وزیراعظم نے پیسکو خیبرپختونخوا کو دینے کی منظوری دیدی، پرویز خٹک نے پیشکش مسترد کردی

وزیراعظم مذاق نہ کریں،صوبے میں بجلی کی پیداوار، نرخ مقرر کرنے ،ڈسٹری بیوشن اور نادہندگان کیخلاف کارروائی سمیت تمام نظام ہمارے حوالے کیا جائے،وزیراعلیٰ۔ فوٹو: فائل

وزیراعظم مذاق نہ کریں،صوبے میں بجلی کی پیداوار، نرخ مقرر کرنے ،ڈسٹری بیوشن اور نادہندگان کیخلاف کارروائی سمیت تمام نظام ہمارے حوالے کیا جائے،وزیراعلیٰ۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی خواہش پر وزیراعظم نوازشریف نے پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) کا کنٹرول خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کو دینے کی منظوری دیدی ہے۔

وزارت پانی وبجلی نے وزیراعظم کو درخواست کی تھی کہ پیسکو کا انتظامی کنٹرول صوبائی حکومت کے سپردکردیا جائے جس کی اتوار کو وزیراعظم نے منظوری دی۔ اب ایک دو روز میں وزارت پانی وبجلی وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور ان کی حکومت کو باقاعدہ ایک خط لکھے گی جس میں حکمراں پارٹی تحریک انصاف کے چیئرمین کی خواہش کے احترام میں وزیراعظم کی منظوری کے فیصلے سے آگاہ کیا جائیگا۔ وفاقی حکومت کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ صوبائی حکومت کو پیسکو کا کنٹرول سنبھالنے کی دعوت18 ویں ترمیم کے تناظر میں آئین میں دی گئی سہولت کے تحت دی جارہی ہے جس کے تحت صوبے بجلی کی ترسیل اور بلوں کی وصولی کی ذمے داریاں سنبھال سکتے ہیں، یاد رہے کہ پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی کے زیرانتظام علاقوں سے بجلی بلوں کی وصولی کی شرح ملک بھر کے تمام ڈسٹری بیوشن کمپنیوں سے کم ہے۔ پیسکو کے دائرہ کار میں بجلی کی ترسیل یقینی بنانا اور بجلی کے بلوں کی وصولی کی شرح قابل قبول حد تک لانا تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کیلیے چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔

بی بی سی نے بتایا کہ پاکستان میں بجلی بنانے اور اس کی تقسیم کا اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہے اور خیبرپختونخوا میں پانی سے پیدا ہونے والی بجلی سے ملک کی ضرورت کا بڑا حصہ ملتا ہے۔ ایک سرکاری افسر نے بی بی سی کوبتایا کہ پیسکو شاید ایک سفید ہاتھی ہے جہاں پرلائن لاسز35فیصد ہیں اورگزشتہ سال اس کا خسارہ8ارب روپے تھا۔ پیسکوکا پورا نظام بوسیدہ ہونے کی بدولت اس کی ڈسٹری بیوشن تقریباً ناکارہ ہے۔ گرڈ اسٹیشنوں کی اوورہالنگ کی ضرورت ہے۔ بجلی کی تاریں پرانی ہیں اورامن وامان کی خراب صورتحال کے باعث ایک تو کچھ علاقوں میں بجلی کے ٹاورز کو اڑا دیا جاتا ہے دوسرا وہاں پر میٹرریڈر کا جانا ناممکن ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بجلی کے نرخ بڑھنے سے صوبائی حکومت کو سیاسی طور پر مشکل صورتحال کا سامنا کرنا ہوگا، اس لئے وفاقی حکومت نے شاید پیسکو کوان کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرکے انھیں مشکل میں ڈال دیا ہے۔ دوسری طرف وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے کہا کہ پیسکو کا کنٹرول صوبائی حکومت کو دینے کے وزیراعظم کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں تاہم وزیراعظم خیبرپختونخوا سے پیدا ہونے والی 4200 میگا واٹ پن بجلی کا انتظام بھی صوبے کے حوالے کریں اور بجلی کے خالص منافع میں پختونخوا کے حصے کی ادائیگی بھی یقینی بنائیں۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے پیسکو کا کنٹرول صوبائی حکومت کو دینے کی پیش کش مسترد کردی ہے۔ ’’ایکسپریس‘‘ سے خصوصی گفتگو میں انھوں نے کہا کہ میں آج صبح (پیر) ہی وزیر اعظم نواز شریف کو خط لکھ کر اپنا موقف واضح کردوں گا۔ ہم بجلی بل کے ڈسٹری بیوٹر نہیں بننا چاہتے۔ صوبے میں بجلی کی پیداوار، بجلی کے نرخ کم یا زیادہ کرنے کا اختیار، ڈسٹری بیوشن، بل جاری کرنے، وصول کرنے اور نادہندگان کے خلاف کارروائی کرنے سمیت تمام نظام ہمارے حوالے کیا جائے، پرویز خٹک نے کہا کہ وزیراعظم ہماری صوبائی حکومت کے ساتھ مذاق نہ کریں، مذاق سے حکومتیں نہیں چلتیں، اگر یہ مذاق نہیں تو وزیر اعظم صوبہ پنجاب کو ایسا اختیار کیوں نہیں دیتے جو ہمیں دے رہے ہیں۔ ہمارا صوبہ اپنی ضرورت سے بھی ایک ہزار میگا واٹ زیادہ بجلی پیدا کر رہا ہے۔ ہمیں تو اپنی پیدا کردہ بجلی بھی ضرورت کے مطابق نہیں دی جارہی، ہمارے صوبے کے ساتھ یہ زیادتی کیا کم ہے کہ اب ہمارے ساتھ مزید مذاق کئے جارہے ہیں۔ وفاقی حکومت ہمیں اپنے صوبے میں بجلی پیدا کرنے، بجلی کے نرخ مقرر کرنے، بجلی تقسیم کرنے اور بل وصول کرنے سمیت سارا نظام ہمارے حوالے کرے ہمارے پاس کامیابی سے نظام چلانے کیلیے پورا پلان موجود ہے۔

ہم تمام ذمے داری قبول کرنے کیلیے تیار ہیں مگر ہمارے ساتھ مذاق ہرگز نہ کیا جائے، وفاقی حکومت کے ذمہ رائیلٹی کی مد میں ہماری بجلی کے اربوں روپے کے بقایا جات ہیں وفاقی حکومت وہ بھی ادا کرنے کا انتظام کرے، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ وفاقی حکومت اور وزیراعظم کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ میں بحیثیت وزیر اعلیٰ گزشتہ چار ماہ سے وزیراعظم سے ملنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن آج تک انھوں نے ملاقات کیلیے وقت نہیں دیا۔ مجھے اور ہمارے صوبے کے عوام کو اب یقین ہو چلا ہے کہ نواز شریف پاکستان نہیں صرف پنجاب کے وزیر اعظم ہیں۔ وہ سارے سرمایہ کار سرمایہ کاری بھی پنجاب میں لا رہے ہیں۔ باقی صوبوں کی تو جیسے انھیں فکر ہی نہیں، ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ ایک میٹنگ میں میں نے میاں صاحب سے شکوہ کیا کہ آپ سارے پاکستان کے وزیراعظم بنیں ہمارے صوبے میں بھی آئیں تو انھوں نے جواب دیا کہ آپ بلائیں تو میں آئوں گا، میں نے بلاتوقف کہا کہ آپ خیبر پختونخوا آئیں، سر آنکھوں پر، خود بھی آئیں، سرمایہ کار بھی لائیں، صوبائی حکومت وفاقی حکومت سے ایسا ہی تعاون چاہتی ہے جیسا آپ پنجاب حکومت کو فراہم کر رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔