بچوں کا پارک، مسمارکرنے کا منصوبہ

شبیر احمد ارمان  جمعـء 1 جنوری 2021
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

مصدقہ اطلاعات کے مطابق کراچی جنوبی میں واقع قدیمی بچوں کا پارک ( اسماعیل شہید پارک) کو منہدم کرنے اور اس کی جگہ علاقے کے لیے پینے کے پانی کی فراہمی کے لیے واٹر ٹینک بنانے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے ۔ اس ضمن میں گزشتہ دنوں متعلقہ محکمہ کے ذمہ داران نے اس پارک کا سروے بھی کیا تھا ۔

اس خبر سے علاقہ مکینوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کہ 55ہزار نفوس پر مشتمل آبادی والے علاقے شاہ بیگ لین بغدادی کے بچوں کے لیے یہ واحد پارک ہے جہاں بچے فارغ اوقات میں کھیلنے کے لیے آتے ہیں، جس سے ان کی جسمانی وذہنی نشوونما ہوتی ہے اگر یہ واحد پارک ختم کردیا گیا تو بچے پارک سے محروم ہوجائیں گے اور وہ سڑکوں پر کھیلنے لگیں گے جوکہ حادثات کا سبب بن سکتا ہے ۔

دوسری صورت میں بچوں کے حقوق بھی متاثر ہونے اور یہ ایک غیر قانونی عمل ہوگا کیونکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے واضح احکامات ہیں کہ کسی پارک کو منہدم کرکے وہاں کوئی دوسری عمارت تعمیر نہیں کی جاسکتی ہے ۔ علاقہ مکین اس امر پر بھی تشویش کا اظہار کررہے ہیں کہ پارک کی جگہ واٹر ٹینک تعمیر کرنے کی صورت میں ارد گرد کے مکانات کی بنیادوں کو سیم و تھور سے شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں ۔ مکینوں کا مطالبہ ہے کہ بچوں کے پارک کی تزئین وآرائش کی جائے تاکہ بچے فارغ اوقات میں صحت مندانہ ماحول میں کھیل کود سکیں ۔

1980ء کی دہائی تک اسماعیل شہید پارک کی جگہ سرکاری لیٹرین تھے، اس زمانے میں گھروں میں لیٹرین کا انتظام نہیں تھا ،علاقے کے لوگ ضروری حاجت رفع کے لیے انہی سرکاری لیٹرینوں کا رخ کیا کرتے تھے ۔ جب لیاری میں سیوریج لائن بچھائی گئی تو لوگوں نے اپنے گھروں میں لیٹرین بنانی شروع کردی جس کی وجہ سے ان کی اہمیت یکسر ختم ہوگئی ۔اس وقت کے علاقہ کونسلر ماسٹر جمیل احمد مراد نے اس جگہ پر بچوں کے لیے پارک تعمیرکیا ،جو بہت خوب صورت تھا اس میں خوشنما پودے اور درخت اگائے گئے ، بچوں کے لیے جھولے نصب کیے گئے ، پارک کی دیکھ بھال کے لیے پارک میں مالی کے لیے ایک کمرہ تعمیر کیا گیا جو اب بھی قائم ہے بعدازاں اس کمرہ کے برابر میں دوسرا کمرہ بنادیا گیا جہاں پارک کے باغوں کو پانی فراہم کرنے کے لیے واٹر موٹر پمپ نصب کردی گئی۔

یہ پارک علاقہ کے کمسن لڑکے اسماعیل کے نام سے منسوب ہے جو اپنے اسکول کی جانب سے آگ لگی گول رنگ کے اندر سے کودتے ہوئے جھلس کر ہلاک ہوگیا تھا جسے علاقہ مکینوں نے شہید کا لقب دیا ۔ ابتدائی دنوں میں یہ پارک بہت ہی خوب صورت تھا اس کی دیکھ بھال کے لیے علاقہ لوگوں نے بھر پور تعاون کیا تھا یہی وجہ تھی کہ بچوں کے سوا کوئی اور پارک میں داخل ہونے کی جرات نہیں کرسکتا تھا۔ آہستہ آہستہ متعلقہ محکمہ پارک کی توجہ کم ہوتی گئی اس دوران بلدیاتی ادارے ختم کیے گئے تو اسماعیل شہید پارک کا زوال شروع ہوگیا ،مالی کے لیے بنایا گیا کمرہ غیر متعلقہ افرادکے تصرف میں آگیا ، اس وقت متعددشکایتوں کے باجود پارک کی ناگفتہ بہ حالت میں بہتری نہ آسکی ۔

اس اثناء میں علاقے کے جامع مسجدکی ازسر نو تعمیر کاآغاز کیا گیا تو محکمہ باغات جنوبی لیاری زون کی اجازت سے اسماعیل شہید پارک کی جگہ پر 1990ء میں عارضی سیانا مسجد قائم کی گئی ۔اکتوبر 1993ء میں عارضی سیانا مسجد اپنی اصل مقام پر منتقل کی گئی ۔ 19مہنیے گزر جانے کے باوجود عوام سے کیے گئے وعدے کے مطابق اسماعیل شہید پارک کی حیثیت بحال نہیں کی جاسکی ہے ۔جس کے سبب پارک کا پلاٹ مسلسل ویران رہا ،اس پارک کے دو بڑے دروازے ہیں ایک گیٹ مین روڈ کی جانب تو دوسرا گلی کی طرف کھلتے ہیں ۔ سڑک کی طرف گیٹ کو اس وقت کھول دیا جاتا ہے جب علاقے میں کوئی غمی و خوشی میں استعمال میں لایا جانا ہوتا ۔

خاص طور پر شادی بیاہ میں استعمال ہونے پر علاقہ مکینوں کو آئے روز پریشانیوں کا سامنا تھا اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ اس پارک کے دروازوں کی چابیاں مالی کے بجائے من پسند کسی فرد کے حوالے تھے اس لاپروائی کی وجہ سے پارک غلط کاموں میں استعمال ہونے لگا تھا ان خرابیوں کی نشاندہی جب کی گئی تورنجشیں پیدا ہوئیں ،بات تھانہ تک پہنچی ، اس ضمن میں اس وقت کے ایڈمنسٹریٹر بلدیہ عظمیٰ کراچی کپٹین فہیم الزامان سے تحریری شکایت کی گئی جب شنوائی نہ ہوئی تو صوبائی محتسب اعلیٰ سے رجوع کیا گیا ایک عرصے تک کیس چلتا رہا پیشیاں ہوتی رہی اور بالآخر فیصلہ پاک یوتھ اکیڈمی کے حق میں ہوا جس کے مطابق اسماعیل شہید پارک کو بحال کرنا تھا اور پارک کی نگرانی پاک یوتھ اکیڈمی کے ذمہ دی گئی ۔

اس مدت کے دوران ملک میں قومی و صوبائی سطح پر نگراں حکومتیں قائم ہوئیں ۔ صوبہ سندھ کے نگراں وزیر بلدیات و اطلاعات سینئر صحافی وکالم نگار آغا مسعود حسین نامزد ہوئے، راقم الحروف نے ان کی وزارت سے اسماعیل شہید پارک کی بحالی کے لیے تحریری درخواست کی ۔ وزیر بلدیات واطلاعات آغا مسعود حسین کی خصوصی ہدایت پر اسماعیل شہید پارک کی حیثیت اس صورت بحال کی کہ جیسے یہ پارک لیاری کا نہیں بلکہ کسی ترقی یافتہ علاقہ کا پارک ہو ۔ اس میں گھاس لگائی گئی ، مختلف رنگوں کے پھول پودے اگائے گئے ، درخت اگائے گئے ، اور بچوں کے لیے جھولے لگائے گئے ۔

اس طرح اہل شاہ بیگ لین بغدادی کے بچوں کو صحت مند ماحول میسر آگیا ۔ لیکن بدقسمتی سے یہ خوشگوار ماحول وقتی ثابت ہوا۔ تمام تر نگرانی کے باجود علاقہ مکینوں نے زبردستی اس پارک میں شادی کی تقریبات منعقد کرنا شروع کردی اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے یہ خوب صورت پارک ایک مرتبہ پھر اجڑگیا اور ایسا ویران ہوگیا کہ جسے دیکھ کر مالی بھی رو پڑا اور میں اس قدر دل برادشتہ ہوگیا کہ آج تک اس کی ہریالی مجھے بے کل کردیتے ہیں ۔

جب لیاری کو گینگ وارکا لقب ملا یعنی لیاری کی امن و امان کو تہہ وبالا کردیا گیا تو یہ پارک علاقہ کے کمانڈر لالا جینگو کے تصرف میں آگیا اور لیاری کے ابتر حالات میں بہتری آنے کے بعد پھر اس کی تزئین و آرائش کی گئی اس طرح علاقے کے بچوں کو پھر سے پارک میںکھیلنے کا موقع میسرآگیا۔ مذکورہ بالا تمام حالات و واقعات سے قبل پاک یوتھ اکیڈمی اور اور انجمن محبان رسول کی مشترکہ کوششوں کے نتیجے میں اس پارک کی جگہ پر کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ ، ٹائپنگ سینٹر ، پبلک لائبریری ،خواتین کے لیے سلائی کڑائی کا مرکز ،کمیونٹی ہال اور دیگر فلاحی منصوبے قائم کرنے تھے جس کی عمارت کے لیے اس وقت کے علاقائی مشاورتی کونسلر غلام محمد سموں نے باقاعدہ فنڈز مختص کیے تھے اور مجوزہ نقشہ بھی تیار کروایا تھا کہ اچانک اس منصوبہ کی مخالفت کچھ لوگوں نے کی اور جواز بیان کیا کہ اس طرح گلی کی چادر اور چہاردیواری کی تقدس پامال ہوسکتا ہے جبکہ حقیقت میں یہ وہ ٹولہ تھا جسے پارک کی جگہ قبضہ کرنے سے ناکام بنادیا گیاتھا ،اس طرح یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ نہ سکا تھا ۔

حالات نے ایک اور کروٹ لی ہوئی ہے اس بار علاقے میں پانی کی فراہمی میں آسانی کے لیے اسی اسماعیل شہید پارک کی جگہ پر واٹر ٹینک تعمیرکرنے کے منصوبہ کی باز گشت ہے اس حوالے سے علاقہ مکین تحفظات کا اظہار کررہے ہیں ، دیکھنا یہ ہے کہ اس بار اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔