کورونا وبا اور لاک ڈاؤن؛ ریشم سازی کا پیداواری ہدف پورا نہیں ہوسکا

آصف محمود  منگل 5 جنوری 2021
پاکستان ریشم کی امپورٹ پر64 ارب روپے زرمبادلہ خرچ کررہا ہے فوٹو: فائل

پاکستان ریشم کی امپورٹ پر64 ارب روپے زرمبادلہ خرچ کررہا ہے فوٹو: فائل

 لاہور: پنجاب میں کورونا وائرس اورلاک ڈاؤن کی وجہ سے ریشم کے سازی کی گھریلوصنعت کو بڑا دھچکا لگا ہے۔

شعبہ سیری کلچر پنجاب نے 2020 میں ایک ہزار خاندانوں کو ریشم کا بیج فراہم کرنا تھا تاکہ وہ اپنے گھروں میں ریشم کے کیڑے پال کر ریشم تیار کرسکیں لیکن کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے چین سے بیج درآمد نہیں ہوسکا تھا۔

سیری کلچر پنجاب کے اسسٹنٹ ڈائریکٹرمحمدفاروق بھٹی نے بتایا کہ ہمارے پاس جو تھوڑا ذخیرہ موجود تھا وہ دو، ڈھائی سو خاندانوں کو دیا گیا لیکن بدقسمتی سے ہمارا ہدف پورا نہیں ہوسکا ہے۔ اس سال اخوت کے تعاون سے ریشم کے کیڑے پالنے والے خاندانوں کو 20 سے 25 ہزار روپے سامان خریدنے اور چار ہزار روپے فی خاندان ریشم کا بیج خریدنے کے لئے قرض حسنہ دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا لیکن دوسری طرف ہم بیج امپورٹ نہیں کرسکے ہیں جبکہ جو مقامی بیج ہے اس کے نتائج بہتر نہیں آتے ہیں۔

محمد فاروق بھٹی کے مطابق اس وقت دنیا میں ریشم کی طلب پوری کرنے کے لئے 46.5فیصد مصنوعی ریشم استعمال ہو رہی ہے جس کے انسانی صحت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ اسی وجہ سے ہم نے نجی شعبہ کے اشتراک سے غیر ملکی سلک بیج سے ریشم کی گھریلو صنعت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے جس سے ملک میں ریشم کی پیداوار کا ہدف حاصل ہونے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں ۔ اس وقت قصور کے علاقہ چھانگا مانگا اورقریبی دیہات میں ایک ہزارسے زائد خاندان ریشم سازی اور گھروں میں ریشم کے کیڑے پالنے کی صنعت سے وابستہ ہیں۔

چھانگامانگا کے رہائشی برکت علی نے بتایا کہ وہ لوگ کئی برسوں سے گھروں میں ریشم کے کیڑے پال رہے ہیں، اس کام میں خواتین بھی ان کا ساتھ دیتی ہیں، یہ بہت آسان کام ہے اوراس سے اچھی آمدن ہوجاتی ہے لیکن اس سال ہمیں بیج نہیں مل سکا، محکمے والے کہتے ہیں کہ کورونا کی وجہ سے بیج پاکستان نہیں لایاجاسکا۔ہمارے لئے یہ مشکل سال تھا۔ اسی علاقے کی رہائشی نجمہ بی بی کا کہنا ہے چین سے جوبیج ملتا ہے اس سے بڑی جلدی اورصحت مندکیڑے پیداہوتے ہیں جومقامی بیج ہے اس سے زیادہ اچھی پیداوارنہیں آتی ہے۔انہوں نے کہا امید ہے کہ کوروناختم ہونے کے بعد ان کے گھروں میں دوبارہ رونقیں بحال ہوں گی اوروہ ریشم کے کیڑے پال سکیں گے

محمد فاروق بھٹی نے بتایا کہ ہماراچین کی ایک کمپنی سے ایگریمنٹ ہوگیا ہے، فروری کے دوسرے ہفتے بیج پاکستان پہنچ جائے گا اور نئے سال میں ہم دوبارہ سے ریشم کے کیڑے پالنے کا سلسلہ شروع کرسکیں گے۔ ریشم کے بیج کے ایک پیکٹ کی قیمت 2 ہزار روپے ہے جس سے 30 ہزار کے قریب انڈے پیدا ہوتے ہیں۔ ریشم کی ٹوٹیاں چھانگا مانگا کی مقامی منڈی میں ہی 750 سے 850 روپے فی کلو کے حساب سے فروخت کی جارہی ہیں۔ ایک پیکٹ سے ایک خاندان کو ایک ماہ میں 30 سے 35 ہزار روپے کمائی ہوتی ہے ، اگر ایک خاندان دو پیکٹ استعمال کرتا ہے تواس سے آمدن دوگنا ہوجاتی ہے۔

سیری کلچرکی رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان ریشم کی امپورٹ پر64 ارب روپے زرمبادلہ خرچ کررہا ہے، گزشتہ سال 5 لاکھ کلوریشم امپورٹ کیا گیا تھا۔محمدفاروق بھٹی کہتے ہیں کہ اب ہم نے ریشم سازی کی صنعت کو دوبارہ زندہ کیا ہے۔ پنجاب کے مختلف علاقوں چھانگا مانگا، چیچہ وطنی، منڈی بہاؤالدین، سرگودھا، فیصل آباد، میاں چنوں ،بہاولپور اور گجرات وغیرہ میں سینکڑوں ایکڑ زمین پر شہتوت کے درخت لگائے گئے اور غیر ملکی ریشم بیج منگوایا گیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماراہدف ایک لاکھ خاندانوں کو روزگارمہیاکرنا ہے جس سے ہم ریشم کی پیداوارمیں خودکفیل ہوجائیں گے اورقیمتی زرمبادلہ بچایا جاسکے گا۔

ریشم کی پیداواربڑھانے میں چین کے سلک بیج نے بھی اہم کردار اداکیا ہے۔ اس بیج کی مدد سے اب سال میں دوبار فروی ،مارچ اوراپریل جبکہ ستمبر،اکتوبر اورنومبرمیں بھی ریشم کے کیڑوں کو پالنا ممکن ہوگیا ہے۔ اس سے قبل صرف فروی سے اپریل تک ہی کیڑے پالے جاسکتے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔