جانوروں اورپرندوں کا شکار جاری رکھیں؟

راؤ منظر حیات  جمعـء 1 جنوری 2021
raomanzar@hotmail.com

[email protected]

پچیس برس پہلے شکارکاشوق تھا۔قانون اور ضابطے میں رہ کراکثراوقات شکار کے لیے چلاجاتا تھا۔چولستان کے صحرامیں بھی شکارکھیلاتھا۔مگراس وقت بھی اعتدال سے کام لیا۔

بلوچستان خصوصاً لورالائی میں پوسٹنگ کے دوران میں بھی پرندوں کا شکار کرتا رہا۔ مگر اس کے بعد یک لخت اس کھیل کواپنے لیے ممنوع قرار دیدیا۔سوچتاہوں کہ کیاوجہ تھی کہ اس پسندیدہ شغل کوختم کرڈالا۔کوئی ایک وجہ تونہیں ہے۔مگرکئی ایسے واقعات گزرے جنہوں نے پرندوں اورجانوروں کی حفاظت کی طرف مائل کردیا۔شایدذہنی پختگی کابھی اثرتھا۔ کسی مظلوم پرندے کو محض شوق کے لیے ماردینا، مناسب نہیں لگتا۔

کئی دوست،میرے استدلال سے متفق نہیں ہوں گے۔ہونابھی نہیں چاہیے۔اس لیے بھی کہ ہرطرح کے لوگ ہیں اوراَن گنت طرح کے خیالات۔ مگراکیلے بیٹھ کرغورکروں توکچھ یادیں اُبھرکرسامنے آتی ہیں۔ انہی کی بدولت نتائج اَخذکرناآسان ہوجاتا ہے۔ مگریہ بات بہت عرصے بعد سمجھ آتی ہے۔انہی نتائج میں سے ایک شکارکوخیربادکہناشامل ہے۔صرف ایک واقعہ عرض کروںگا۔ایک دوست نے جو شکار میں حددرجے دلچسپی رکھتے تھے،فون کرکے کہاکہ وہ شکار کے لیے میرے پاس آناچاہتے ہیں۔سیزن کھلا ہوا تھا،محکمہ جنگلات کااجازت نامہ ان کے پاس تھا۔

بغیرترددکے حامی بھرلی، وہ میرے پاس دوتین دن رہے۔ دلچسپ اوراچھے آدمی ہیں۔اپنی صحت کے متلق حددرجہ محتاط رہتے تھے۔خیردوتین دن بعد واپس چلے گئے۔جاتے جاتے بتایاکہ ان کے ساتھ نوکروں کی ایک ٹیم بھی آئی ہوئی ہے جوکسی ریسٹ ہائوس میں مقیم ہیں۔وہ سارے کے سارے پروفیشنل شکاری ہیں،ان تین دنوں میں ملازموں نے سیکڑوں تیترمارلیے۔

مجھے حددرجہ افسوس ہواکیونکہ ہم دونوں نے صرف دس بارہ پرندے ہی  شکارکیے تھے۔ زندگی میں پہلی باراحساس ہواکہ اکثر لوگ اسے کھیل کے طورپرنہیں بلکہ اپنے فریزرزمیں گوشت جمع کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔اس واقعہ کوبہت سال گزرگئے ہیںمگراس دن،دل میں احساس ضرور جاگاکہ اس کھیل میں کیونکہ ضبط بہت کم ہے، لہذااسے ترک کرنا چاہیے۔ چندواقعات اوربھی ہیںمگرلکھنانہیں چاہتا۔

پھرذہن بالکل متضاد راہ پر چل پڑا۔جنگلی حیات سے محبت نہیں بلکہ عشق شروع ہوگیا۔ عشق کالفظ کیفیت کوبہترطریقے سے سامنے لاتاہے۔سرکاری دورے پر جس بھی ملک میں گیا،کام ختم کرنے کے بعد، چڑیا گھر اورسفاری پارک ضروردیکھے۔ لندن، ماسکو، ڈیلس، جوہانسبرگ،نیروبی اور دیگر شہروں میں چڑیا گھر دیکھتا رہا۔ کینیامیں جاکر ششدررہ گیا۔نیروبی کے نزدیک جس طرح حکومت نے سفاری پارک بنائے ہیں، وہ اتنے مسحورکن ہیں کہ انسانی عقل حیران رہ جاتی ہے۔ سیکڑوں ایکڑوں پرمحیط جنگلات،بہترین ہوٹل اور ہر قسم کی سہولت سے آراستہ۔ سالانہ لاکھوں سیاح دیکھنے آتے ہیں۔

مجھے ہر جگہ گورے نظرآئے۔ہاتھوں میں بڑے بڑے کیمرے لیکرخاموشی سے جانوروں کی تصویریں بنارہے تھے۔اس سفاری پارک میں دو چیزیں ایسی تھیں جوذہن کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ایک توکھلی فضا میں ہاتھی نظرآئے۔ تقریباًسوفٹ کے فاصلہ پر دیکھنے کاموقعہ ملا۔ دوسرا،ہرن کے بچوں کارقص۔کم ازکم دوتین سوہرن نزدیک کھڑے ہوئے تھے۔ان میں درجنوں چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے۔یہ بچے آپس میں کھیل کود رہے تھے۔پہلی باراحساس ہواکہ کھلی فضامیں جانورکیامحسوس کرتے ہیں۔حددرجہ راحت اورخوشی۔تمام چھوٹے چھوٹے ہرن،فضا میں کلانچیںبھررہے تھے۔ان کے پیرزمین پرلگتے تھے اورپھریہ طویل چھلانگ دوبارہ لگالیتے تھے۔

ہرن کے  درجنوں بچے فضامیں دائروں کی طرح گھوم رہے تھے۔ کمال نظارہ تھا۔کئی منٹ مبہوت دیکھتارہا۔دوبارہ زندگی میں ایساکچھ دیکھنے کونہیں ملا۔پہلی بارلکھ رہاہوں کہ اس وقت خیال دل میں آیاکہ ریٹائرمنٹ کے بعد کسی ایسے افریقی ملک میں سیاحوں کے لیے ایسا ہی کوئی سفاری پارک بنالوں، مگرجس طرح زندگی کی اکثرذاتی خواہشات پوری نہ کرسکا،اسی طرح یہ بھی اُدھوری رہی۔ اصل میں،اولادکی تعلیم وتربیت اس قدردشوار کام ہے کہ انسانی زندگی اس کی نذرہوجاتی ہے۔ میں بھی عام سفیدپوش آدمی ہوں۔لہذاپوری زندگی اپنی طرف دیکھنے کادھیان ہی نہیں ملا۔

ذہن پرزورڈالاتوتیسرے واقعہ کے نقوش بھی اُبھررہے ہیں۔سائوتھ افریقہ میں جوہانسبرگ کے نزدیک قدرتی جھیلیں ہیں۔ان کے کنارہ پرکاروباری لوگوںنے ہٹس بنائی ہیں۔عام لوگوں کوکرائے پر دستیاب ہیں۔فائیواسٹارسطح کے آراستہ کمرے، محفوظ ماحول، کھانے پینے کابہترین نظام،پیدل چلنے کے لیے وسیع گرائونڈ،غرض ہرسہولت موجود ہے۔ زیادہ تر ہندو گجراتی سیٹھوں کی ملکیت ہیں۔ مگر سب سے متاثرکن اَمریہ ہٹس نہیں بلکہ جھیل کی سیر ہے۔ موٹربوٹ میں بٹھا کرکوئی تیس منٹ کی تفریح۔کمال ہے۔صاحبان! کمال۔جھیل میں درجنوں دریائی گھوڑے موجود تھے۔ موٹربوٹ کی آوازسن کر تھوڑا سا سرباہرنکالتے تھے۔

بچوں کی طرح دونوں آنکھوں سے ہمیں دیکھتے ،پھر پانی میں غائب ہوجاتے تھے۔ اُردوکاجملہ یا لفظ ذہن میں نہیں آرہا۔مگربچوں کا ایک کھیل جسے پنجابی میں ’’لکن میٹی‘‘کہتے ہیںکا گمان ہوتاتھا۔ان کے ذہن انسانی بچوں جیسے معصوم ہیں۔یہ ہمیں دیکھ کرپانی میں چھپ جاتے تھے۔ شایداس لیے کہ ہم انہیں تلاش کرنے کی کوشش کریں۔عرض کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ آہستہ آہستہ جانوروں کے شکارسے دل بجھ گیا بلکہ اُلٹ ہوگیا۔دہائیوںسے پرندے، جانوروں کومحفوظ رکھنے کے لیے کوشاں ہوں۔یہ سب کچھ لکھنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ جس طرح ہمیں زندہ رہنے کاحق حاصل ہے،بالکل اسی طرح جنگلی حیات کو بھی آزاد زندگی کا پورا حق حاصل ہے۔

جیسے ہمیں چوٹ لگنے پرتکلیف ہوتی ہے، اسی طرح جانور اور پرندے بھی زخم لگنے سے آبدیدہ ہوتے اور زخموں سے کراہتے ہیں۔روتے ہیں۔مگرہمیں ان کی زبان سمجھ نہیں آتی۔اس لیے اپنی بے رحمی جاری رکھتے ہیں۔ جب سے یہ عقدہ کھلاہے۔اس دن سے آج تک بندوق کوہاتھ نہیں لگایا۔کبھی شکارنہیں کھیلا۔اب گھرمیں بندوق اسٹڈی روم میں ایسے پڑی ہے، جیسے کوئی پرانا ڈیکوریشن پیس ہے۔

خاص حدود میں رہ کرشکارکی یکسرمخالفت نہیں کی جاسکتی۔مگران بے زبانوں پرظلم کرنے کی توکوئی گنجائش نہیں۔ان کی نسل کشی کی بھی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ہمارے ہاں،شکارکھیلنے میں قطعاً توازن نہیں ہے۔شایدہم اسے گوشت کی فراہمی یا لوگوں پر رعب جھاڑنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ویسے یہ کچھ لوگوں کاکاروباربھی ہے۔جیسے چولستان کے صحرامیں کئی لوگ ہرن کوغیرقانونی طریقے سے مارتے ہیں۔اور پھراس کاگوشت بیچ دیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح کئی بار زندہ جانوروں اورپرندوں کو پکڑکرفروخت کردیاجاتا ہے۔مگرجس معاشرے میں انسان بک رہے ہوں، وہاں ان معصوموں کی حفاظت کاکیاذکرکروں۔دراصل انسان اپنی فطرت میں ایذیت پسندہے۔

دوسروں کو تکلیف پہنچاکر خوش ہوتاہے۔اس خوشی کواپنی ذاتی زندگی کاحصہ بنا لیتاہے۔ویسے سرکاری نوکری میں اکثرافسر ماتحتوں اور سائلوں کوذلیل کرکے حددرجہ خوش ہوتے ہیں بلکہ پھرقصے سناتے ہیں کہ یاد ہے، فلاں کی میں نے کیسی درگت بنائی۔یہی موذی افسر، ریٹائرمنٹ کے بعد،اس قدرملائم ہوجاتے ہیں کہ یقین نہیں آتا۔ بات جنگلی حیات کی ہورہی تھی۔معلوم ہوتا رہتا ہے کہ کچھ احباب آج بھی دیوانے ہوکر پرندوں کوشکارکرتے ہیں۔

شکار کیے گئے پرندوں کے ساتھ تصاویرکھینچواتے ہیں، پھر اسے سوشل میڈیا پراپنے کارنامے کے طورپرپیش کرتے ہیں۔ پتہ نہیں،محکمہ جنگلات کاعملہ اس قماش کے لوگوں کے خلاف بروقت کارروائی کیوں نہیں ہوکرتا۔ مگروہ بیچارے بھی کیاکرسکتے ہیں۔یہ زورآور یا ان کے پروردہ ایجنٹ نما لوگوں کا شوق ہے، ایسے لوگ خود کو قانون کے خوف سے آزاد سمجھتے ہیں۔

جانداروں کی کئی اقسام ہیں جوہمارے سامنے دم توڑرہی ہیں۔انڈس ڈولفن تقریباًمعدوم ہونے کے نزدیک پہنچ چکی ہے۔وجہ سادہ سی ہے، لوگ اس کا باقاعدہ شکارکرتے ہیںجومکمل طورپرغیرقانونی ہے۔ ادھر آبی آلودگی کی وجہ سے یہ جانورخودبخود مر رہا ہے۔ غیرمحسوس طریقے سے اس کی نسل ختم ہورہی ہے۔میں نے سندھ حکومت سے یہ درخواست کرنی ہے کہ ڈولفن کی حفاظت کریں۔بالکل اسی طرح سائبرین کرین (Siberian Crane)کی نسل ہے۔سائبیریاسے ہرسال منتقل ہوکرآنے والے انتہائی خوبصورت پرندے اب گھٹتے جارہے ہیں۔ دنیامیں،اس وقت ان کی تعداد تیزی سے کم ہورہی ہے۔

جب یہ پرندے ہمارے علاقوں میں بسیرا کرتے ہیں تو بزدل شکاری ان کی نسل کوبھرپور طریقے سے مزیدختم کرتے ہیں۔کسی کو خیال نہیں کہ ان کے ہاتھوں ظلم ہورہاہے۔ متعدد جانوراور پرندے اوربھی ہیں جن کی نسل کو برباد کر دیا گیا ہے۔ اب صرف ان کے نام رہ گئے ہیں۔ یاد رکھیے،جناب!پرندوں اورجانوروں کے بھی حقوق ہیں، ان کی قدراورحفاظت کیجئے۔ مگر میں توغلط بات لکھ گیا، جس معاشرے میں انسانوں کی کوئی قدر ومنزلت نہیں،وہاں بھلا جانوروں کے حقوق کاکیا ذکرکرنا! شاید مجھے اس طرح کے کالم نہیں لکھنے چاہییں! آپ بے خوفی پرندوں اورجانوروں پر بندوقیں چلائیں، کو ماریے اور مزے سے کھائیے ؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔