فوج غداری کیس میں میرے دفاع میں کہاں تک جاسکتی ہے یہ آرمی چیف پر منحصر ہے، پرویز مشرف

ویب ڈیسک  پير 30 دسمبر 2013
غداری کا مقدمہ سیاسی ہے اس میں کوئی حقیقت نہیں، پرویز مشرف ۔ فوٹو: اے ایف پی/ فائل

غداری کا مقدمہ سیاسی ہے اس میں کوئی حقیقت نہیں، پرویز مشرف ۔ فوٹو: اے ایف پی/ فائل

اسلام آباد: سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ پاک فوج میں حتمی فیصلہ آرمی چیف کرتا ہے اس لئے وہ غداری کیس کا معاملہ ان پر چھوڑتے ہیں کہ وہ ان کے دفاع میں کہاں تک جاسکتے ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں سابق صدر کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف غداری کا مقدمہ سیاسی ہے، اس میں کوئی حقیقت نہیں اور وہ اس کیس کا بھر پور سامنا کریں گے اور انہیں توقع ہے کہ ملک کی اعلی عدلیہ انہیں انصاف دے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج ایک منظم ادارہ ہے اور انہوں نے اس میں کئی دہائیاں گزاری ہیں اس دوران ملک کے دفاع کے لئے کئی جنگیں بھی لڑیں، اس لئے انہیں فوج کی عمومی رائے کا اندازہ ہے، وہ یہ بات کہتے ہیں کہ غداری کیس پر فوج میں تشویش اور ناراضگی ہے لیکن چونکہ پاک فوج ایک نہایت منظم ادارہ ہے جہاں عسکری حکام سے کسی معاملے پر رائے تو لی جاتی ہے لیکن حتمی فیصلہ آرمی چیف ہی کرتا ہے، اس لئے وہ بھی اپنا معاملہ آرمی چیف پر چھوڑتے ہیں کہ وہ ان کے دفاع میں کہاں تک جاسکتے ہیں۔

ان پرغداری کے مقدمے اور اس کی سماعت کے معاملے پر پاک فوج کی خاموشی کو رضامندی قرار دینے سے متعلق سوال پر پرویزمشرف کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ اشفاق پرویز کیانی ہی بہتر بتا سکتے ہیں کیونکہ اس وقت وہ پاک فوج کے سربراہ تھے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کئی معاملات سامنے نہیں لائے جاتے نہ ہی اس پر کھل کر بات کی جاتی ہیں، کوئی بھی بات میڈیا میں آجائے تو اس بات کا بتنگڑ بنادیا جاتا ہے، طرح طرح کی افواہیں گردش کرنے لگتی ہیں اور جھوٹ کو سچ بنا دیا جاتا ہے اس لئے کسی بھی معاملے پر خاموشی کو ہی بہتر سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صرف فوج ہی نہیں عام آدمی بھی آج ان کے دور کو یاد کرتا ہے  کیونکہ ان کے دوران میں غربت میں کمی ہوئی تھی اور لوگوں کی قوت خرید میں اضافہ ہوا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔