن کرکے قبرستان کے اندھیرے میں چھوڑ کر آجائیں گے، تو کس طرح ہم قبر میں منکر نکیر کے سوالات کا جواب دیں گے؟ کس طرح ہم پل صراط سے گزریں گے؟ قیامت کے دن ہمارا نامۂ اعمال کس طرح دائیں ہاتھ میں ملے گا؟ کس طرح حوض کوثر سے نبی اکرم ﷺ کے دست مبارک سے کوثر کا پانی پینے کو ملے گا؟ جہنم کے عذاب سے بچ کر کس طرح بغیر حساب کتاب ہمیں جنّت الفردوس میں مقام ملے گا؟ آخرت کی کام یابی و کام رانی ہی اصل نفع ہے جس کے لیے ہمیں ہر روز اپنا محاسبہ کرنا چاہیے۔

ہم نئے سال کی آمد پر عزم مصمم کریں کہ زندگی کے جتنے ایام باقی بچے ہیں اپنے مالکِ حقیقی کو راضی رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ ابھی ہم بہ قید حیات ہیں اور موت کا فرشتہ ہماری روح نکالنے کے لیے کب آجائے، معلوم نہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ پانچ امور سے قبل پانچ امور سے فائدہ اٹھایا جائے۔ بڑھاپا آنے سے قبل جوانی سے۔ مرنے سے قبل زندگی سے۔ کام آنے سے قبل خالی وقت سے۔ غربت آنے سے قبل مال سے۔ بیماری سے قبل صحت سے۔

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن کسی انسان کا قدم اﷲ تعالیٰ کے سامنے سے ہٹ نہیں سکتا یہاں تک کہ وہ مذکورہ سوالات کا جواب دیدے: زندگی کہاں گزاری؟ جوانی کہاں لگائی؟ مال کہاں سے کمایا؟ یعنی حصول مال کے اسباب حلال تھے یا حرام۔ مال کہاں خرچ کیا؟ یعنی مال سے متعلق اﷲ اور بندوں کے حقوق ادا کیے یا نہیں۔ علم پر کتنا عمل کیا؟ غرض یہ کہ ہمیں اپنی زندگی کا حساب اپنے خالق و مالک و رازق کو دینا ہے جو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔

ابھی وقت ہے۔ موت کسی بھی وقت اچانک ہمیں دبوچ لے گی، ہمیں توبہ کرکے نیک اعمال کی طرف سبقت کرنی چاہیے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے مومنو! تم سب اﷲ کے سامنے توبہ کرو تاکہ تم کام یاب ہوجاؤ۔ اﷲ تعالیٰ کے فرمان کا مفہوم ہے کہ کہہ دو کہ اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر رکھی ہے، یعنی گناہ کررکھے ہیں، اﷲ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یقین جانو اﷲ سارے کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے۔ یقیناً وہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ یقیناً نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ یہی زندگی‘ اخروی زندگی کی تیاری کے لیے پہلا اور آخری موقع ہے۔ اﷲ تعالی کے فرمان کا مفہوم ہے کہ یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی پر موت آکھڑی ہوگی تو وہ کہے گا کہ اے میرے پروردگار! مجھے واپس بھیج دیجیے تاکہ جس دنیا کو میں چھوڑ آیا ہوں، اس میں جاکر نیک اعمال کروں۔ ہرگز نہیں، یہ تو بس ایک بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے، اب ان سب (مرنے والوں) کے پیچھے ایک برزخ ہے جب تک کہ وہ دوبارہ اٹھائے جائیں۔ (سورۂ المؤمنون)

لہٰذا نماز روزے کی پابندی کے ساتھ زکوٰۃ کے فرض ہونے پر اس کی ادائی کریں۔ قرآن کی تلاوت کا اہتمام کریں۔ صرف حلال روزی پر اکتفا کریں خواہ بہ ظاہر کم ہی کیوں نہ ہو۔ بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کی فکر و کوشش کریں۔ احکام الٰہی پر عمل کرنے کے ساتھ جن امور سے اﷲ تعالیٰ نے منع کیا ہے ان سے باز آئیں۔ ٹیلی وژن اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے اپنے آپ کو اور بچوں کو دور رکھیں۔ حتی الامکان نبی اکرم ﷺ کی ہر سنّت کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کی کوشش کریں اور جن سنّتوں پر عمل کرنا مشکل ہو ان کو بھی محبّت بھری نگاہ سے دیکھیں اور عمل نہ کرنے پر ندامت اور افسوس کریں۔ اپنے معاملات کو صاف ستھرا بنائیں۔ اپنے اخلاق کو ایسا بنائیں کہ غیر مسلم ہمارے اخلاق سے متاثر ہوکر دائرہ اسلام میں داخل ہوں۔

سال نو پر اکثر لغو تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے، جب کہ اس پیسے سے غرباء و مساکین کی مدد کی جاسکتی ہے۔ اس طرح کے مواقع کے لیے اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہماری راہ نمائی فرمائی ہے، مفہوم: (رحمٰن کے بندے وہ ہیں) جو ناحق کاموں میں شامل نہیں ہوتے ہیں، یعنی جہاں ناحق اور ناجائز کام ہو رہے ہوں، اﷲ تعالیٰ کے نیک بندے اُن میں شامل نہیں ہوتے ہیں۔ اور جب کسی لغو چیز کے پاس سے گزرتے ہیں تو وقار کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔ یعنی لغو و بے ہودہ کام میں شریک نہیں ہوتے ہیں، بل کہ بُرے کام کو بُرا سمجھتے ہوئے وقار کے ساتھ وہاں سے گزر جاتے ہیں۔ (سورۂ الفرقان )

لہٰذا ہمیں ایسی لغو تقریبات میں شرکت سے حتی الامکان بچنا چاہیے۔ اور اگر کوئی شخص ’’ہیپی نیو ایئر‘‘ کہہ کر ہمیں مبارک باد پیش کرے تو مختلف دعائیہ کلمات اس کے جواب میں پیش کردیں، مثلاً اﷲ تعالیٰ پوری دنیا میں امن و سکون قائم فرمائے، اﷲ تعالیٰ کم زوروں اور مظلوموں کی مدد فرمائے۔ اﷲ تعالی مظلوم مسلمانوں کی مدد فرمائے، اﷲ تعالیٰ ہم سب کی زندگی میں خوشیاں لائے۔ اﷲ تعالیٰ 2021 کو اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی کا سال بنائے۔ نیز سال گزرنے پر زندگی کے محاسبہ کا پیغام بھی دیا جاسکتا ہے۔ ہم اس موقع پر آئندہ اچھے کام کرنے کے عہد کرنے کا پیغام بھی ارسال کرسکتے ہیں۔

نئے سال کے موقع پر عموماً دنیا میں سردی ہوتی ہے، موسم سرما میں دو خاص عبادتیں کرکے ہم اﷲ تعالیٰ کا قُرب حاصل کرسکتے ہیں۔ ایک عبادت وہ ہے جس کا تعلق صرف اﷲ کی ذات سے ہے اور وہ رات کے آخری حصے میں نماز تہجّد کی ادائی ہے۔ جیسا کہ سردی کے موسم کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ سردی کا موسم مؤمن کے لیے موسم بہار ہے، رات لمبی ہوتی ہے اس لیے وہ تہّجد کی نماز پڑھتا ہے۔ دن چھوٹا ہونے کی وجہ سے روزہ رکھتا ہے۔ یقیناً سردی میں رات لمبی ہونے کی وجہ سے تہجّد کی چند رکعت نماز پڑھنا ہمارے لیے آسان ہے۔ قرآن کریم میں فرض نماز کے بعد جس نماز کا ذکر تاکید کے ساتھ بارہا کیا گیا ہے وہ تہجّد کی نماز ہی ہے جو تمام نوافل میں سب سے افضل نماز ہے۔

سردی کے موسم میں دوسرا اہم کام جو ہمیں کرنا چاہیے وہ اﷲ کے بندوں کی خدمت ہے اور اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم غرباء و مساکین و یتیم و بیواؤں و ضرورت مندوں کو سردی سے بچنے کے لیے لحاف، کمبل اور گرم کپڑے تقسیم کریں۔ محسن انسانیت ﷺ کے ارشادات کتب احادیث میں موجود ہیں: ’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا دونوں جنّت میں اس طرح ہوں گے جیسے دو انگلیاں آپس میں ملی ہوئی ہوتی ہیں۔‘‘ مسکین اور بیوہ کی مدد کرنے والا اﷲ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔ جو شخص کسی مسلمان کو ضرورت کے وقت کپڑا پہنائے گا، اﷲ تعالیٰ اس کو جنّت کا سبز لباس پہنائے گا۔ جو شخص کسی مسلمان کو بھوک کی حالت میں کچھ کھلائے گا، اﷲ تعالیٰ اس کو جنّت کے پھل کھلائے گا۔ جو شخص کسی مسلمان کو پیاس کی حالت میں پانی پلائے گا، اﷲ تعالیٰ اس کو جنّت کی ایسی شراب پلائے گا، جس پر مہر لگی ہوئی ہوگی۔

غرض یہ کہ ہم سال کے اختتام پر اپنی ذات کا محاسبہ کرکے اچھے اعمال کی قبولیت کے لیے اﷲ تعالیٰ سے دعا کریں، جو فرائض کی ادائی میں کوتاہی ہوئی یا گناہ ہوئے، ان پر اﷲ تعالیٰ سے معافی مانگیں اور نئے سال کی ابتدا پر پختہ ارادہ کریں کہ زندگی کے باقی ماندہ ایام میں اپنے مالک حقیقی کو راضی کرنے کی کوشش کریں گے اور منکرات سے بچ کر اﷲ کے احکام کو اپنے نبی ﷺ کے طریقے کے مطابق بجا لائیں گے اور اپنی ذات سے اﷲ کی کسی مخلوق کو کوئی تکلیف نہیں پہنچائیں گے۔ ان شاء اﷲ

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔