مردم شماری اور شفافیت

ایڈیٹوریل  جمعـء 1 جنوری 2021
 صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ مردم شماری پر اختلافات اور تعصبات بھی سامنے آگئے ہیں۔ فوٹو:فائل

صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ مردم شماری پر اختلافات اور تعصبات بھی سامنے آگئے ہیں۔ فوٹو:فائل

وفاق نے ساتویں مردم شماری شیڈول سے پہلے اورشفاف انعقادکے لیے پانچ رکنی کمیٹی بنا دی ہے جبکہ وزارتی کمیٹی نے ’’قوم کے وسیع ترمفاد میں‘‘چھٹی مردم شماری کے متنازع نتائج قبول کرنے کی سفارش کی ہے۔

منصوبہ بندی وزارت کی طرف سے جاری بیان کے مطابق وفاقی وزیر اسد عمر نے ڈپٹی چیئرمین منصوبہ بندی کمیشن جہانزیب خان کی سربراہی میںکمیٹی بنائی ہے ، جس کا مقصد نہ صرف درست اعدادوشمار پر مبنی مردم شماری کرانا ہے بلکہ تمام فریقین کا اعتماد بھی جیتنا ہے کہ اس میں ملک بھر کے تمام علاقوں کی آبادی کی سچی عکاسی کی گئی ہے۔کمیٹی میں محمد احمد زبیر ، چیف ماہر معیشت ، سرورگوندل ، ممبر سپورٹ سروسز،پی بی ایس ، ڈاکٹر جی ایم عارف ، معروف ڈیموگرافر، ڈاکٹرنظام الدین ، معروف ڈیموگرافر اور نادرا کے نمائندے شامل ہیں ۔

صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ مردم شماری پر اختلافات اور تعصبات بھی سامنے آگئے ہیں، اس کا بھی ایک سیاسی اور سماجی و معروضی پس منظر ہے، مختلف طبقات اور سماجی اور لسانی گروہوں کے لسانی اختلافات اس سطح پر چلے گئے ہیں کہ ان میں بہت سارے نکات پر بحث صرف سیاسی  بنیاد تک محدود نہیں، مثال کے طور پر ایک فریق کا موقف یہ ہے کہ اس کمیونٹی کی آبادی کم دکھائی گئی ہے جبکہ وہ کراچی یا سندھ میں اپنی فکری، تہذیبی وحدت کو اپنے سیاسی اور جماعتی انفرادیت سے منسلک کرتے ہیں اور اپنی اکثریت اور تکثیریت پر استدلال پیش کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ مختلف مظاہراور شواہد سے اپنے لسانی وجود کی اکثریت کو ثابت بھی کرسکتے ہیں جبکہ حلقہ انتخاب اور ٹیکسوں کی مد میں اپنے گریٹر شئیر کا حوالہ دیتے ہیں، ان کے انداز نظرکے مطابق یہ آبادیاں جن علاقوں میں رہائش پذیر ہیں وہ بادی النظر میں ایک اکثریتی آبادی کا مظہر ہیں، ان کے اعتراضات جائے سکونت ، ملازمت ، لسانی اور تہذیبی  شواہدکے تاریخی پس منظر سے متعلق ہے، تاہم اسی قسم کے اعتراضات بلوچستان، خیبر پختونخوا، پنجاب اور دیگر علاقوں کے مکینوں کے بھی ہیں، لاتعداد قومیتیں اور ان کی ذیلی شاخیں اپنی آبادی کے شماریاتی استحقاق پر اپنا الگ بیانیہ رکھتی ہیں۔

بتایاگیا ہے کہ کمیٹی کے پاس یہ مینڈیٹ ہوگا کہ وہ 2017 کی مردم شماری کے دوران اعداد و شمار کے حصول کے طریقہ کار پر نظر ثانی کرسکے ، وہ آئندہ مردم شماری کے دوران خطے اوردنیا بھر میں استعمال جدید طریقہ کاراپنانے کی سفارش بھی کرے گی۔ واضح رہے مشترکہ مفادات کی کونسل( سی سی اے) کی منظوری سے چھٹی مردم شماری2017ء میں 15مارچ سے 25 مئی کے درمیان کی گئی اوراس کے نتائج اسی برس اگست میں جاری کیے گئے تھے، جسے سندھ نے یہ جواز بتا کرماننے سے انکارکردیا کہ اس کی آبادی میں بڑا اضافہ نہیں دکھایا گیا۔

اس کے باعث سی سی اے نے حتمی نتائج کا اجراء روک لیا جبکہ نومبرمیںتھرڈپارٹی کے ذریعے پانچویں مردم شماری کے نتائج کی توثیق کرنے کا فیصلہ کیا، تاہم گزشتہ حکومت نے حتمی نتائج جاری نہیں کیے تھے جبکہ توثیق کا عمل پی بی ایس کے ذریعے بھی نہیں کیا گیاتھا۔ وزارتی کمیٹی نے اس سال فروری میں وفاقی کابینہ نے مردم شماری 2017 ء کے حتمی نتائج کی منظوری اور تجاویز پیش کرنے کے لیے 5 ارکان کی کمیٹی تشکیل دی،جس نے غوروخوض کے بعد منگل کوکابینہ کو اپنی سفارشات پیش کیں،کابینہ نے حتمی فیصلے کے لیے سی سی آئی کو سفارشات ارسال کردی ہیں۔ وزارتی کمیٹی کے سربراہ سمندری امورکے وزیر علی زیدی تھے۔

میڈیا کے مطابق وفاقی کابینہ کو وزارتی کمیٹی کی سفارش کے مطابق، ’’بڑے قومی مفاد میں، چھٹی آبادی اور رہائشی مردم شماری 2017 ء کو حتمی طور پر قبول کرنا چاہیے۔کمیٹی نے یہ بھی سفارش کی کہ اگلی مردم شماری کا جلد سے جلد انعقاد کیا جائے جوفریقین کے ساتھ مشاورت سے طے کیا جاسکتا ہے، یہ چھٹی آبادی اور رہائش مردم شماری 2017 ء کی تاریخ سے 10سال کے وقفے سے پہلے ہوسکتی ہے۔ اس کی تیسری تجویز یہ تھی کہ گزشتہ مردم شماری کے سلسلے میں جن خدشات کا اظہارکیا گیا ، انھیں دورکرنے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال یقینی بنانا چاہیے۔

اس نے سفارش کی تھی کہ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے تحت کمیٹی تشکیل دی جاسکتی ہے جو نادرا ، الیکشن کمیشن آف پاکستان اور شماریات بیورو پر مشتمل ہو تاہم یہ کمیٹی منصوبہ بندی وزارت کے تحت تشکیل دی گئی ہے، جس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی نمائندگی نہیں ہے۔

عارضی نتائج کے مطابق جس سال 5ویں مردم شماری کی گئی ، تب ملکی آبادی حیران کن طورپر 20 کروڑ78لاکھ ہوگئی، جس میں 19 برسوں میں 75.4 ملین افراد کا اضافہ ہوا، یہ 1998 ء میں صرف 13کروڑتھی۔ اس کا مطلب ہے کہ آبادی میں2.4 فیصد سالانہ شرح سے57 فیصد اضافہ ہوا۔ اکثریتی 52.9 فیصدآبادی بدستور پنجاب میں رہتی ہے لیکن 1998 ء کی مردم شماری کے نتائج کے مقابلے میں آبادی کے حصے میں اس کا حصہ کم ہوا، جس کافائدہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کو ہوا جبکہ مجموعی آبادی میں سندھ کا 23 فیصد حصہ تبدیل نہیں ہوا حالانکہ یہ سب سے زیادہ 52.02 فیصد شہری آبادی والا صوبہ ہے،جس کے نتیجے میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں اور نوکریوں کا کوٹہ بدل سکتا ہے۔

صوبے کی کل شہری آبادی میں سے 68 فیصد تین بڑے شہروں کراچی ، حیدرآباد اور سکھر میں مرکوز ہے۔ سندھ کی سیاسی جماعتوں نے عارضی نتائج پر یہ کہتے ہوئے اعتراضات اٹھائے کہ کراچی کی آبادی 2 کروڑ سے زیادہ ہے جبکہ مردم شماری میں اس کی تعدادایک کروڑ49 لاکھ بتائی گئی۔

چھٹی آبادی مردم شماری کے ابتدائی نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ پچھلے 19 برسوں میں کراچی کی آبادی میں60 فیصد اضافہ ، لاہورکی آبادی میں 116فیصد اضافے کے مقابلے میں،2017 تک بڑھ کر 11.126 ملین افراد تک پہنچا۔ لاہور میں سب سے زیادہ شرح نموکے بعد پشاور میں100.4فیصد اور اسلام آباد میں91.8 فیصد اضافہ ہوا۔

اس وقت کے چیف مردم شماری کے کمشنر آصف باجوہ کا کہنا تھا کہ پی بی ایس نے صوبائی حکومت کے نوٹی فکیشن کے مطابق کراچی کی آبادی کو شہری علاقوں کے مطابق شمارکیا ہے۔ اس کے تحت 1998ء کے بعد سات موضعات کو چھوڑ کر،کراچی شہری حدود میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ان کا مزیدکہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی عالمی شہری آبادی رپورٹ میں بھی کراچی کی آبادی 16.12 ملین بتائی گئی۔

مذکورہ بالا حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے قبل از وقت اور شفاف مردم شماری کے لیے جولائحہ عمل بنایا گیا ہے اس میں قابل غور اس شفافیت اور اعتمادTrust کی ہے اور اس پر بحث کا نیا پینڈورا بکس نہیں کھلنا چاہیے، یہی وہ نکتہ ہے جس پر قومی مفاد میں اتفاق رائے کی ضرورت ہے، مگر اس ملین ڈالر سوال پر بھی مردم شماری کے سارے معاملہ پر سنجیدگی سے غوروفکر کرنا چاہیے کہ کیا جس اعتماد کی آبادی کے فریقین  سے یقین دہانی حاصل کی جائیگی وہ پچھلی مردم شماری کے نتائج پر عدم اتفاق کا ایسا اخلاقی جواز اور شواہد مہیا کرسکیں گی جو نئی مردم شماری پر قومی اعتماد واتفاق میں سنگ میل ثابت ہو۔

مردم شماری ایک بریک تھرو ہے، اگر اس ٹاسک کو مکمل کرنے میں ارباب اختیار کامیاب ہوگئے تو قوم کو ایک انجانی طمانیت سے سرشار ہوگی، عوام کے مختلف طبقات میں وسائل کی تقسیم اور ثمرات کی فراہمی کی راہ ہموار ہوگی اور اقتصادی نظام اور دیگر میکنزم کی تشکیل سے غریبوں،کسانوں اور محنت کشوں سمیت آبادی کے تمام طبقات کو یکساں سماجی ترقی اور خوش حالی کی نوید مل سکے گی، استحصال کا خاتمہ ہوگا اور مساوات کی منزل قریب آجائے گی۔

یہ حقیقت ہے کہ مردم شماری پر اتفاق اور شفاف مردم شماری نہ صرف ملکی معاشی ڈائنامکس،آبادی کے اشتراک، ہم آہنگی ، قومی یگانگت اور خیرسگالی کے لیے ایک بنیادی ڈیٹا اور چارٹرکی حیثیت رکھتی ہے،جب کسی قوم کو آبادی کے حقیقی اعدادوشمارکی صداقت پر کروڑوں کی آبادیوں کی طرف سے شکوک وشبہات کا مسئلہ درپیش ہو اور شہر ودیہات میں ترقی کی رفتار پر اطمینان کی شرح تنازع و تشویش کا باعث بنتی ہو، لوگ پریشان اور آسودگی کے انتظار میں عمر رواں کے حسیں خوابوں کو شرمندہ تعبیر نہ ہوتا دیکھیں تو ان کا طرز حکمرانی پر اعتبار بھی متزلزل ہوجاتا ہے، اس معاشرہ میں جہاں غربت وامارت کے درمیان عوام کو سونے کی دیوار نظر آجائے تو محرومیوں اور غربت کی دھند میں جمہوریت ایک سراب بن جاتی ہے، لوگ وسائل، جمہوری ثمرات اور زندگی کو سیاست کا سب سے بڑا چلنج سمجھنے لگتے ہیں اور عام آدمی کی نگاہ حکمرانی پر ٹک جاتی ہے۔

اس میں شک نہیں کہ سماجی انصاف ملے اور عوام کو روزگار ، رہائش،کپڑا اور بچوں کو تعلیم وصحت کی بنیادی سہولتیں دستیاب ہوں تو اس ملک خداداد کو قدرت نے جو وسائل دیے ہیں حکمران اپنی جمہوری اقدار کی وساطت اور عوام دوست معاشی پالیسیوں اور معاشرے کے تمام طبقات کی داد رسی کے ذریعے سماج کی کایا پلٹ سکتے ہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ سیاست دان جمہوریت کی اساسی قدروں اور اصولوں پر مبنی جمہوری عمل پر صدق دل سے یقین رکھیں، سیاسی بصیرت کا ثبوت دیں اورتعصبات سے بالاتر رکھیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔