سال ختم ہوگیا لیکن عوامی مصائب ختم نہ ہوسکے

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 1 جنوری 2021
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

نیا سال2021 طلوع ہو چکا ہے لیکن کس دل سے نئے سال کی مبارکباد دی جائے ؟بے پناہ مہنگائی، دل فگار بیروزگاری اور سیاسی ابتری کا سیاپا کرتے پاکستانی عوام نے روتے دھوتے ایک سال اور گزار لیا ہے۔

عوام بیک زبان کہہ رہے ہیں: یہ 365دن نہیں گزرے، یوں سمجھیے 365 نئے مصائب ہم بے بس اور بے کس عوام نے اپنی چھاتی پر سہے ہیں ۔ سارا سال اُمید کا دیا ٹمٹماتا رہا لیکن شومئی قسمت سے اس کی لَو تیز نہ ہو سکی ۔حکمرانوں سے اگر پوچھا جائے: حضور ، اس گزرے برس میں اپنے کسی ایک ایسے قدم کا ذکر فرما دیجیے جو عوامی ریلیف کے لیے اٹھایا گیا تو وہ دائیں بائیں دیکھنے لگتے ہیں۔

اس گزرے سال میں بھی یہی تان توڑی جاتی رہی: پچھلے حکمران اس ملک کا بیڑہ غرق کر گئے ،اور یہ کہ این آر او نہیں دیا جائیگا۔ اب عوام بجا طور پر کہتے سنائی دے رہے ہیں کہ تبدیلی والے حکمران جتنی پھرتیاں معینہ وقت سے پہلے سینیٹ انتخابات کا تاج اپنے سر سجانے اور اپنے سیاسی حریفوں کو زندانوں میں بھیجنے کے لیے دکھا رہے ہیں ، اگر ان پھرتیوں کا عشرِ عشیر بھی عوامی مسائل و مصائب حل کرنے میں بروئے کار لایا جاتا تو یقیناًملک کے 22کروڑ عوام کو کچھ نہ کچھ معاشی ریلیف فراہم کیا جا سکتا تھا۔

ایسا مگر بدقسمتی سے نہیں ہو سکا۔ حیرانی کی بات ہے کہ سرکش اور بے لگام مہنگائی کے ایام میں حکمران خود ہی آپس میں مبارکبادیں تقسیم کرتے سنائی دیتے رہے : مَیں اپنی ٹیم کو مبارکباد دیتا ہُوں کہ چینی کی قیمت خاصی کم ہو گئی ہے۔ خاصی کم ہو گئی ہے؟پر کہاں؟ عجب قیامت ہے کہ حکمرانوں کے آزو بازو میں بیٹھنے والے جملہ حواری اپنے مالی مفادات میں چینی کے نرخوں میں پہلے 80روپے فی کلو گرام اضافہ کرکے مجبور عوام کی جیبوں سے اربوں روپیہ نکال لے جاتے ہیں اور عوام سینہ کوبی کرتے رہ جاتے ہیں۔

اور پھر کئی ماہ بعد، جھونگے میں، چینی کی قیمت میں 20روپے فی کلو کم کردیتے ہیں اور کہتے ہیں : مبارکاں، چینی کی قیمت میں خاصی کمی کر دی ہے۔ اور چینی بھی وہ جو دساور سے درآمد کی گئی ہے اور جس پر پاکستان کا اربوں کا زرِ مبادلہ خرچ ہو گیا ہے لیکن چینی کے نام پر عوام کو لوٹنے والوں پر ہاتھ نہ ڈالا جا سکا۔

گزرے برس میںکرلاتے عوام کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہُوئے ہمارے حکمران ’’نوید‘‘ سناتے رہے: ’’ ملک کے معاشی اشارئیے مثبت جا رہے ہیں‘‘۔ لیکن ان مبینہ ’’مثبت اشاریوں‘‘ کے باوجودعوام کی حالت بد سے بدترین کیوں ہوتی گئی ؟ یہ کوئی نہیں بتاتا۔ ان مبینہ ’’مثبت اشاریوں‘‘ کے باوصف روٹی اور آٹے کی قیمتیں نیچے آنے کو تیار کیوں نہیں ہیں؟ گزرے برس میں روزگار کے مواقع دن بدن سکڑتے کیوں چلے گئے  ہیں؟تبدیلی کے دل افروز نعروں میں اقتدار کی چھتر چھاؤں میں بیٹھنے والے اب عوام کے ان سوالوں کا جواب دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

جواب پوچھا جائے تو جواباً کہا جاتا ہے : میڈیا والے ہمارے اچھے کاموں کی تعریف کرنے میں بخل سے کام لیتے ہیں۔ اپنے مبینہ ’’اچھے کاموں‘‘ کی فہرست عوامی عدالت میں مگر پیش کرنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ہے۔حکمران بس میڈیا کو لا حاصل انٹرویوز دیتے رہے۔ گزرے برس کے دوران ٹیکس ریٹرنز کی شرح میں بھی خاصی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ یہ دراصل ٹیکس دینے والوں کا حکمرانوں پر عدم اعتماد ہے۔ اب تو قرض کی مَے پینے والے بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ فاقہ کشی رنگ لانے والی نہیں۔ اور غیر ملکی قرض ہیں کہ گردن تک آ پہنچے ہیں ۔

وفاقی حکومت کی وزارتِ اقتصادی اُمور کے ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ یہ حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے، اب تک 23ارب 60کروڑ ڈالر کے غیر ملکی قرضے لے چکی ہے ۔یہ ہماری مالی تاریخ کا سب سے بڑا غیر ملکی قرض ہے ۔ اس کے باوجود عوام کی حالت سدھر نہیں سکی ہے۔ اتنا بھاری قرض گیا کہاں؟رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران ( جولائی 2020ء تا نومبر 2020ء) حکومت کی طرف سے لیے گئے غیر ملکی قرضوں میں 45فیصد اضافہ ہُوا ہے۔یہ بھاری بھر کم قرض مگر کون اتارے گا؟اس بارے میں ہمارے ہر قسم کے حکمران ، وزیر ان و مشیرانِ با تدبیر خاموش ہیں۔

تبدیلی حکمران اقتدار کے تخت پر براجمان ہونے سے قبل فرمایا کرتے تھے : ہم قرضوں کے لیے ہاتھ دراز نہیں کریں گے ۔ عمل کا میدان سجا تو یہ حکمران پاکستان میں ماضی کے سبھی حکمرانوں سے کہیں زیادہ قرضے لینے والے ثابت ہُوئے ۔ قرضے نہ لینے کے معاملے میں بھی ہمارے محبوب حکمران نے یو ٹرن لیا ہے ۔ عوام حالانکہ اُن سے رائٹ ٹرن لینے کی توقع کرتے رہے ۔جناب عمران خان نے ’’تاریخ ساز‘‘ اعلان کیا تھا کہ ہم قرضوں کے لیے آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے لیکن موصوف نے اب اس پر بھی یو ٹون لے لیا ہے ۔18دسمبر2020ء کو یہ خبر پاکستانی عوام پر بجلی بن کر گری ہے کہ ’’آئی ایم ایف پروگرام شروع کرنے کے لیے وزیر اعظم عمران خان نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دے دی ہے ۔‘‘

اِس گزرے بد حال سال کے دوران عوام منتظر رہے کہ آٹاو چینی چوری کرنے اور پٹرول کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کرنے والے مافیاز کو قرار واقعی سزائیں ملیں گی لیکن یہ انتظار محض انتظار ہی رہا۔ اب تو حکومت کی رپورٹ بھی آگئی ہے کہ گزرے برس کے دوران وہ کونسی سات کمپنیاں تھیں جنہوں نے ظالم مافیا بن کر پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرکے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا لیکن حکومت نے ان پر بھی ہاتھ ابھی تک نہیں ڈالا۔یہ سال یوں بھی گزرا ہے کہ ہمارے روپے کی قیمت غریب کی عزت کی طرح کم سے کمتر ہوتی چلی گئی۔

بقول شخصے، ڈالر کی قیمت میں اگر دس فیصد اضافہ ہُوا تو ’’یار لوگوں‘‘ نے اس میں پچاس فیصد اضافہ کر دیا۔ کوئی پوچھنے والا ہی نہیں رہا۔ گزرے برس میں مہنگائی کرکے عوام کو سرِ عام لُوٹنے والے شتر بے مہار رہے۔ انڈے فی درجن360روپے تک بھی فروخت ہوئے لیکن کسی نے پوچھا تک نہیں کہ عوام کس بھاؤ سرِ بازار فروخت ہو رہے ہیں۔حکومت نے کمال لاپروائی سے کہہ دیا: بے تحاشہ مہنگائی کے کارن غریب عوام کا گزارا نہیں ہورہا ہے تو مَیں کیا کروں؟

یہ مبالغہ نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ 2020ء کے دوران پاکستان میں شرحِ مہنگائی دُنیا میں سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئی ۔ اس کمر شکن مہنگائی کے کارن عوام سارا سال روتے بلکتے رہے لیکن حکمرانوں نے عوام کی اشک شوئی کی کوئی دانستہ یا نادانستہ کوشش نہیں کی۔احتساب کا ڈھول البتہ خوب بجایا جاتا رہا لیکن اس میں سے بھی نکلا کیا؟ خواجہ آصف اس احتساب کے نئے شکار بنے ہیں۔ اپوزیشن کے ایک لیڈر پر بغاوت کا مقدمہ قائم کرنے اور نواز شریف کا پاسپورٹ منسوخ کرنے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ نیا سال طلوع ہو چکا ہے ۔ نئے سال کے ساتھ ہی عوام نئے عذاب بھگتنے کے لیے تیار ہو جائیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔