ملکی معیشت میں زراعت کا کردار

ایڈیٹوریل  اتوار 3 جنوری 2021
سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ کون سی اشیاء ہیں جن کو بیرون ملک برآمد کر کے پاکستان اپنی اقتصادی مشکلات پر قابو پا سکتا ہے۔ فوٹو: رائٹرز/ فائل

سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ کون سی اشیاء ہیں جن کو بیرون ملک برآمد کر کے پاکستان اپنی اقتصادی مشکلات پر قابو پا سکتا ہے۔ فوٹو: رائٹرز/ فائل

نئے سال کا آغاز ہو چکا ہے جب کہ تحریک انصاف اپنے اقتدار کے تیسرے سال کی تکمیل کی طرف گامزن ہے۔ اڑھائی برس سے زائد عرصے اقتدار میں رہنے کے دوران تحریک انصاف کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے اپنی بساط کے مطابق ملکی معیشت بہتر کرنے اور عوام کو ریلیف دینے کی پوری کوشش کی لیکن پے درپے مختلف قسم کے بحرانوں نے حکومت کو ایسا لپیٹ میں لیا کہ وہ اپنے ووٹرز کے اس معیار اور توقع کے مطابق پرفارم نہیں کر سکی جس کی وہ خواہش رکھتے تھے۔

جب موجودہ حکومت اقتدار میں آئی تو ماضی کی حکومتوں کے پیدا شدہ مسائل کو حل کرنے میں لگی رہی ۔ اس دوران کنٹرول لائن پر بھارتی عزائم خطرناک ہوئے اور نوبت دونوں ملکوں کے درمیان لڑائی تک پہنچ گئی۔ پاکستان کی فضائیہ نے ایک بھارتی طیارہ مار گرایا اور اس کے پائلٹ کو گرفتار کر لیا۔ یوں حکومت کی ساری توجہ اس خطرناک صورت حال کو نارمل کرنے پر لگ گئی۔ اسی دوران کرپشن کے الزام میں مختلف افراد کی گرفتاری شروع ہوئی تو ملک میں کاروباری سرگرمیوں پر اس کا منفی اثر پڑنا شروع ہوا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے ہونے میں بھی خاصا وقت لگ گیا جس کی وجہ سے ملکی معیشت پر دباؤ شدید ہو گیا۔

اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کا رجحان بڑھنے لگا۔ حکومت نے آئی ایم ایف سے کامیاب مذاکرات کیے اور معاشی اشاریے بہتر ہونے کی امید بندھی لیکن اس دوران بھی کرونا کی وباء نے ساری منصوبہ بندی کو تلپٹ کر دیا۔ کرونا کی وباء ابھی تک جاری ہے اور ملک میں کاروباری سرگرمیاں اب بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بہت بڑھ چکی ہیں جب کہ ادویات کے نرخوں میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ کرونا وباء کے باعث کاروباری سرگرمیاں متاثر ہونے کی وجہ سے بے روزگاری میں بھی خاصا اضافہ ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت پر مسلسل تنقید ہو رہی ہے کہ وہ ڈیلیور کرنے میں ناکام ہے۔

اڑھائی برسوں میں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔ حکومتی پالیسی سازوں کے بیانات اور دعوے اپنی جگہ رہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت کو اس وقت معاشی اور سیاسی دونوں محاذوں پر شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد بن چکا ہے اور یہ جماعتیں حکومت کے خلاف تحریک چلانے میں مصروف ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ حکومت نے اس امنڈتے ہوئے سیاسی طوفان کے آگے بند باندھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش بھی نہیں کی۔

وزیراعظم اور تحریک انصاف کی قیادت کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ جب تک ملک کا سیاسی ماحول بہتر نہیں ہوتا، حکومت معاشی استحکام کی منزل تک نہیں پہنچ سکتی۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ حکومت اپنے مؤقف پر ڈٹی ہوئی ہے جب کہ پی ڈی ایم کی قیادت بھی کریز سے باہر نکل کر شارٹ کھیل رہی ہے۔ کرونا وائرس کے دوران بھی ملک میں قومی یکجہتی کا فقدان نظر آیا ہے۔ اس معاملے میں بھی حکومت نے تنہا پرواز کرنے کے آپشن کو استعمال کیا۔ کرونا وباء سے بچنے کے لیے لاک ڈاؤن کے لیے بھی کوئی ٹھوس لائحہ عمل سامنے نہیں آیا اور حکومت ایک ڈھلمل پالیسی پر گامزن رہی اور ابھی تک یہی پالیسی چلی آ رہی ہے۔

وفاقی حکومت نے کنسٹرکشن اور رئیل اسٹیٹ کے شعبے کے لیے ٹیکس ایمنسٹی پالیسی تیار کی۔ اس سے گراس روٹ لیول تک نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ اس اسکیم سے بھی ایسے طبقات نے فائدہ اٹھایا جن کے پاس کالادھن موجود تھا۔ انھوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کر کے اپنے پیسے کو وائٹ کر لیا لیکن درمیانے درجے کے تاجروں کے لیے کسی قسم کا کوئی ریلیف سامنے نہیں آیا۔ پاکستان کے ٹیکس نظام میں پیچیدگیوں کے باعث تاجر طبقات میں تحفظات پیدا ہوئے جو اب تک چلے آ رہے ہیں۔ یوں ان تمام عوامل نے مل کر عام آدمی کے لیے مشکلات کو بڑھایا۔ درمیانہ طبقہ شدید مہنگائی اور سردبازاری کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔

زرعی شعبے کی طرف نظر ڈالی جائے تو وہاں بھی صورت حال بہتر نہیں ہے۔ چھوٹے کسان کا بری طرح معاشی استحصال جاری ہے۔ زرعی پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کے اعداد وشمار بھی اپ ڈیٹ نہیں ہیں۔ بے شک بڑے زمینداروں نے اس بحران میں بھی خاصے پیسے کمائے ہیں لیکن چھوٹے کاشت کار کے حالات بہتر نہیں ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کا زرعی شعبہ مسلسل زوال کا شکار چلا آ رہا ہے۔ چند ایک فصلوں کے علاوہ باقی زرعی شعبہ ترقی نہیں کر سکا۔ نقدآور فصلیں اگانے والے کسان کی فی ایکڑ لاگت میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے جس کی وجہ سے وہ سبزیوں کی کاشت کی جانب کم متوجہ ہو رہا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں سبزیوں کی قیمتوں میں بھی خاصا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

ادرک کی مارکیٹ میں قیمت تین سے چار سو روپے فی کلوگرام تک پہنچ چکی ہے جب کہ ٹماٹر اور مٹر وغیرہ سو روپے فی کلوگرام سے کم میں دستیاب نہیں۔ سبز دھنیا، سبز پیاز، سبز مرچ اور گاجریں وغیرہ جو کبھی سبزی کے ساتھ مفت مل جاتی تھیں، اب ان کی قیمتیں بھی بیس سے پچاس روپے فی کلو گرام کے درمیان ہیں۔ انڈے بھی دو سو روپے درجن مل رہے ہیں۔ پیکٹوں میں بند دودھ کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ادویات کی قیمتوں نے تو حشر برپا کر دیا ہے۔ بعض ادویات کی قیمتوں میں کئی کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے اور یہ اضافہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ خشک میوہ جات درمیانے طبقے کی پہنچ سے ہی باہر ہو گئے ہیں۔ صورت حال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہم بعض دالیں اور سبزیاں بھی درآمد کرتے ہیں۔

ملک کو بیرونی جارحیت سے محفوظ رکھنا ہو یا داخلی طور پر، عوام کو مطمئن رکھنے کے لیے فوڈ سیکیورٹی کو یقینی بنانا سب سے زیادہ ضروری ہے۔ غور کیا جائے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان فوڈ سیکیورٹی کے معاملے میں بھی کمزور پوزیشن پر ہے۔ ملک کے پالیسی ساز بھی شاید زرعی معیشت کو اتنی اہمیت نہیں دے رہے۔ اس وقت بھی حکومتی زعماء کا سارا زور اس بات پر ہے کہ برآمدات بڑھائی جائیں۔

اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ کون سی اشیاء ہیں جن کو بیرون ملک برآمد کر کے پاکستان اپنی اقتصادی مشکلات پر قابو پا سکتا ہے۔ جس ملک میں دالیں، سبزیاں اور خشک دودھ تک بیرون ملک سے درآمد ہو رہا ہو، بڑے بڑے اسٹور غیرملکی اشیاء سے بھرے ہوئے ہوں جب کہ ملک کی چھوٹی چھوٹی مارکیٹوں میں سستی چائنیز پراڈکٹس بک رہی ہوں، وہاں مقامی طور پر ایسی کون سی مصنوعات ہوں گی جنھیں فنشڈ فارم میں برآمد کیا جا سکے۔ ایسی اشیاء کی تعداد ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ خام مال کی بات کریں تو وہاں بھی صورت حال آئیڈیل نہیں ہے۔

پاکستان کے پالیسی ساز اگر سنجیدگی کے ساتھ صرف زراعت اور زراعت سے وابستہ صنعت کی طرف غور کرتے اور اپنے ملک کی ضروریات، موسم، زیرزمین پانی، دریائی پانی اور زمین کی صورت حال کو مدنظر رکھ کر زرعی پالیسی بنائی جاتی تو پاکستان میں سبز انقلاب باآسانی برپا کیا جاسکتا تھا۔ کیا کسی نے کبھی سوچا کہ پنجاب ایک ایسا خطہ ہے جسے غیرملکی بھی ’’دودھ کا گھر‘‘ کہتے تھے۔ اس خطے کی گائے اور بھینس ایسا سونا ہے جسے ہم نے اپنے ہاتھوں سے برباد کر دیا ہے۔

اگر ہم صرف گائے اور بھینس کے لیے کسانوں کو مراعات دیتے تو پاکستان نہ صرف دودھ کی پیداوار میں خودکفیل ہوتا بلکہ دودھ کو برآمد بھی کیا جا سکتا تھا۔ پاکستان میں بکریوں اور بھیڑوں کی بھی ایسی اقسام پائی جاتی ہیں جن کا ثانی پوری دنیا میں نہیں ہے۔ یہ بھیڑ اور بکریاں اچھا خاصا دودھ بھی مہیا کرتی ہیں اور اون بھی۔ اگر اس جانب بھی توجہ دی جاتی تو پاکستان اون اور گوشت میں بھی خودکفیل ہو سکتا تھا۔

خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بھیڑوں اور چھوٹی بکریوں کی بہتات ہے۔ ان علاقوں میں بھیڑ اور بکریوں سے منسلک صنعت کاری کی منصوبہ بندی کی جانی چاہیے تھی۔ یہاں لیمب وول کی صنعت کو باآسانی فروغ دیا جا سکتا تھا اور اب بھی اگر حکام کوشش کریں تو یہاں یہ صنعت خاصی ترقی کر سکتی ہے۔ اس سے بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے دوردراز علاقوں میں کاروبار اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اور ان علاقوں میں مڈل کلاس ابھر کر سامنے آ سکتی ہے۔ اسی طرح پاکستان اپنے دیسی تیل کی صنعت کو باآسانی ترقی دے کر بھاری زرمبادلہ حاصل کرسکتا ہے۔ پاکستان میں سرسوں، توریے اور بنولہ کا تیل صدیوں سے استعمال ہوتا چلا آ رہا ہے، خاص طور پر سرسوں اور توریے کا تیل کھانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

اگر ملک کے کسانوں کو مراعات دی جاتیں اور ان فصلوں کے تیل کو ریفائن کیا جاتا تو یہ دنیا میں زیتون کے تیل کے برابر آ سکتا تھا لیکن کسی بھی حکومت نے اس جانب توجہ نہیں دی۔ پاکستان میں جو صنعت موجود بھی ہے، اس کی وجہ سے زرعی شعبے کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا ہے۔ جتنی زیادہ شوگرملیں پاکستان میں ہیں، ملک کو اتنی شوگر ملوں کی ضرورت نہیں ہے لیکن بغیر سوچے سمجھے کاٹن بیلٹ میں شوگرملز قائم کرنے کی اجازت دی گئی۔

موجودہ حکومت کے پاس ابھی اڑھائی سال کا عرصہ موجود ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کی ٹیم کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور اپنی اولین ترجیح زراعت کو بنانا چاہیے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، اگر اسی پہلو کو سامنے رکھ کر پالیسیاں بنائی جائیں تو پاکستان میں سبز انقلاب بھی آ جائے گا، مویشیوں کی افزائش میں بھی اضافہ ہو گا اور ایگری بزنس بھی بڑھے گا۔ یوں پاکستان خوشحالی کی منزل کی جانب رواں دواں ہو جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔