عوامی راج کا بھوت

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 3 جنوری 2021
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

لنکن کی لاش کو لے کر جنازے کی گاڑی بے پناہ ماتمی ہجوم میں سے گذرتی ہوئی الی نائز کی طرف روانہ ہوئی، تمام گاڑی کریب سے لپٹی ہوئی تھی اور انجن جنازے کے گھوڑے کی طرح بہت بڑے سیاہ کمبل سے ڈھانپا ہوا تھا جس پر سفید ستارے بہت بھلے معلوم ہورہے تھے جب گاڑی شمال کی طرف بڑھی راستے پر لوگ نمودار ہونے شرو ع ہوگئے۔

ان کی تعداد میں جلدی اضافہ ہوگیا، فلاڈلفیا اسٹیشن ابھی بہت دور تھا لیکن دونوں طرف انسانوں کی دیوار نظر آتی تھی جب گاڑی شہر کے اندر پہنچی تو لوگ ہزارو ں کی تعداد میں بازاروں میں جمع تھے اور چلنے پھرنے کے لیے قطعاً کوئی گنجائش نہیں تھی ۔ سوگواروں کی قطار آزادی کے ہال سے تین میل تک پھیلی ہوئی تھی،لوگ دس گھنٹے سے قدم قدم فاصلہ طے کررہے تھے تاکہ لنکن کے چہرے پر آخری نظرڈال سکیں۔

ہفتے کو آدھی رات کے وقت ہال کے دروازے بند کردیے تھے لیکن مشتاقین نے منتشر ہونے سے انکار کردیا رات بھر اپنی جگہ پر کھڑے رہے، اتوار کی صبح تین بجے ہجوم پہلے سے کہیں زیادہ تھا اورلڑکے اپنی جگہ دس ڈالر میں بیچ رہے تھے پیادہ اور گھڑ سوار فوج گلیوں میں آمدو رفت جاری کرنے کی پوری کوشش کررہی تھی اس وقت سیکڑوں عورتیں بے ہوش ہوگئیں اور تجر بہ کار سپاہی جنھوں نے گٹیس برگ کے معر کے میں بڑے بڑے کارنامے سر انجام دیے تھے انتظام کرنے میں ناکام ہوگئے۔

جنازے کی رسومات ادا کرنے سے چوبیس گھنٹے پہلے ہی اسپیشل گاڑیوں کی آمدو رفت شروع ہوگئی اور ہجوم اتنا زیادہ ہوگیا کہ اس سے پہلے اس کی مثال نہیں ملتی ۔ ہوٹل مکان پارک اور دخانی کشتیاں لوگوں سے اٹی پڑی تھیں۔

گزشتہ روز سولہ سفید گھوڑے جن پر حبشی سوارتھے جنازے کی گاڑی کو براڈ وے تک لے گئے اس وقت عورتیں غم سے پاگل ہوئی جاتی تھیں اور گاڑی پر پھول نچاور کررہی تھیں ،اس کے پیچھے ایک لاکھ ساٹھ ہزار کا ماتمی جلو س قدم قدم چلتا ہوا آرہا تھا ،ان کے ہاتھوں میں سیاہ جھنڈیاں تھیں جن پر یہ الفاظ تحریر تھے ’’ خاموش ہوجائو اور سمجھ لو کہ میں خدا ہوں ‘‘ پچاس ہزار تماشائی جلوس کو دیکھنے کے لیے آگے بڑھنے کی کوشش کررہے تھے اور ایک دوسرے کو کچل رہے تھے۔

براڈ وے کے مکانوں کی بالائی منزلوں کی کھڑکیاں کرائے پر اٹھ چکی تھیں ایک کھڑی کاکرایہ 40 ڈالر وصول کیاجاتا تھا کھڑکیوں کے شیشے توڑ دیے گئے تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ باہر جھانک سکیں، گانے والے طائف سفید لباس پہنے بازاروں کے کونوں پر دعائیں ترنم کے ساتھ پڑھ رہے تھے اور بینڈ غم ناک دھنیں بجا رہے تھے ہر منٹ کے بعد ایک سو توپیں داغی جاتی تھیں۔

شہر کے ہال میں جنازے کے پاس بہت بڑا ہجوم تھا کچھ لوگ لنکن کے چہرے کو چھونے کی کوشش میں تھے ۔ صدر لنکن نے اپنی زندگی کی اہم ترین تقریر میںکہا تھا ’’ہمارے بزرگوں نے اس ب اعظم پر ایک نئی قوم کی بنیاد آزادی پراستوار کی اور ان کے پیش نظر ایک ہی مقصد تھا کہ تمام لوگ پیدائشی طورپر برابر ہیں اوریہ قوم خدائے برترکے زیر سایہ آزادی کی فضا میں ایک نیاجنم لے گی اور عوام کی حکومت ان ہی کے تحت اور ان کے فائد ے کے لیے تصور کرہ ارض سے معدوم نہیں ہوگا‘‘ لنکن نے سیاسی مذہب کے طورپر جن الفاظ کو اپنایا وہ یہ ہیں آزادی اور اتحاد ہمیشہ کے لیے ایک چیز ہیں اور نا قابل تقسیم ہیں ۔

آج کل پاکستان کے سیاسی حالات بظاہر بہت گھمبیر نظر آتے ہیں لیکن اصل میں یہ بالکل سیدھے سادے ہیں اس میں کوئی الجھائو نہیں ہے۔ اصل مسائل سب کے سامنے ہیں اور یہ تمام مسائل عوام کے مسائل ہیں۔یاد رہے اتحاد اور اتفاق ہی کامیابی اورترقی کا راز ہیں اتحاد اور اتفاق کے ذریعے ہی سماج میں کافی عرصہ تک آہستہ آہستہ تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں لیکن سماج کی ساخت میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آتی پھر یکایک یہ تسلسل ٹو ٹتا ہے اور انقلاب آتا ہے اور پرانے قسم کے سماج کی جگہ نئی قسم کا سماج آتا ہے۔

ایک نئے سماج کی تشکیل کی راہ پر ہمیشہ اولین قدم آسان نہیں ہوتے جمود پسند اور رجعت پسند ہمیشہ تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں اور یہ ہی کچھ ہمیں آج پاکستان میں دیکھنے کو مل رہاہے کیونکہ رجعت پسند اور جمود پسند قوتوں کو عوامی راج ایک بھوت کی شکل میں نظرآتاہے یہ لوگ دراصل ہر وقت عوام سے خوفزدہ رہتے ہیں وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اگر عوام با اختیار ہوگئے تو انھیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہوگا لیکن اب ان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ پاکستان میں اپنے فرسودہ نظام کو برقرار رکھ سکیں وہ اپنی ساری جاگیریں اور دولت بھی اس مقصد کے لیے خرچ کردیں تو نتیجہ کچھ حاصل نہ ہوگا۔

ان کے لیے یہ ہی بہتر ہے کہ وہ عوامی حاکمیت کے فلسفے پر یقین کرلیں اور عوام کے راستے سے ہٹ جائیں ۔ پاکستان کے عوام نے اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے بہت طویل جدو جہد کی ہے اورپاکستان کے عوام اپنی قربانیوں کو ہرگز رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔

نپولین نے کہا ہے کہ’’ لکڑیاں علیحدہ علیحدہ جلائو تو دھواں دیتی ہے، اکٹھی جلائو تو روشنی فراہم کرتی ہے ‘‘ ایک بات بہت سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا مقابلہ عوام دشمنوں کے ساتھ ہے اور فتح کی واحد ضمانت ہمارے مکمل اتحاد میں ہے ۔پرانی کہاوت ہے کہ شکاری نے جال لگایا، کبوتر پھنس گئے کبوتروں نے باہم صلاح مشورے سے وحدت کا رنگ اختیار کیا اور جال سمیت اڑ گئے ۔ ہم سب کو لنکن کی طرح ان الفاظ کو اپنانا ہوگا کہ’’ آزادی اوراتحاد ہمیشہ کے لیے ایک چیزہیں اور ناقابل تقسیم ہیں ‘‘ کیونکہ لنکن کی کامیابی کا یہی راز تھا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔