- فیصل واوڈا نے عدالتی نظام پر اہم سوالات اٹھا دیئے
- پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط 29 اپریل تک ملنے کا امکان
- امریکی اکیڈمی آف نیورولوجی نے پاکستانی پروفیسر کو ایڈووکیٹ آف دی ایئر ایوارڈ سے نواز دیا
- کوہلو میں خراب سیکیورٹی کے باعث ری پولنگ نہیں ہوسکی
- 9 ماہ کے دوران 9.8 ارب ڈالر کا قرض ملا، وزارت اقتصادی امور ڈویژن
- نارووال: بارات میں موبائل فونز سمیت قیمتی تحائف کی بارش
- کراچی کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے
- کوئٹہ: برلن بڈی بیئر چوری کے خدشے کے پیش نظر متبادل جگہ منتقل
- گجرات میں اسپتال کی چھت گرنے سے خاتون سمیت تین افراد جاں بحق
- سعودی فرمانروا طبی معائنے کیلیے اسپتال میں داخل
- امریکی سیکریٹری اسٹیٹ سرکاری دورے پر چین پہنچ گئے
- ہم یہاں اچھی کرکٹ کھیلنے آئے ہیں، جیت سے اعتماد ملا، مائیکل بریسویل
- پچھلے میچ کی غلطیوں سے سیکھ کر سیریز جیتنے کی کوشش کرینگے، بابراعظم
- امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی کا بل سینیٹ سے بھی منظور
- محمد رضوان اور عرفان خان کو نیوزی لینڈ کے خلاف آخری دو میچز میں آرام دینے کا فیصلہ
- کے ایم سی کا ٹریفک مسائل کو حل کرنے کیلئے انسداد تجاوزات مہم کا فیصلہ
- موٹروے پولیس اہلکار کو روندنے والی خاتون گرفتار
- ہندو جیم خانہ کیس؛ آپ کو قبضہ کرنے نہیں دیں گے، چیف جسٹس کا رمیش کمار سے مکالمہ
- بشری بی بی کو کچھ ہوا تو حکومت اور فیصلہ سازوں کو معاف نہیں کریں گے، حلیم عادل شیخ
- متحدہ وفد کی احسن اقبال سے ملاقات، کراچی کے ترقیاتی منصوبوں پر تبادلہ خیال
پرامید رہنے والے ’نقصان دہ حرکتوں‘ سے بھی باز رہتے ہیں، تحقیق
لندن: ’’جو لوگ اپنے مستقبل کے بارے میں پرامید ہوتے ہیں وہ اپنی صحت اور مالی حالات کو نقصان پہنچانے والی ’حرکتوں‘ سے بھی باز رہتے ہیں۔‘‘ یہ خلاصہ ہے اس نتیجے کا جو برطانیہ کی یونیورسٹی آف ایسٹ اینجلیا (یو ای اے) میں ایک ہی نوعیت کے تین الگ الگ مطالعات کے بعد اخذ کیا گیا ہے۔
ان مطالعات میں بالترتیب 55، 51 اور 236 رضاکار شریک کیے گئے جن کی عمریں 18 سے 60 سال تک تھیں۔
تینوں مطالعات میں مختلف طریقے استعمال کرتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ سماجی و معاشی طور پر دوسروں کے مقابلے میں کم تر ہونے کا احساس انسانی مزاج میں کس طرح کی تبدیلیاں پیدا کرتا ہے۔
’’میں بھی تو اتنا ہی قابل ہوں۔ پھر میرے پاس وہ سب کچھ کیوں نہیں جو میرے فلاں دوست/ سہیلی/ کولیگ کے پاس ہے؟‘‘ مالی اور سماجی طور پر دوسروں کو خود سے بہتر دیکھ کر اس طرح کی سوچ اختیار کرنے کا عمل نفسیات کی اصطلاح میں ’’نسبتی محرومی‘‘ (relative deprivation) کہلاتا ہے جو دنیا بھر میں بہت عام ہے۔
’’دوسروں کے مقابلے میں محروم رہ جانے کا احساس اتنا عام ہے کہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر، کسی بھی شخص کو ہوسکتا ہے،‘‘ یو ای اے میں نفسیات کے ماہر، ڈاکٹر شہریار کشاورز نے کہا جو اس مطالعے کے مرکزی مصنفین میں سے ایک ہیں۔
’’ہمارے سامنے سوال یہ تھا کہ آخر وہ کیا چیز ہے جو کسی انسان کو احساسِ محرومی کے ہاتھوں مجبور کرکے شراب نوشی، منشیات، جوئے، بسیار خوری جیسی خراب عادتوں کا شکار بنا دیتی ہے؛ حالانکہ دوسرے لوگ بھی اسی احساسِ محرومی میں مبتلا ہونے کے باوجود ان عادتوں کو اختیار نہیں کرتے،‘‘ ڈاکٹر کشاورز نے بتایا۔
ان تینوں مطالعات واضح طور پر معلوم ہوا کہ جو لوگ اپنے مستقبل کے بارے میں پرامید ہوتے ہیں، وہ سماجی احساسِ محرومی کا بہ آسانی سامنا کرتے ہوئے ایسی کوئی بھی حرکت کرنے سے گریز کرتے ہیں جس کے نتائج ان کی صحت اور معاشی حالت، دونوں کےلیے خطرناک بن سکتے ہوں۔
’’امید انہیں حوصلے کے ساتھ ساتھ خوشی بھی دیتی ہے اور یہی کیفیت انہیں غلط یا نقصان دہ عادتوں میں پڑنے سے روکے رکھتی ہے،‘‘ ڈاکٹر کشاورز نے وضاحت کی۔
اس کے برعکس، آنے والے وقت میں بہتری کی امید جیسے جیسے کم ہوتی جاتی ہے، ویسے ویسے انسان میں خطرے مول لینے یا غلط عادتیں اختیار کرنے کا رجحان بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔
مثلاً وہ نہ صرف جواری بن جاتا ہے بلکہ جوئے میں بھی ’آر یا پار‘ والی بازیاں کھیلتا ہے۔ علاوہ ازیں شراب نوشی اور منشیات کے استعمال کا تعلق پہلے ہی مایوسی کے ساتھ واضح ہوچکا ہے۔
ٹھیک اسی طرح مستقبل کے بارے میں ناامیدی ڈپریشن کو بھی جنم دیتی ہے جس سے متاثر ہو کر اکثر لوگ ہر وقت کچھ نہ کچھ کھانے کے عادی ہوجاتے ہیں؛ نتیجتاً وہ اپنی صحت کا اور بھی کباڑا کرلیتے ہیں۔
مذکورہ تینوں مطالعات میں اُمید اور بری عادتوں سے محفوظ رہنے میں تعلق بہت مضبوط تھا: جو لوگ جتنے زیادہ پر امید تھے، انہوں نے خود کو بری عادتوں اور حرکتوں سے اتنا ہی زیادہ بچائے رکھا رکھا؛ چاہے وہ سماجی احساسِ محرومی میں مبتلا ہی کیوں نہ ہوں۔
اس تحقیق سے پُرامید رہنے کی اہمیت ثابت ہوتی ہے اور خود کو بری عادتوں اور حرکتوں سے محفوظ رکھنے کا ایک آسان طریقہ بھی سامنے آتا ہے جسے کوئی بھی بہ آسانی اختیار کرسکتا ہے۔
نوٹ: اس تحقیق کی تفصیلات ریسرچ جرنل ’’گیمبلنگ اسٹڈیز‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔