7 برس گزر گئے، سرکاری جامعات کی مانیٹرنگ اور درجہ بندی کا عمل شروع نہ ہوسکا

صفدر رضوی  پير 4 جنوری 2021
کمیٹی نجی جامعات کے انسپکشن تک محدود، سرکاری جامعات کا انسپیکشن نہیں کرسکتے، چیئرمین ڈاکٹرقدیر راجپوت

کمیٹی نجی جامعات کے انسپکشن تک محدود، سرکاری جامعات کا انسپیکشن نہیں کرسکتے، چیئرمین ڈاکٹرقدیر راجپوت

 کراچی:  سندھ میں نجی وسرکاری جامعات کی مانیٹرنگ اوردرجہ بندی (گریڈنگ) اور پرائیویٹ یونیورسٹیز کو چارٹر دینے کی سفارش کرنے والے ادارے ’’چارٹر انسپیکشن اینڈ ایویلیوایشن کمیٹی‘‘اپنے قیام کے مقاصد حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہوگئی ہے۔

کمیٹی کے موجودہ سربراہ قانون سازی کو7برس گزرنے کے باوجودسندھ کی دودرجن کے قریب سرکاری جامعات کی مانیٹرنگ، ایویلیوایشن اوردرجہ بندی کاعمل  شروع کرسکے اور نہ ہی تاحال اس سلسلے میں کوئی نظام یامکینزم  ترتیب دیاجاسکا جبکہ سندھ کی نجی جامعات کی درجہ بندی کے عمل میں بھی سفارش اور اقربا پروری اورکمیٹی کی تشکیل میں بے قاعدگیوں کے بعض معاملات سامنے آئے ہیں۔ واضح رہے کہ چارٹرانسپیکشن اینڈایویلیوایشن کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹرقدیر راجپوت کی دوسری مدت ملازت چند روز بعد جنوری کے دوسرے عشرے میں پوری ہورہی ہے۔

تاہم اب وہ ایک بار پھرتیسری مدت کے لیے اس عہدے کے خواہاں ہیں ۔چارٹرانسپیکشن اینڈ ایویلیوایشن کمیٹی کاقیام سن 2002 میں عمل میں آیا تھا۔ اس وقت اس کمیٹی کاکام سندھ میں نئی بننے والی نجی جامعات اوراسناد تفویض کرنے والے اداروں (ڈگری ایوارڈنگ انسٹی ٹیوٹس) کو قواعد وضوابط کے تحت ان کے قیام کاجائزہ لینا اور حکومت کوان کے چارٹرکی سفارش کرناتھاتاہم وقت کے ساتھ ساتھ اس کمیٹی نے سندھ کی نجی جامعات اور اسناد تفویض کرنے والے اداروں کی انسپیکشن کرکے ان کی گریڈنگ کاسلسلہ بھی شروع کیا۔

7برسوں میں اس کمیٹی نے ایک باربھی سرکاری جامعات میں انسپیکشن کیا اورنہ ہی اسلسلے میں کسی قسم کے رولز فریم کیے گئے ۔ کمیٹی کاجوآرڈیننس سن 2002میں منظورکیا گیا تھا اس کے تحت چیئرمین سی آئی سی کے علاوہ ’’جامعہ کراچی، جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی،سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام اورمہران یونیورسٹی‘‘کے وائس چانسلرزکمیٹی کے مستقل رکن ہیں تاہم اس قانون کے مطابق اگریہ کمیٹی سندھ کی سرکاری جامعات کی انسپیکشن اوردرجہ بندی کرتی ہے توکیا موجودہ اراکین جوخود سرکاری جامعات کے وائس چانسلرزہیں وہ اپنی ہی جامعات کا انسپیکشن کریں گے اوردیگرسرکاری جامعات کے دورے کرکے ان کی درجہ بندی کریں گے ۔

’’ایکسپریس‘‘ کے رابطہ کرنے پر چارٹرانسپیکشن اینڈ ایویلیوایشن کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹرقدیرراجپوت نے کہا کہ ’’ہم نے سرکاری جامعات کے انسپیکشن کے لیے ’’پروفارما‘‘سندھ ایچ ای سی سے منظورکرالیا ہے تاہم کووڈ کے سبب یہ کام شروع نہیں ہوسکا‘‘تاہم جب ان سے استفسار کیا گیا کہ کووڈ تو2020کے اوائل میں آیاہے اس سے قبل 6 سال تک سرکاری جامعات کا انسپیکشن کیوں نہیں کیا گیا اور اس کا فریم ورک کیوں نہیں بنایا گیا جس پر ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

تاہم ان کاکہناتھاکہ ’’موجودہ کمیٹی سرکاری جامعات کا انسپیکشن نہیں کرسکتی، اب سندھ ایچ ای سی کے سربراہ ڈاکٹرعاصم حسین ہی بتائیں گے کہ سرکاری جامعات کا انسپیکشن کون کرے گا‘‘ دوسری جانب چیئرمین چارٹرکمیٹی نے قانون میں گنجائش نہ ہونے کے باوجود سکھروومن یونیورسٹی کی قائم مقام وائس چانسلرڈاکٹرثمرین حسین کواس کمیٹی کاحصہ بنا رکھا ہے۔ دوسری جانب یہ بھی معلوم ہواہے کہ 2018میں آخری بارجاری کی گئی نجی جامعات کی گریڈنگ میں کراچی کی ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کواسی یونیورسٹی کی سفارش پر گریڈنگ کی تمام کیٹگریزسے اس لیے نکال دیا گیا کہ انسپیکشن رپورٹ میں یونیورسٹی کے مارکس انتہائی کم اوردرجہ بندی میں وہ انتہائی نچلے رینک پر تھی۔

اس سلسلے میں چارٹرانسپیکشن کمیٹی کے سربراہ نے اپنے ہی سبجیکٹ ایکسپرٹس پرالزام لگاتے ہوئے بتایاکہ’’جب چارٹرکمیٹی اس یونیورسٹی کے دورے پر گئی تھی تویونیورسٹی کے سیکیورٹی گارڈزنے کچھ ایکسپرٹس کویونیورسٹی کے مرکزی دروازے پر روک لیاتھا جس سے یہ ایکسپرٹس ناراض ہوگئے تھے اورانھوں نے یونیورسٹی کی منفی گریڈنگ کرڈالی جس کے سبب یونیورسٹی نے ہم سے درخواست کی کہ انیں اس بار گریڈنگ کے عمل سے علیحدہ کردیاجائے‘‘ دوسری جانب یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ چارٹر انسپیکشن کمیٹی کے سربراہ نے اپنے دومستقل ’’ٹینیوور‘‘ میں اپنے عہدے کافائدہ لیتے ہوئے سندھ کی بعض سرکاری ونجی جامعات میں اپنے قریبی رشتے داروں کو بھرتی کرالیا۔

اشاہراہ فیصل پرقائم ایک نجی ادارے میں اپنی قریبی عزیزکی بھرتی کرائی اوردرجہ بندی کے وقت اس ادارے کوبہترکیٹگری میں شامل کیا جبکہ ایک عزیز کو سندھ کی انجینیئرنگ یونیورسٹی جبکہ ایک اورکوسندھ کی ایک میڈیکل یونیورسٹی میں بھی بھرتی کرایا۔ ’’ایکسپریس‘‘نے جب اس سلسلے میں ڈاکٹر قدیر راجپوت سے دریافت کیاتوان کاکہناتھاکہ ’’میں تو پرائیویٹ اداروں کا انسپیکشن کرتاہوں جبکہ میرے عزیز سرکاری یونیورسٹی میں ملازم ہیں جواشتہارکے ذریعے اور سلیکشن بورڈکے بعد بھرتی ہوئے ہیں اوراب تک ریگورلرنہیں ہوئے‘‘تاہم جب ان سے پوچھاگیاکہ کیا شاہراہ فیصل پر قائم ایک نجی تعلیمی ادارے میں ان کے قریبی عزیزموجودنہیں جس پر ان کاکہناتھاکہ وہ ایک نچلے عہدے پر کام کرتے ہیں‘‘تاہم ان کاکہناتھاکہ اس کے علاوہ کسی اوریونیورسٹی میں ان کاکوئی عزیز موجود نہیں۔

علاوہ ازیں یہ بھی معلوم ہواہے کہ سندھ ہائرایجوکیشن کمیشن میں سیکریٹری کے عہدے پر کام کرنے والے گریڈ19کے قائم مقام سیکریٹری معین الدین صدیقی ’’سی آئی سی‘‘کے حوالے سے اس تمام ترصورتحال سے آگاہ ہونے کے باوجود بھی موجودہ چیئرمین کواس عہدے پر ’’ایکسٹینشن‘‘دلانا چاہتے ہیں اور سلسلے میں وہ سندھ ہائرایجوکیشن کمیشن ڈاکٹرعاصم حسین کے پاس جاکر ڈاکٹر قدیر راجپوت کی موجودگی میں ان کی مدت ملازمت میں توسیع کی سفارش کرچکے ہیں، ’’ایکسپریس‘‘نے سندھ ایچ ای سی کے قائم مقام سیکریٹری معین الدین صدیقی سے اس سلسلے میں ان کا موقف جاننے کے لیے ان سے کئی باررابطے کی کوشش کی تاہم وہ رابطے سے مسلسل گریزکرتے رہے ۔

دریں اثنا ڈاکٹرعاصم حسین سے جب’’ایکسپریس‘‘نے اس تمام صورتحال پر رائے جاننے کے لیے ان سے رابطہ کیا توان کا کہنا تھا کہ’’چارٹرانسپیکشن کمیٹی سندھ ایچ ای سی کاذیلی ادارہ ہے لیکن قدیرراجپوت ایچ ای سی کے ماتحت رہنے کے بجائے قانون کے برخلاف محکمہ یونیورسٹیزاینڈبورڈزکے ماتحت رہ کرکام کرناچاہتے ہیں‘‘ اپنی بات کی دلیل دیتے ہوئے ان کاکہناتھاکہ ’’ڈاکٹر قدیر راجپوت نے کچھ ماہ قبل محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کے ذریعے حکومت سندھ کوایک سمری بھی بھجوائی تھی جس میں حکومت سندھ سے سفارش کی گئی تھی کہ چارٹرکمیٹی کو سندھ ایچ ای سی کے بجائے محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کے ماتحت کردیاجائے جبکہ قانون کے تحت ایسانہیں ہوسکتا۔‘‘ ڈاکٹرعاصم کامزیدکہناتھاکہ وہ چارٹرکمیٹی کا آئندہ چیئرمین میرٹ پر لائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔