سی پیک کو نشانہ بنانے والے کون ہیں؟

سالار سلیمان  جمعرات 7 جنوری 2021
سی پیک کا عظیم منصوبہ روز اول سے ہی پروپیگنڈے کی زد میں ہے۔ (فوٹو: فائل)

سی پیک کا عظیم منصوبہ روز اول سے ہی پروپیگنڈے کی زد میں ہے۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان کے پہلے مسائل کم نہیں کہ اُس پر ہر روز ایک نیا ’’کٹا‘‘ کھول دیا جائے۔ موجودہ دور میں میڈیا سے جتنا پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے، اس سے قبل شاید ہی کیا جاتا رہا ہو۔ اچھے بھلے ہیرو کو ولن اور ولن کو ہیرو بنادیا جاتا ہے۔ ایک مدت کے بعد یہ راز کھلتا ہے جسے ہم ہیرو سمجھتے رہے، وہ تو رہبر کے روپ میں رہزن تھا۔ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہے۔

سی پیک کی مثال لیجئے۔ جس دن سے اس کا آغاز ہوا ہے، اس دن سے یہ پروپیگنڈے کی زد میں ہے۔ بھارت کی جانب سے یا کسی اور پڑوسی ملک کی جانب سے اگر کوئی پروپیگنڈہ کیا جائے تو سمجھ میں آتا ہے، لیکن جب یہی زہریلا پروپیگنڈہ ہماری ہی قوم کے ناپختہ اذہان کو بھٹکانے کا موجب بن جائے اور وہ دشمن کی زبان بولنے لگ جائیں تو پھر جواب دینا فرض عین ہے، قرض ہے، جس کی بروقت ادائیگی ضروری ہے۔ میں استاد محترم رضی صاحب کا مشکور ہوں کہ ان کی رہنمائی حاصل رہتی ہے۔ ابھی کا تازہ پروپیگنڈہ یہ ہے کہ ’’سی پیک اصل میں پاکستان کو قرضوں کے جال میں پھنسانے کی سازش ہے‘‘۔

سب سے پہلے تو یہ سمجھیے کہ دو ریاستوں کے مابین قرض بابت کیسے تعلقات ہوسکتے ہیں؟ پہلا تو ریاست کا ریاست سے قرض ہوتا ہے۔ سی پیک میں یہی قرض شامل رہا تھا۔ اس حوالے سے چین نے گزارش کی تھی کہ یہ قرض صرف پاکستان کےلیے ہے اور آپ نے مہربانی کرکے کسی سے اس کا ذکر نہیں کرنا ہے۔ اس میں نہ ہونے کے برابر شرح سود تھی اور بہت سی جگہوں پر شرح سود تھی ہی نہیں۔ موجودہ حکومت کو سیلوٹ ہے کہ اس نے ’’مبینہ طور پر‘‘ ان قرضوں کی ساری معلومات آئی ایم ایف کے ساتھ شیئر کردی۔ آئی ایم ایف کا دوسرا مطلب امریکا ہی ہے۔ آئی ایم ایف کا ایشیائی ممالک اور مشرق وسطیٰ میں کیا کام ہے؟ کسی کو سمجھنے کی جستجو ہے تو مصر کے ماڈل کو پڑھ لے۔ یہ معلومات کے لیک آؤٹ ہونے پر چین کا کیا ردعمل تھا، وہ ہم کسی اور کالم میں بتائیں گے۔ سرِ دست قرض کی دوسری قسم کو دیکھتے ہیں۔

دوسری قسم ہوتی ہے جس کو پروجیکٹ لون کہا جاتا ہے۔ یہ کیا ہوتا ہے؟ یہ قرض بہت بڑے بڑے منصوبے بنانے کےلیے فراہم کیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک ڈیم بنانا پاکستان جیسی ریاست کے بس کی بات نہیں ہوتی ہے۔ اس کا ابتدائیہ ہی کئی بلین روپے کا ہے، تو غریب معیشت ایسی باتیں افورڈ ہی نہیں کرسکتی۔ لیکن یہ معاملات ضروری بھی ہوتے ہیں تو اس کےلیے مختلف سورسز سے قرض حاصل کیا جاتا ہے۔ اِن میں پہلی ترجیح مقامی بینک، ٹیکس نیٹ وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ اس کے بعد بین الاقوامی بینکس سے بات کی جاتی ہے یا پھر دوست ممالک سے درخواست کی جاتی ہے۔ ہم نے پروجیکٹ لون کےلیے چین سے درخواست کی۔ چین نے یہ درخواست اپنے بینکنگ چینل سے پوری کروا دی، جہاں بین الاقوامی شرح سود زیادہ سے زیادہ 3 فیصد تک ہے۔

اب قرض کی تیسری قسم ہوتی ہے ۔وہ ریاست آپ کےلیے قرض کا بندوبست کردیتا ہے۔ آپ کو سو روپے چاہئیں۔ آپ نے دوست سے بات کی۔ دوست نے کہا کہ تم فلاں بندے سے 100 روپے لے لو، باقی میں دیکھ لوں گا، تم نے مجھے یہ پیسے اتنی مدت میں واپس کرنے ہیں۔ یہی یہاں بھی ہوا تھا۔ ہم نے سعودیہ کو قرض واپس کرنا تھا، ہم نے بغلیں جھانکیں، سارے ہی دوست ممالک جو ماضی میں ہماری مدد کرتے آئے ہیں، انہوں نے انکار کردیا۔ ہم نے اس کےلیے بھی چین کا در کھٹکھٹایا۔ چین نے یہ ضرورت بھی 3 یا ساڑھے 3 فیصد کمرشل انٹرسٹ ریٹ کے ساتھ اپنے ہی بینکنگ چینل سے پوری کروا دی۔

اب مجھے سمجھائیے کہ سری لنکا کی بندرگاہ کا سی پیک سے یا اِن قرضوں سے کیا تعلق ہے؟ میجر گروواریا ہی سمجھا دے کہ کیسے اُس نے یہ تعلق نکال لیا ہے؟ سری لنکا اور چین کے معاملات اس حوالے سے بالکل ہی الگ تھے۔ ہاں یہ ہے کہ سری لنکا کی اس بندرگاہ پر موجودگی سے بھارت کو خطرہ ہے۔ لیکن توپوں کا رخ پاکستان کی جانب کیوں کردیا؟ مجھے تو یہ بھی شک ہوتا ہے کہ کل کو بھارت اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کا ذمے دار بھی پاکستان کو ہی نہ ٹھہرا دے۔

پاکستان کی قسمت کہہ لیجیے کہ پاکستان جس جگہ موجود ہے، وہ اس خطے کی قیمتی ترین جگہ ہے۔ اس کا اندازہ شاید 1958 تک کسی کو بھی نہیں تھا اور جب اندازہ ہوا تو اس کے بعد سے ہی یہ خطہ غیر مستحکم ہے۔ سی پیک دنیا کے قیمتی ترین روٹس میں سے ایک ہے۔ ایک طرف سمندر ہے اور دوسری جانب خشکی کا لمبا راستہ۔ جس کو اگر طریقے سے استعمال کیا جائے تو یورپ تک رابطہ ہوسکتا ہے۔ یہ تو سب ہی کو علم ہے کہ سب سے سستا راستہ خشکی کا ہوتا ہے اور اس کے بعد سمندر کا چھوٹے سے چھوٹا راستہ سب سے سستا ہوتا ہے۔ ہم نے اس سے قبل عرض کیا تھا کہ آنے والے دنوں میں ہمسائیوں کے علاوہ ترکی اور روس بھی اس بیلٹ میں شامل ہوں گے۔ ترکی اس بیلٹ میں شامل ہونے کےلیے سنجیدہ ہوچکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس سمندری راستے سے ترکی آج تجارت کررہا ہے، وہ اسے سی پیک کے روٹ کی نسبت 60 فیصد تک مہنگا پڑتا ہے۔ اسی طرح روس بھی یورپ تک سی پیک کے راستے جانا چاہتا ہے۔ ون بیلٹ، ون روڈ کا خواب یہی ہے۔

ایسے حالات میں جب روایتی دوست قرض واپس مانگ رہے ہیں تو چین ہمیں مزید قرض بھی دینے کو تیار ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ چین کا پاکستان کے ساتھ بزنس انٹرسٹ ہے۔ اس کے ساتھ چین کا اس خطے میں اسٹرٹیجک انٹرسٹ بھی ہے۔ اس سوال کا جواب تلاش کیجیے کہ کیوں امریکا اس وقت چین کو سمندری راستوں میں گھیر رہا ہے؟ سی پیک چین کی بقا کےلیے بھی ضروری ہے کہ اگر چین کا ایک دروازہ مختصر وقت کےلیے بند ہوتا ہے تو دوسرا دروازہ کھلا رہے گا اور اگر دونوں دروازے ہی کھلے رہیں گے تو ظاہر ہے کہ چین کو دہرا فائدہ ہوگا۔

اب یہ نقطہ بھی یاد رکھئے گا کہ جہاں بھی تزویراتی سرمایہ کاری ہوتی ہے، وہاں پر قرضوں کا جال نہیں بچھایا جاسکتا، کیونکہ ایسی صورت میں قرض دینے والی پارٹی ہمیشہ نقصان میں رہتی ہے۔ پاکستان نے چین کا قرض واپس کرنا ہے۔ درست ہے۔ لیکن اس قرض کی واپسی میں لمحہ موجود میں دستیاب سہولیات شامل ہیں۔ سی پیک میں کوئی قرض کا جال نہیں ہے، یہ پرافٹ اینڈ لاس کی گیم ہے اور یہ ایک الگ بحث ہے کہ اس پرافٹ اینڈ لاس میں کون کتنا پرافٹ میں ہے اور کسے کتنا پرافٹ ہونا چاہیے تھا۔

امریکا اور بھارت تو سی پیک کے کاندھے پر بندوق رکھ کر چین کو لازمی نشانہ بنائیں گے، لیکن یہ آوازیں پاکستان سے کیوں بلند ہورہی ہیں؟ کیا ان کے علم میں یہ معلومات اور معاملات نہیں ہیں؟ کیا یہ ان کے زر خرید ایجنٹ تو نہیں، جن کا کام ہی جھوٹی اطلاعات پھیلا کر کنفیوژن پیدا کرنا ہے؟ کون ہیں یہ لوگ؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔