حسن و توازن سے انحراف کی سزا

شبنم گل  اتوار 3 جنوری 2021
shabnumg@yahoo.com

[email protected]

سردیاں اپنے عروج پر ہیں۔ سردی کی بڑھتی ہوئی شدت ماحولیاتی ابتری کے زمرے میں ڈالی جارہی ہے۔ موسم اپنا فطری توازن کھوچکے ہیں، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسان بہت کم فطرت کے نظام کو سمجھ سکا، وہ فطرت کی دھیمی رفتار کے برعکس خواہشات کے حصول کے لیے تیز دوڑنے لگا تاکہ جلد از جلد کامیابی کی منازل طے کرسکے۔

انسان نے فطرت کے قانون سے کھلواڑ شروع کردیا، جس کا نتیجہ ماحولیات کی تباہی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ ترقی کی دوڑ میں اگر ماحول کی تباہی کے عنصر کے ساتھ،نتائج کی سنگینی کو مد نظر رکھا جاتا تو شاید آج دنیا صحت و ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے سنگین نتائج نہ بھگت رہی ہوتی۔

موجودہ حالات انسان اور فطرت میں ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے وقوع پذیر ہیں۔ آج دنیا کی ترقی یافتہ اقوام بجٹ کا کثیر حصہ ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کی کوشش پر صرف کررہی ہیں جب کہ تیسری دنیا کی آبادی آلودگی سے جنم لینے والی بیماریوں کے علاج پر خوشحالی کا سودا کرنے پر مجبور ہیں۔  کوئی دور تھا جب انسان اور مظاہر فطرت میں ربط باہمی کا تسلسل دکھائی دیتا۔ اس وقت زندگی پرسکون تھی۔ یہ وہ دور تھا جب ادب، فلسفہ و فکری دریافتیں عروج پر تھیں۔

اخلاقی قدروں نے سماج کو آپس میں جوڑکے رکھا تھا مگر انسان کے مزاج میں جلدبازی اور لالچ نے دنیا کے نظام کو درہم برہم کرکے رکھ دیا، وہ دنیا جو محدود وسائل میں خوش تھی وہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں کنزیومرسٹک کلچر کا شکار ہوگئی اور انسانی مزاج میں رویوں کی بدصورتی نے بسیرا کرلیا، جب کہ مظاہر فطرت کے منفرد رنگ ہیں جن میں نمایاں رنگ سکون، صبر و سکوت کا ہے۔ چیزیں اپنے حساب سے پھلتی و پھولتی، بڑھتی اور رنگ بدلتی ہیں، کہیں جلدی نہیں پائی جاتی۔

دریا اپنی دھن میں اک ہی سمت بہتا ہے۔ لہریں اپنا رخ نہیں بدلتیں۔ دریا کبھی بددل نہیں ہوتا، لہروں کا کام شفاف بنانا اور زندگی بانٹنا ہے۔ دریا اپنا کام نہیں بھولتا۔  سبزہ، ہریالی و درخت انسان کی روح سے جڑے ہیں۔ ان کی زندگی میں جلد بازی نہیں ہوتی۔ درخت کو ہی لیجیے پہلے زمین میں جڑ پکڑتا ہے۔ اپنی بنیاد پر مضبوطی سے جما رہتا ہے۔ زمیں میں اپنی شاخیں ہر طرف پھیلا دیتا ہے۔ زمیں سے رشتہ استوار کرنے کے بعد خوب پھلتا و پھولتا اور پھل بانٹتاہے جس کے بعد مضبوطی سے زمین پر شان سے کھڑا رہتا ہے۔ بارش، اندھی و طوفان اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔

انسان نے درخت سے کچھ نہیں سیکھا، انسان اپنی جڑیں مضبوط کیے بغیر بے کراں طاقت چاہتا ہے۔ وہ دھرتی سے تعلق استوار کے بنا زمین پر حکمرانی کرنا چاہتا ہے، وہ اپنی بنیاد سے ہٹ کر زندگی کو تسخیر کرنے کا خواہشمند ہے۔ وہ درخت سے کچھ نہیں سیکھ پایا۔ سیکھنے کے لیے اسے پہلے درخت سے آشنائی پیدا کرنی پڑے گی، چھائوں سے بے غرض محبت کا سلیقہ سیکھنا ہوگا۔

انسان نے لامحدود حکمرانی کے خواب دیکھے اور زمین کا سکون انا پرستی، نسل و مذہب کے نام پر جنگوں کے الاو میں جھونک دیا۔  انسان نے جدت کے نام پر جنگلات تباہ کیے، نقلی بند بناکر پانی سے زندگی چھینی اور اسے زہرآلود کردیا۔ درختوں سے مادی فائدہ حاصل کیا مگر روحانی قوت نہ حاصل کرسکے۔ ربط باہمی کے زیر اثر انسان فطرت سے فکری تخلیق کا ہنر سیکھتا ہے۔ علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا ہے۔

خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو

سکوتِ لالہ و گل سے کلام پیدا کر

شاعر کا دل ویسے ہی کائنات کے بے کراں حسن کا شیدائی ہے۔ رنگ فطرت سے وہ خوبصورت خیال مستعار لیتا ہے۔ شام و سحر سے وہ تحرک حاصل کرتے ہوئے الفاظ کی نئی دنیائیں دریافت کرتا ہے۔ مظاہر کائنات فقط دلکشی کے حامل نہیں ہیں ، فقط بلکہ اپنی گہرائی میں معنویت کے گوہر سمیٹے ہوئے ہیں۔انسان سبزے سے دور ریت کا صحرا بن جاتا ہے کیونکہ وہ ماحول سے کٹ کر نہیں رہ سکتا، مگر شاعر بار بار اس کی لاتعلقی کے بند دروازے پر دستک دیتا ہے۔ ٹیگور کے مطابق:’’میں تمہیں بہار کی اِس دولت سے ایک بھی پھول، اُس بادل سے ایک بھی سنہری کرن نہیں بھیج سکتا۔

اپنے دروازے کھولو اور باہر دیکھو۔

اپنے پروان چڑھتے ہوئے باغ سے سو سال قبل مٹ گئے پھولوں کی معطر یادیں جمع کرو۔اپنے دل کی خوشی میں شاید تم اُس زندہ خوشی کو محسوس کر سکوجو ایک بہار کی صبح نغمہ سرا ہوئی، اپنی پُر مسرت آواز کو سو برس دور بھیجتے ہوئے۔‘‘سچ تو یہ ہے کہ شاعر کا تخیل کبھی پرانا نہیں ہوسکتا۔ صدیاں گذر جانے کے باوجود اس کے الفاظ روح کو تازگی عطا کرتے ہیں۔آنیوالی کل میں جب تتلیاں پھول، پودے و پرندے ماحولیاتی آلودگی کی نظر ہوچکے ہونگے تو کیا فقط شاعر ہی فطرت کے ایک حسین دور کی یاد دلایا کریں گے؟

ہم نے سمندر سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔

سمندر کی گہرائی، بھنور، اسرار، ارتکاز و انتشار انسانی زندگی کے قریب تر ہیں۔ سمندر وسیع و خوبصورت ہونے کے باوجود تشنہ ہے،وہ انسان کی طرح ہے جو سب کچھ عطا کرنے کے باوجود مکمل احساس نہیں عطا کرسکتا۔ وہ کسی بھی وقت احساس کے پیروں تلے اعتبار کی زمین کھسکا لیتا ہے۔ سمندر کا پانی پیاس نہیں بجھاسکتا۔مظاہر فطرت کی تبدیلیوں میں انسانی زندگی کے لیے کئی سبق آموز نتائج پنہاں ہیں جنھیں وہ مستقل نظر انداز کر رہا ہے۔ در حقیقت فطرت کے مزاج سے آشنائی عقلی انکشاف اور وجدانی صلاحیت کے دروازے کھول دیتی ہے۔ بقول جان کیٹس کے ’’ حسن سچائی ہے اور سچائی حُسن، سب کچھ یہی ہے جو دُنیا میں تمھیں جاننا چاہیے۔‘‘

فطرت سچائی، حسن و توازن کا محور ہے جس کی انحرافی کی سزا آج کا انسان جھیل رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔