ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک دن

سرور منیر راؤ  اتوار 3 جنوری 2021

امریکا میں قیام کے دوران بوسٹن جانے کا اتفاق ہوا۔نیو یارک سے ساڑھے چار گھنٹے کی مسافت پر بوسٹن کا شہر امریکا کا اہم ترین تعلیمی مرکز ہے۔ جاپان کے شہر ٹوکیو کے بعد سب سے زیادہ یونیورسٹیاں ،کالج اور اسکول اسی شہر میں ہیں۔

بوسٹن امریکی ریاست میساچوسٹس Massachusetts کا دارالحکومت بھی ہے۔ بوسٹن ہی وہ شہر ہے جہاں سے 2طیاروں نے اڑ کرنیویارک کے Twin Towerپر حملہ کیا۔ دنیا اس واقعہ کو 9/11کے نام سے یاد کرتی ہے۔بوسٹن کا شمار نیو انگلینڈ میں کیا جاتا ہے۔ نیوانگلینڈ ہی وہ علاقہ ہے جہاں امریکا کی جنگ آزادی لڑی گئی۔بوسٹن کے مضافاتی علاقے ریڈنگز میں ہماری رہائش تھی۔ وہاں سے ہارورڈ یونیورسٹی چند میل کے فاصلے پر ہے۔

ایک دیرینہ دوست کے توسط سے ہارورڈیونیورسٹی دیکھنے کے اسباب بنے ۔ ہم زیرزمین ٹرین کے ذریعے ریڈنگز سے ہارورڈ کے لیے روانہ ہوئے ۔دس منٹ بعدہم ہارورڈ اسکوائر پہنچ گئے۔ ٹیوب اسٹیشن سے باہر نکلتے ہی دائیں جانب ہارورڈ کی عظیم درسگاہ ہے۔ یونیورسٹی میں داخل ہونے کے لیے ایک بڑی چاردیواری میں کئی گیٹ لگے ہیں۔ ہم قریبی گیٹ سے اندر داخل ہوئے تو چند قدم کے فاصلے پر درجنوں ٹورسٹس گائیڈڈ ٹور میں یونیورسٹی کا دورہ کر رہے تھے، ہم بھی اس میں شامل ہو گئے۔ نجی شعبے میں قائم اس یونیورسٹی میں تقریباً20ہزار طالب علم ہیں۔ یونیورسٹی کا رقبہ380ایکٹر پر پھیلا ہوا ہے۔

بے نظیر بھٹو، شوکت عزیز اور پرویز مشرف کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ ہارورڈ یونیورسٹی میں وزٹنگ لیکچرز دیتے رہے ہیں۔اس یونیورسٹی میں وزٹنگ لیکچر دینے والی ممتاز شخصیات کو 5سے 35ہزار ڈالرز تک فی لیکچر ادا کیے جاتے ہیں۔دنیا بھر میں درجہ بندی کے اعتبار سے ہارورڈ یونیورسٹی کو دوسرا نمبر حاصل ہے۔ پہلے نمبر پر بھی بوسٹن میں قائم انفارمیشن ٹیکنالوجی کی یونیورسٹیMIT یونیورسٹی ہی ہے جس کا پورا نامMassachusetts Institute of Technology.ہے۔

ہاروڈ یونیورسٹی کے انتظامی علاقے کو کیمرج کہا جاتا ہے۔اس علاقے کو کیمرج کا نام برطانوی کیمرج یونیورسٹی سے منسوب ہے۔ یہاں کئی دوسرے تعلیمی ادارے بھی ہیں جن میں جان ایف کینیڈی اسکول، اور MITیونیورسٹی بھی ہے۔ MITا نفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم میں دنیا کی ممتاز ترین یونیورسٹی شمار کی جاتی ہے۔کیمرج کا یہ علاقہ علم و تحقیق اور امریکی ادب کا گہوارا ہونے کے ساتھ ساتھ اس ریجن کا ثقافتی اور معاشی مرکز بھی ہے۔مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس نے بھی یہاں تعلیم حاصل کی۔ گریجویشن کی تعلیم کے دوران بل گیٹس اور اس کے کلاس فیلو نے کمپیوٹر کی Windowکو ایجاد کیا جس کی وجہ سے کمپیوٹر کی دنیا میں ایک عظیم انقلاب آیا۔

ہارورڈ یونیورسٹی میں امریکا کے سات سابق صدور اور کئی دوسری ممتاز شخصیات نے تعلیم حاصل کی ۔ ان میں صدر روز ویلٹ اور جان ایف کینیڈی بھی شامل ہیں ۔ بوسٹن کو کینیڈی کا شہر بھی کہا جاتا ہے کینیڈی خاندان کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے۔بوسٹن کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے دنیا کے مشہور دانشور اور اسکالر خلیل جبران نے بھی اپنی جلا وطنی کا عرصہ لبنان سے نکلنے کے بعد بوسٹن میں ہی گزارا۔میں خلیل جبران کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ ٹور گائیڈ ہمیں ایک مجسمے کی طرف لے گیا۔ یہ مجسمہ’’ ہارورڈ‘‘ کا تھا۔ اس یونیورسٹی کی بنیاد1636میں جان ہارورڈ نے رکھی۔یونیورسٹی کا بانی شخص بت بنا بیٹھا تھا۔سبھی باری باری اس مجسّمے کے قدموں میں کھڑے ہو کر تصاویر بنوا رہے تھے۔

یہ شخص تو منوں مٹی تلے دفن ہو گیا لیکن اس نے تعلیم کا جوچراغ ہارورڈ کی شکل میں جلایا اس سے اب تک کروڑوں لوگ فیضیاب ہو چکے ہیں۔ سر سبز و شاداب درختوں اور سبزہ زاروں پر پھیلے یونیورسٹی کے اس احاطے میں امریکی قوم کی ترقی کا راز بھی پوشیدہ ہے۔ اس علاقے میں ہارورڈ یونیورسٹی کے کئی توسیعی کیمپس ہیں لیکن اس یونیورسٹی کا بنیادی اور بڑا کیمپس یہی ہے جو اس وقت ہمارے سامنے تھا۔ یہاں ہمیں ایک پروفیسر خاتون بھی ملی جو ’’گورنمنٹ اور سیاست‘‘ کا مضمون پڑھا رہی تھیں، یہ خاتون اسلام آباد، پشاور اور شمالی علاقہ جات کے دورہ کر چکی ہیں۔ اس نے ہمیں یونیورسٹی کی لائیبریری اور شعبہ ابلاغیات کا تعارف بھی کرایا۔

ہارورڈ یونیورسٹی کی لائیبریری میں ڈیڑھ ارب سے زیادہ کتابیں ہیں۔ یہ دنیا کی چوتھی بڑی لائیبریری ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی لائیبریری برطانیہ میںلائبریری آف کانگریس ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ دنیا کے 75نوبل پرائز اس یونیورسٹی کے طالب علموں نے حاصل کیے ہیں۔ہارورڈ کو امریکا کی قدیم ترین یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہے۔ اس یونیورسٹی کاEndowment Fundـچالیس بلین ڈالر ہے (یہ فنڈ عطیات پر مشتمل ہے) ۔ مالی اعتبار سے یہ یونیورسٹی دنیا کی امیر ترین یونیورسٹی شمار کی جاتی ہے۔

ہارورڈ نے اس ادارے کو ایک اسکول کی حیثیت سے شروع کیا۔اس نے اپنی لائیبریری اور جائیداد کا نصف حصہ ہارورڈ اسکول کے نام کر دیا۔ انیسویں صدی کے آغاز میں اس یونیورسٹی کی صدارت چارلس ایلیٹ Charles Eliot کو ملی ۔ ان کے دور میں ہارورڈ نے بین الااقوامی شہرت حاصل کرنا شروع کی ۔ امریکا اور دنیا کے دوسرے ممالک میں اکثر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد ہارورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرے۔اس یونیورسٹی کے حوالے سے ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ 1970تک ہارورڈ میں Co-Education نہیں تھی ۔ہارورڈ یونیورسٹی کا موٹو ـسچ ہے۔

دنیا کی ٹاپ 200یونیورسٹیوں میں سے 123امریکا میں ہیں۔جب کہ یورپ میں 61،ایشیاء میں 8 اور عرب ممالک میں دو یونیورسٹیاں ایسی ہیں جن کا شمار دنیا کی پہلی200یونیورسٹیوں میں کیا جاتا ہے۔ امریکا میں اس وقت یونیورسٹیوں کی تعدادپانچ ہزار سے زائد ہے۔ یورپ میں چار ہزار سے زائد ،ایشیاء اور مڈل ایسٹ میں ساڑھے تین ہزار جب کہ افریقہ میں 512یونیورسٹیاں ہیں۔ حیران کن بلکہ تشویشناک بات یہ ہے کہ پاکستان کی کسی بھی یونیورسٹی کو دنیا کی پہلی پانچ ہزار یونیورسٹیوں میں شامل نہیںکیا گیا ہے ۔

ہارورڈ یونیورسٹی کا دورہ کرتے ہوئے میں مسلسل یہ سوچتا رہا کہ جن قوموں نے دنیا کی کمان سنبھالی ہے انھوں نے اپنے تعلیمی نظام کو خواہ وہ پرائمری ہو یا ہائر ایجوکیشن دونوں جانب خصوصی توجہ دی ہے۔علم و تحقیق کے انھی گہواروں کی بنیاد پرقومیں سپرپاورز بنتی ہیں اور دنیا کے وسائل اور ٹیکنالوجی ان کے قبضے میں آتی ہے۔میر ی دعا ہے کہ ہمارے حکمران اوردانشور اس بات پر خصوصی توجہ دیں تا کہ مستقبل میں پاکستان کی یونیورسٹیاں بھی اعلیٰ تعلیمی معیار کی بدولت دنیا میں سرفہرست آئیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔